محمد اسلم لودھی
یہ بات اب ثابت ہوچکی ہے کہ سیاسی میدان میں پیپلز پارٹی کا کوئی ثانی نہیں
رہا ۔ کیونکہ اس نے قومی اسمبلی میں واضح اکثریت نہ ہونے اور مخالفین کے
تمام تر دعوؤں کے باوجود نہ صرف اب تک اپنا اقتدار قائم رکھا ہے بلکہ بجلی٬
گیس کی لوڈشیڈنگ ٬پٹرول کی گرانی ٬کرپشن کے میدان میں بین الاقوامی شہرت ٬
قیامت خیز مہنگائی ٬ معیشت کی تباہی ٬ بے روزگاری کے نہ ختم ہونے والے عذاب
٬ ہزاروں کی تعداد میں فیکٹریوں کارخانوں کی بندش کے باوجود اپنے ووٹر
حلقوں میں مقبولیت کو گرنے بھی نہیںدیا ۔اخبارات میں شائع ہونے کے تجزیوں
اور جائزوں میں یہ دعویٰ کئے جاتے رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی بطور خاص صدر کی
مقبولیت کا گراف کم ہورہاہے لیکن آزاد کشمیر کے حالیہ الیکشن کے حیران کن
نتائج نے یہ ثابت کردیا ہے کہ پیپلز پارٹی کو ختم کرنا یا کمزور کرنا شاید
کسی کے بس کی بات نہیں ہے ۔ وزیر اعظم پاکستان نے صرف چند ایک مقامات پر
جلسے کئے لیکن اس کے برعکس میاں برداران اور ایم کیو ایم نے ایڑی چوٹی کا
زور لگا لیا بھرپور کامیابی پھر بھی حاصل نہ ہوسکی ۔ہارنے والے دھاندلی کے
لاکھ الزامات لگائیں لیکن ان کے دعوؤں میں کوئی حقیقت نظر نہیں آتی کیونکہ
قومی تاریخ میں کسی بھی الیکشن کومنصفانہ قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ ہر الیکشن
میں برسراقتدار لوگ من چاہے نتائج حاصل کرنے کے لیے سرکاری وسائل اور مرتبے
کے ساتھ ساتھ ہر وہ حربہ آزماتے رہے ہیں جو ان کے بس میں ہو ۔ اس ماحول میں
آصف علی زرداری کا یہ بیان نہایت معنی خیز اور دلچسپ ہے کہ مدت پوری کرکے
مخالفین کو اگلے قومی الیکشن میں بھی اپنی مقبولیت دکھا دیں گے میں سمجھتا
ہوں کہ وہ سچ ہی کہتے ہیں۔رحمان ملک اور مرحوم سلمان تاثیر بھی بارہا مرتبہ
اس امر کا دعویٰ کرچکے ہیں کہ مخالفین صبر کریں اگلے دس سال بھی پیپلز
پارٹی کے ہی ہیں۔ بے شک عمران خان ابھرتے ہوئے عوامی لیڈر ہیں اور نوجوان
نسل انہیں وزیر اعظم بھی دیکھنا چاہتی ہے ۔لیکن آزاد کشمیر کے حالیہ الیکشن
کے نتائج کو دیکھ کر یہ سب دعویٰ صرف مذاق دکھائی دیتے ہیں ۔ عمران خان تو
کجا نواز شریف بھی فرینڈلی اپوزیشن کاکردار ادا کرکے اپنی مقبولیت کھو
بیٹھے ہیں ۔سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ وہ کونسی سہولت یا آسانی ہے جو پیپلز
پارٹی نے اپنے ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں عوام کو فراہم کی ہے ۔ روٹی
کپڑا مکان جس کو فراہم کرنے کا دعویٰ پیپلز پارٹی پچھلے چالیس سالوں سے
کرتی آرہی ہے ووٹ دینے والے اب انہی سہولتوں کو ترس رہے ہیں خودکشیوں کا
گراف اوپر سے اوپر جارہاہے ۔ تعلیم اس حد تک مہنگی کردی ہے کہ غریب انسان
اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلوا سکتا اور جو دلواتا ہے اس کو ملازمت ہی نہیں
ملتی ۔چنانچہ فقیروں اوربھکاریوں کی فوج ظفرموج گلی محلوں بطور خاص لاہور
شہر کے ہر چوراہے پر اور بیچارے مزدور مزدوری اور روزگار کی تلاش میں بیٹھی
نظر آتی ہے ۔ موجودہ حکومت سے عوام کی اکثریت تو انتہائی مایوس ہے لیکن
حکمران طبقہ خوشحال سے خوشحال ہوتا جارہا ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
پیپلز پارٹی الیکشن میں کامیابی کیسے حاصل کرلیتی ہے ۔ اگر یہ کہاجائے تو
غلط نہ ہوگا کہ پیپلز پارٹی کا ورکر یعنی جیالا تمام تر پریشانیوں٬
زیادتیوں اور تکلیفوں کے باوجود اپنا ووٹ صرف پیپلز پارٹی کو دینے کا پابند
ہے اس کے برعکس پیپلزپارٹی کے مخالف ووٹ ہمیشہ تقسیم در تقسیم ہوتے رہتے
ہیں ۔آزادکشمیر میں بھی شاید پیپلز پارٹی کو موجودہ نتائج حاصل نہ ہوتے اگر
مسلم لیگ ن اور مسلم کانفرنس تقسیم نہ ہوتے ۔ اور اگر مستقبل میں پاکستان
میں ہونے والے الیکشن کے دوران بھی دائیں بازو کی سیاسی اور مذہبی جماعتیں
( مسلم لیگ ن ٬ جماعت اسلامی٬ تحریک انصاف ٬جمعیت علمائے پاکستان٬ تحریک
جعفریہ) اکٹھی نہ ہوئیں تو اس الیکشن میں بھی پیپلز پارٹی اتنی ہی
نشستیںپھر جیت سکتی ہے جتنی آج قومی اسمبلی میں اس کے پاس ہیں ۔یہ درست ہے
کہ سو فیصد ووٹوں میں پیپلز پارٹی کے حمایت یافتہ ووٹروں کا تناسب صرف
پندرہ یا اٹھارہ فیصد ہے لیکن ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیئے کہ پچاس
سے ساٹھ فیصد ووٹر تو ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ اسٹیشنوں پر آنے کی زحمت ہی
گوارا نہیں کرتے ۔ چنانچہ باقی ماندہ چالیس پینتالیس فیصد ووٹ آٹھ دس سیاسی
جماعتوں میں کچھ اس طرح تقسیم ہوجاتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے حمایت یافتہ
امیداوار باآسانی کامیاب ہوجاتے ہیں۔اگر اب بھی پیپلز پارٹی کے مخالف ووٹر
اور سیاسی جماعتیں اکٹھے نہ ہوئیں تو میرا یہ دعویٰ ہے کہ آنے والے الیکشن
میں بھی پیپلز پارٹی ہی کامیابی حاصل کرے گی ۔ |