گیس کی قیمتوں میں اضافہ ، بس کرو، بس کرو.....مہاراج ہم مرجائیں گے

گیس کی قیمتوں میں 96فیصد تک اضافہ....اور آئی ایم ایف کاحکومت کو عوام دشمن مشورہ

بس کرو،بس کرو ...مہاراج اَب آپ کے ظلم کی انتہاہوچکی ہے اور اِس فقیر کا یہ مشورہ سمجھو یانصیحت اَب اگرآپ کی جانب سے مہنگائی اور بھوک وافلاس بڑھانے جیسے اقدامات مزید ظلم ملک میں کئے گئے تو عین ممکن ہے کہ آپ کی یہ پریشان حال مظلوم ریاءآپ کو بھی اپنے ساتھ لے کر کہیں نہ مرجائے گزشتہ دنوں حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں بے تحاشہ اضافہ کرنے کے بعد جو آٹے میں نمک جتنی کمی کا اعلان کیا وہ پہلے ہی ناکافی تھاکہ اِس کے اگلے ہی روز ملکی اخبارات کے صفحہءاول کی اِس خبر نے عوام کو مزیدپریشانیوں میں مبتلاکردیاکہ ”گیس کی قیمتوں میں 15سے 96فیصد تک اضافے کی سمری وزیراعظم کو بھجوادی گئی ہے جس کی منظوری دو سے تین دن میں وزیراعظم جو ایک عوامی اور جمہوری حکومت کے نمائندے ہیں وہ دیں گے جس کے تحت گھریلوصارفین 15، کارخانوں کو96اوربجلی گھروں کو36.26فیصد ہرحال میں اضافے کا سامناکرناپڑے گاجس میں یہ جواز پیش کیاگیاہے کہ اگر گیس کی قیمتیں بڑھائی نہ گئیں تو ملکی معیشت ڈوب جائے گی اور بین الاقوامی کمپنیاں پاکستان سے جارہی ہیں موجودہ قیمت پر کوئی سرمایہ کاری کے لئے تیار نہیں ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہاگیاہے کہ اور حکومت کو یہ بھی باورکرادیاگیاہے کہ حکومت امریکی ادارے کی جائزہ رپورٹ میں دی گئی تجویز پر عملدرآمدکرتے ہوئے قدرتی گیس کی قیمتوں میں بتدریج اضافہ کرے ہماری اطلاعات اور اِس اضافے کی صورت میں آنے والی خبروں کے مطابق سی این جی کی قیمت یکدم سے100فی کلو تک پہنچ جائے گی جو پیٹرول سے بھی زیادہ ہوگی جس سے ملک میں مہنگائی کا ایک اور طوفان اٹھ کھڑاہوگا اور عوام میںحکومت مخالف ا حتجاجی تحریکوں ،مظاہروں اور ریلیوں کا ایک نہ روکنے والا سلسلہ شروع ہوجائے گا جو ایک ایسی حکومت جس کے اَب تمام اتحادی اِس کااِسی عوام دشمن اقدامات کی وجہ سے ساتھ چھوڑ کرجاچکے ہیں اِس کے لئے مشکل ہوجائے گا کہ یہ اکیلے ہی عوام کے ردعمل کا سامناکرسکے لہذا ہمارااپنے ان وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کو ایک اچھا اور مناسب اور پہلے سے ہی یہ مشورہ ہے کہ وہ قدرتی گیس کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے کسی بھی حال میں اپنا ایسا کوئی ظالمانہ فیصلہ ہرگز مت کریں جس نے اِن کی حکومت کو کوئی نقصان پہنچے اور وہ ایک زور دار دھماکے کے ساتھ زمین بوس ہوجائے اور اِس کے ساتھ ہی ہمارے وزیراعظم یہ بات بھی اچھی طرح سے ذہن نشین رکھیں کہ ملک میں پہلے ہی کیا پیٹرولیم مصنوعات کا بحران ہے اور اِس پر بجلی کی لوڈشیڈنگ میں عوام کی زندگی اجیرن اور ملکی ترقی روک رکھی ہے اور اِس پر اِن کی حکومت میں شامل کچھ افراد ....کچھ کو فائدہ پہنچانے کے خاطر ملک میں ایسے اقدامات کرنے اور کروانے کا مشورہ دے رہے ہیں کہ جن کے کرنے سے ملک میں عوام سڑکوں پر نکل آئے گی اور ملکی کی ترقی اور عوامی فلاح وبہبود کا جیساتیساچلتاپہیہ رک جائے گا ایسے اقدامات ہمارے حکمران نہ کریں جس کے کرنے کا مشورہ کوئی امریکی ادارہ ملک میں خوشحالی اور ترقی کی راہ سوجھاکر دے رہاہو۔درحقیقت ایسے مشوروں اور اقدامات کے کرنے میں ملک کی تباہی اور بربادی کے سواکچھ بھی پوشیدہ نہیں ہے اور عوام کا کیا ہے وہ تو بیچارے پہلے ہی اِس حال کو پہنچ چکے ہیں جن کے لئے شاعر نے کچھ یوں عرض کیاہے
زخم جلتے ہیں تو مرہم کی طلب رکھتے ہیں
درداُٹھتاہے تو تقدیر کو رو لیتے ہیں
دن تو فکروغم وآلام میں کٹ جاتاہے
رات آتی ہے تو فٹ پاتھ پہ سولیتے ہیں

ویسے تو پچھلے کئی سال وماہ سے ہمارے ملک میں آنے والا بجلی کا بحران جو کی طویل ترین اعلانیہ اور غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ کی صورت میں نازل ہوچکاہے تو کبھی کبھی یہ بحران بجلی کے عملے کی جانب سے دانستہ اور غیردانستہ طور پر بھی بجلی کی سپلائی میں فالٹس پیداکرنے کے سبب صارفین بجلی کو شدیدپریشان کئے دیتاہے جس کی وجہ سے صارف کو دن اور رات کے اوقات میں ذہنی اور جسمانی اذیتیں برداشت کرنی پڑ رہی ہیں ہمیں یہاں یہ کہنے دیجئے کہ اگر عوام کی اِن تکالیف اور دُکھ کا احساس دونوں ہاتھوں سے قومی خزانہ لوٹنے والے ہمارے موجودہ جمہوری حکومت کے عوام کی خدمت کے بلندوبانگ دعوے کرنے والے حکمرانوں کو ہوجاتاتو شائدہمارے ملک سے بجلی کا مصنوعی بحران کا مسلہ نہ صرف حل کیاجاسکتاتھا بلکہ بجلی کی سپلائی میں طویل ترین تعطل کے باعث ملک بھر کی بند ہونے والی ہرقسم کی اُن چھوٹی اور بڑی صنعتوں اور کارخانوں کو بھی چلایاجاسکتاتھا جو ملک میں بجلی کے بحران کے پیدا ہوجانے کے سبب آج بند ہوگئیں ہیں اور اُن لوگوں کے گھروں کے چولھے بھی جل سکتے تھے جن کا روزگار اِن بند ہوجانی والی صنعتوں اور کارخانے سے جڑاہواتھا مگرافسوس ہے کہ آج اپنی اپنی عیاشیوں میں پڑے ا ور سیاسی اکھاڑ پچھاڑ میں غوطہ کھانے والے ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو اِن عوامی تکالیف کا احساس ہوتاتب ناں یہ اِس جانب کوئی توجہ دیتے اور ملک سے بجلی اور توانائی کا بحران ختم کرنے اور اِس مسئلے کے فوری حل کرنے کے لئے اسباب پیداکرتے۔ مگراِنہیں تو اپنے ملک کے غریب عوام کی دن بدن گرتی ہوئی صورت حال کا کوئی رتی برابر بھی احساس نہیں ہے اُلٹااِنہیں تو اپنے عوام کی پریشانیاں اور غربت اور مفلسی دیکھ کر خوشی ہوتی ہے اور یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم نے اِن کے حالات زندگی ٹھیک اور بہتر کردیئے تو پھر امریکا، برطانیہ سمیت اپنے مسلم اور فرینڈز ممالک سے جو امداد ملتی ہے وہ اِنہیںملنی بندہوجائے گی کیوں کہ یہ بات یہ خُوب جانتے ہیں کہ اِنہیں اِن ذرائع سے امداد ہی غریب اور مفلوک الحال ملک اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں کی حالات زندگی بہتربنانے اور اِنہیں وہ تمام بنیادی سہولتیں مہیاکرنے کے لئے دی جاتی ہیں جن کے یہ پیدائش حقدار ہیں مگر افسوس ہے کہ گزشتہ 64سالوں میں ہمارے ملک پر قابض رہنے والے ہر حکمران نے اپنے عوام اور ملک کی فلاح وبہبود کے لئے کام کرنے اور اِن سے متعلق سوچنے کے بجائے اپنے ہی مفادات کا خیال کیاہے اور اِسی بنا اِس نے اپنوں اور اغیار کی جانب سے ملنے والی امداد، بھیک اور قرضوں کی رقم سے اپنے ہی بینک بیلنس بڑھاتارہاہے اور آج یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں ہرزمانے میں آنے والا ہمارا(ہرسول اور آمر) حکمران تو خوش وخرم رہا اور بیچارے عوام دن بدن مجسمہءلاغر بنتے رہے ہیں۔

یہ ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کی نااہلی ہی تو ہے کہ گزشتہ دنوں ہفتہ اتوار کی درمیانی شب بجلی نے ہمارے ساتھ جوجو ناٹک کئے اِس سے ہمیں پہلی بار بڑی شدت سے یہ احساس ہواکہ ہم ایک ایسے ملک کے شہری ہیں جہاں اناج سے لے کرتوانائی اور اخلاص سے گزرکر زندگی تک کا بحران ہے کیا ہمارے بزرگوں نے لاکھوں اِنسانی جانوں کی قربانیوں کے عوض یہ آزاد مملکت خدادادِ پاکستان اِس لئے بنایاتھاکہ اِس کے حکمرانوں کی ناقص منصوبہ بندیوں اور حکمت عملیوں کی وجہ سے یہاں کے عوام کو اِن کے بنیادی حقوق سے بھی محروم رکھاجائے گا ... اور اِس ملک کے آزاد عوام آزاد رہ کر بھی دنیاکی کسی غلام اور محکوم قوم سے بھی بدتر زندگیاں گزارنے پر مجبورکردیئے جائیں گے اوراِنہیں ایسامحسوس ہوگا کہ جیسے یہ آزادرہ کر بھی اپنی ہی خطہءزمیں پر تنگ ہیں اور یہ ذہنی اور جسمانی طور پر ہر طرح کی اذیتیں برداشت کرتے کرتے اپنے اندر اپنے سابقہ اور موجودہ حکمرانوں سے نفرت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ملک کے نظام سے بھی نفرت کے اُس لاوئے کو پروان چڑھارہے ہوں گے جو کسی بھی وقت پھٹ کر سب کچھ بھسم کرسکتاہے یعنی کہ
تنگ ہے خطہء زمیں ہم پر
اور وہ آسماں پہ بیٹھے ہیں
”ایسامحسوس ہورہاہے کہ لوگ“
”کوہِ آتش فشاں پہ بیٹھے ہیں“

اور اِس کے ساتھ ہی ہمیں اِس موقع پر یہ بھی کہنے دیجئے کہ ملک کی اٹھارہ کروڑ عوام کو اِن کے بنیادی حقوق سے محروم در محروم رکھنے والے ہمارے یہی موجودہ اور ماضی کے وہ حکمران بھی ہیں جنہوں نے اپنے مفادات کے سوااپنے ملک اور عوام کی ترقی و خوشخالی اور استحکام کے لئے کچھ نہیں سوچا اور حقیقت میں آج یہ ہی وجہ ہے کہ اگر ہمارے اِس ملک عظیم میں عوام کو اِن کے بنیادی حقوق کے علاوہ کسی چیز کی فروانی ہے تو وہ موت ہے جو کسی بھی شکل میں اِنہیں اِن کے گھرسے لے کر گلی ،محلے، بازار اور شاہراہوں سے ہوتی ہوئی ملک اور قوم کی ترقی اور خوشحالی کی باتیں کرنے والے اُونچے اُونچے ملکی ایوانوں تک سے آسانی سے صرف ایک اشارے اور دل میں موت کا خیال آتے ہیں یہ اِن کی مرضی اور منشاکے عین مطابق اِن کو دستیاب ہوجاتی ہے اِس پر شاعر نے عرض کیاہے کہ
محُروم کیوں عوام ہیں اپنے حقوق سے
یہ صاحبانِ فکرونظر سے سوال ہے
جن کوچُنانہیں ہے وہ مسندنشیں ہیں آج
جمہوریت کی کیا یہی اعلی ٰمثال ہے

پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے موجودہ جمہوری حکومت کے حکمرانوں نے کبھی اپنے عوام پر مہنگائی توکبھی ٹیکسوں کی بھرمارکر کے اپنی ریاءپر ظلم وستم کی جو حدکردی ہے اِس کی مثال ملک کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی ہے ہمیں یہاں افسوس کے ساتھ یہ کہناپڑرہاہے کہ موجودہ سول اور جمہوری حکومت نے تو دور آمریت میں کئے گئے اُن مظالم کی بھی حدیں پارکرلیں ہیںجن کی مثال دورِآمریت میں بھی نہیں ملتی ہے اور اَب گیس کی قیمتوں میں 96فیصد اضافے کے بعد تو ذراسوچو ملک میں مہنگائی کاکیاعالم ہوگا....؟ ملک کے اٹھارہ کروڑ غریب عوام کہاں جائیں گے....؟اور اُن لوگوں کا کیابنے گا جنہوں نے ملک میں بڑھتی ہوئی پیٹرولیم مصنوعات کی کھپت کو کم کرنے کے لئے ملک میں سی این جی کی صنعت کو متعارف کرانے کے لئے اپنااربوں کھربوں روپیہ اِس میں لگارکھاہے اُن کا کیابنے گا ....؟اور اِسی طرح اُن موٹرکار والوں کا بھی کیا بُراحشر ہوگاجنہوں نے اپنی پیٹرول سے چلتی گاڑیوں میں ہزاروں روپے اضافی خرچ کرکے سی این جی کٹس لگوائیں ہیں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد تو رل کر رہ جائیں گے جو گیس کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کے بعد اپنی گاڑیوں کے لئے پیٹرول سے زیادہ قیمت میں سی این جی خریدکر اپنی گاڑیوں کو چلانے پر مجبور ہوں گے ۔

اِس صورت حال میں ہماراخیال یہ ہے کہ ہمارے موجودہ حکمرانوں کے پاس نہ تواپنا کوئی منصوبہ ہے اور نہ ہی اپنی کوئی ایسی حکمت عملی جس سے یہ اپنے ذہن کے مطابق اپناآئندہ کاکوئی بہتر لائحہ عمل مرتب کرسکیں اوراَب اِن کے ایسے اُلٹے سیدھے مسلسل کئے جانے والے اقدامات سے تو ایسالگتاہے کہ جیساکوئی بھی امریکی ادارہ ،آئی ایم ایف یا ورلڈبینک اِنہیں کچھ بھی کرنے کا کہہ دے یہ اُس پر اپنی آنکھ بندکرکے عمل کرنا شروع کردیتے ہیں بھلے سے اِس کے بعد میں جیسے بھی بُرے نتائج کیوں نہ سامنے آجائیں ۔ اِنہیں تو بس امریکی اداروں، آئی ایم ایف اور ورلڈبینک کی خوشنودی ہی عزیز ہے۔جس کے لئے یہ سب کچھ کرنے کوہمہ وقت تیار بیٹھے ہیں۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 893927 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.