عصمت دری معاملہ میں ایک اور ممبر اسمبلی معطل

یوپی میں آئے دن عصمت دری کے واقعات ہو رہے ہیں ۔ ان واقعات میں بدطینت اورجرائم پیشہ افراد ہی نہیں ، معا لجین سے لے کر اعلیٰ عہدیداران یہانتک کہ ممبرا سمبلی بھی ملوث ہیں ۔ ان دنوں مایا حکومت کے ایک ممبر اسمبلی شاہنواز رانا بھی عصمت دری کی ناکام کوشش کی وجہ سے سرخیوں میں ہیں ۔ حلقہ بجنور کے اس ممبراسمبلی کو وزیر اعلیٰ نے اپنی پارٹی کی رکنیت سے معطل کردیا ہے اور یہ بھی ہدایت دی ہے کہ مستقبل میں انہیں پارٹی کے کسی پروگرام میں مدعونہ کیا جائے ۔ ایس ٹی ایف کوتفتیش کی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے ، اگر جانچ کے بعد ثبوت پائے گئے تو انہیں حوالہ زنداں بھی کیا جاسکتا ہے۔ پرنسپل سکریڑی داخلہ کنور فتح بہادر کے مطابق 21اور 22جون کی درمیانی شب میں مظفر نگر کے ایک پٹرول پمپ کے قریب شاہدرہ(دہلی) کے مکیں گوروجین اوراس کی دوخاتون دوستوں کے ساتھ ممبر اسمبلی شاہنواز رانا، ان کی بیوی کے سیکورٹی گارڈ نریندر ، جرار ، مسرور اوردلشاد سمیت متعدد لوگوں نے چھیڑ چھاڑ اور عصمت دری کی کوشش کی، جن میں سے چندافراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے اورچند فرار ہیں ۔

یہ بھی واضح ہوکہ شاہنواز رانا بی ایس پی کے پہلے ممبر اسمبلی نہیں جنہیں معطل کیا گیا ہو،بلکہ اس مدت کار میں ان سے قبل چارممبران اسمبلی مختلف معاملات میںمعطل کئے جاچکے ہیں ۔ شیکھر تیواری جواوریا کے ممبراسمبلی ہیں انہیں انجینئر منوج گپتا قتل معاملہ میں پارٹی سے معطل کیا گیا ۔ ملکی پور فیض آباد کے ممبر اسمبلی آنند سین ، ششی کے اغوا و قتل اور شری بھگوان شرما عرف گڈو پنڈت شیتل کی جنسی استحصال میں معطل کئے گئے ہیں ۔ ان کے علاوہ پرشوتم نریش (حلقہ نرینی باندہ) کو بھی شیلو آبروریزی معاملہ میں معطل کیا گیا تھا ۔

ہر بار کی طرح خیر خواہ حلقہ کی طرف سے یہ آواز بڑی شد ومد کے ساتھ آرہی ہے کہ داغی ممبران کی معطلی بی ایس پی حکومت میں ”قانونی بالادستی “کی دلیل ہے ۔ مگر حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ تمام ممبران اسمبلی کی معطلی اس حکومت کے زمانہ کار کے نصف آخرمیں ہوئی ۔ نصف آخرسے ہی پارٹیاں آئندہ انتخابات کی تئیں ایک حد تک سنجیدہ ہوجاتی ہیں ، ووٹروں کو نئی نئی اسکیموں اورپرجیکٹوں کے سبزباغ دکھاکرلبھانے لگتی ہیں ، لہذا ممبران کی معطلی میں ”قانون کی بالادستی “سے کہیں زیادہ ”سیاسی مجبوری کا عنصر“غالب ہے ۔ دراصل 2012کی تیار ی کے تحت ان کی رسمی معطلی عمل میں آئی ۔ممبراسمبلی کی معطلی میں مایا حکومت کی جو بھی نیت رہی ، مگر فی الفور داغیوں کے خلاف قدم اٹھا نا مستحسن ہے ، کیونکہ تما م پارٹیاں اورادارے اپنی ساکھ بچانے کی حتی المقدور کوشش کرتے ہیں ۔ہاں! آثارا ورقرائن کی بنیادپر ممبران کی معطلی کو ”رسمی “مان لینے میں بھی کوئی حرج نہیں ۔ کیونکہ بالعموم معطلی کے بعد ایسی تفتیش ایجنسیو ں کو معاملہ سونپا دیا جاتا ہے کہ ماضی میں جن کی کوئی واضح کامیابی نظر نہیں آتی ۔ سی بی سی آئی ڈی اور ایس ٹی ایف وغیرہ ایجنسیوں کے بارے میں عام خیال یہی ہے کہ جن معاملہ کو حکومت ٹھنڈے بستہ میں ڈالنا چاہتی ہے بس ان کے حوالہ کردیتی ہے۔

لیکن موجودہ ریاستی حکمراں جماعت کے خیر خواہوں کا راگ بی ایس پی میں ” قانون کی بالادستی“ بھی چہ معنٰی دارد ؟ بی ایس پی کے ایک اہم رکن سے یوپی کی موجودہ صورتحال کے بابت دریافت کیا گیا تھا توان کا جواب تھا ”یوپی میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے“، یعنی معمولا ت زندگی بحال ، امن وچین اور حفاظت کے لئے چوکسی ۔ مگر صورتحال پر نگاہ ڈالیں گے توکچھ اورہی حقیقت سامنے آئے گی ۔ عصمت دری سے جڑے معاملات کو ہی لیںتو قانون کی بالادستی کی چولیں ہلتی نظر آتی ہیں ۔ کیونکہ اس حکومت کے چارسالہ دور میں کبھی شہ زورالٰہ آباد کے مدرسہ نسواں میں طالبات کے ساتھ بدتمیزیاں کرتے ہیںتو کبھی مدرسہ بورڈ کے امتحان میں اڑن دستہ امتحا ن دینے والی طالبات کا استحصال کرتا ہے ۔ کبھی نگھاسن کا دلدوز واقعہ قلب وضمیر کو جھنجھوڑتا تو کبھی الہ آباد میں عصمت دری میں ناکام شرپسند عناصر کے ذریعہ عورت کی آنکھیں پھوڑ نے والا واقعہ انسانیت پر تیشہ چلاتانظرآتاہے ۔ اسی طرح قنوج ، بستی ، ایٹہ ، بلندشہر ، مظفر نگر اوردیگر اضلاع میں بھی خاکی وردی والے عصمت دری کے واقعات میں ملوث ہو کر خوب نام کماتے نظر آتے ہیں ۔ طرہ یہ کہ پانچ معطل ممبران اسمبلی میں سے تین عصمت دری کے واقعات سے ہی جڑے ہیں ۔ ان تما م انسانیت سوز واقعات کے سامنے مذکورہ راگ بے وقت کی راگنی کے سوا اورکچھ نہیں ؟ کیایوپی میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے ؟ حاذق اطباءبھی ، جنہیں ”مجازی خدا“ کہاجاتا ہے ، قانون کو پس پشت ڈالتے ہیں ۔خاکی وردی والوں کا تھانہ جو عوام کو انصاف دلانے کا محور ہے ، وہاں بھی قانون شکنی دھڑلے سے کی جارہی ہے۔ ممبران اسمبلی، جنہیں حلقے کے ہزاروں عوام کی نمائندگی کرنی چاہئے ، حکومتی آئین کوکچلنے کی ریس میں سبقت لے جانے کی جی توڑ کو شش کر رہے ہیں ۔ ان تمام حقائق کے باوجود قانون کی بالادستی کی آواز بلند کرنا کس ذہنیت کی غمازی کرتا ہے ؟ چیف سکریڑی انو پ مشرا نے یہا نتک کہہ دیا کہ ریاست میں عصمت دری کے ایسے چھوٹے موٹے واقعات تو ہوتے ہی رہتے ہیں ، کیا مطلب ؟ گویا اب جرائم ، جرائم بھی نہیںرہے ۔

ریاست کی وزیراعلیٰ کا ایک الزام حز ب اختلا ف پر یہ ہے کہ وہ ریاست کے غیر تسلیم شدہ واقعات کو سامنے لاکر موجودہ حکمراں جماعت کے دامن داغدار کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ مگر ان کے الزام کی آنچ سرد کرنے کے لئے یہ چند سوالا ت ہی کافی ہیں ۔ ان کی پارٹی کے ممبران بھی کیوںخود اپنی ہی پارٹی کی ساکھ متزلزل کرنے میں پیش پیش نظر آتے ہیں ؟ کیوں ان کے ممبران اسمبلی عصمت دری سے جڑے واقعات میں ملوث ہیں ؟ کیوں پولیس بے حسی کا ثبوت فراہم کررہی ہے ؟کیا وہ قانون سے بالاتر ہیں ؟ ایسے میںقانونی بالادستی کے پروپیگنڈے کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے ؟؟۔

27جون کو وزیر اعلیٰ مایاوتی نے ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ بلاکر نابالغ بچیوں وخواتین کی عصمت دری اور دیگر مظالم پر قدغن لگانے کے لئے ریاست کے تمام اضلاع میں یکم جولائی سے مہینہ بھر خصوصی مہم چلانے کی ہدایت دی ۔ مگر دوسرے ہی دن اس میٹنگ کا اثر 28جون کو پولس اہلکاروں پر یہ ہوا کہ آبروریزی کی شکار مقتولہ کے والد کو دھمکی دے ڈالی ۔ جونپور کے مکین اس شخص نے اپنی بیٹی کے قتل اورعصمت دری کی ایف آئی درج کروانا چاہی مگر اہلکاروں نے ان کی سنی ان سنی ہی نہیں کی بلکہ انہیں دھمکی دی کہ خاموش ہوجاؤ ورنہ تمہیں فرضی مقدمہ میں گرفتار کرلیا جائے گا ۔ اس واقعہ سے ذرا اندازہ کیجئے کہ یوپی میں قانون کی کیسی بالادستی ہے ؟ وزیر اعلیٰ کی ہدایت کو عملی جامہ پہنانے میں پولیس اہلکاروں کوبھی تامل ؟آخر انہیں وزیر اعلیٰ کے فرمان کی مخالفت سے کیوں نہیں ڈر لگتا ؟ وزیر اعلیٰ کی ھدایت کے مدنظر 29جون کو ریاست کے نظم ونسق کی مضبوطی کے لئے تمام ضلع ہیڈ کوارٹر وں پر ضلع مجسٹریٹ ، پولس کپتان ، سینئر پولس اورڈی آئی جی کی موجود گی میں خصوصی مہم کا لائحہ عمل تیار کیا جاچکاہے ۔ اب دیکھنا ہے کہ نظم ونسق کی بحالی میں یہ خصوصی مہم کتنی بااثر ثابت ہوتی ہے ؟۔

Salman Abdus Samad
About the Author: Salman Abdus Samad Read More Articles by Salman Abdus Samad: 90 Articles with 100826 views I am Salman Abdus samad .I completed the course of “Alimiyat” from Islamic University Darul Uloon Nadwatul Ulama Lucknow. Right now doing the course o.. View More