لکش دیپ : امیرِ شہر غریبوں کو لُوٹ لیتا ہے

کیرالہ کے پاس لکش دیپ نامی جزیروں کا مجموعہ ہے۔ ملیالم زبان میں اس کا مطلب ایک لاکھ جزیرے ہوتا ہے ۔ یہاں ایک لاکھ تو نہیں جملہ 36 جزیرے ہیں جن میں سے صرف 10 میں لوگ رہتے ہیں باقی 26 غیر آباد ہیں۔ اس کا کل علاقہ 32 مربع کلومیٹر ہے اور 2011 کی رائے شماری کے مطابق آبادی 65ہزار سے کم ہے ۔ یہ ایک یونین ٹریٹری ہے اس لیے وہاں کا انتظام صدر مملکت کے ذریعہ ایڈمنسٹریٹر چلاتا ہے۔ پہلے چونکہ وہاں کا کاروبار آئی اے ایس افسر سنبھالتے تھے اس لیےوہ علاقہ پرسکون تھا ۔ دسمبر 2020 میں اچانک لکش دیپکے منتظم اعلیٰ دنیشور شرما کا انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد شرما کی جگہ کوئی نیا قابل افسر مقرر کرنے کے بجائے پرفل پٹیل کو وہاں کی اضافی ذمہ داری سونپ دی گئی اور اس شیطان کو ایک پرامن علاقہ میں بدامنی پھیلانے کا موقع مل گیا۔

پرفل پٹیل نے نئی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے کورونا سے متعلق پیش رو شرما کے نافذ کردہ سخت ضوابط کو ختم کردیا ۔ اس ناعاقبت اندیش فیصلے کا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلی لہر میں جہاں کورونا کا ایک بھی کیس نہیں آیا تھا وہاں اس کے منحوس قدموں نے 7 ہزار سے زیادہ لوگوں کو وبا سے متاثر کیا۔ اب بھی ان جزائر میں 2320 لوگ کورونا سے لڑ رہے ہیں اور26افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ موہن ڈیلکر کی مانند ان سب کا بلا واسطہ قاتل بھی یہی فولش پٹیل ہے ۔ اس قتل عام کے بعد ایک ایسے جزیرے پر ہندوتوا کا ایجنڈا نافذ کرنے کا مذموم منصوبہ بنایا گیا جس کی 96 فیصد آبادی مسلمان ہے۔اس کی ابتداء اسکول میں مڈ ڈے میل سے گوشت ، مرغی اور انڈے کو نکالنے سے کی گئی۔ اب اس نے بڑے جانور کے گوشت پر پابندی لگانے کی تجویز بھی پیش کردی ۔ بی جے پی کی منافقت کا یہ عالم ہے کہ شمال مشرقی صوبے ارونا چل پردیش ، آسام، میزو رم ، میگھالیہ ، ناگالینڈ اور تریپورا کے اندر یہ پارٹی حکومت میں شریک ہے مگر بیف پر پابندی کی بات نہیں کرتی ۔

لکش دیپکی طرح بحیرہ عرب کے ساحل پر گوا میں بھی اپنے رائے دہندگان کو خوش رکھنے کے لیے بی جے پی سرکاربڑے کے گوشت کا اہتمام کرتی ہے ۔ بنگال اور کیرالہ میں جہاں ا بھی حال میں انتخابات ہوے بی جے پی ایک بار بھی یہ مدعا اٹھانے کی جرأت نہیں کرسکی کیونکہ اس میں سیاسی نقصان ہے۔ مرکزی وزیر کرن رجیجو اور آسام کے سابق وزیر اعلیٰ سربانند کھلے عام بیف کھانے کی وکالت کرتے ہیں مگرانہیں نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ حدتو یہ ہے کہ کیرالہ کے ضمنی پارلیمانی انتخاب ( 2017) کے اندر بی جے پی امیدوار سری پرکاش اعلیٰ درجہ کا حلال بیف مہیا کرنے کا وعدہ کرتے ہیں اور انہیں پھر سے ٹکٹ دیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں گوشت کھانے والے بی جے پی کو ووٹ دیتے مگر لکش دیپکے اندر بی جے پی کی حالت بہت خراب ہے۔ بی جے پی کو 2009 کے پارلیمانی انتخاب میں 245 ووٹ ملے۔ اس کے بعد 2014 میں یہ تعداد 187 پر آگئی اور 2019 میں جبکہ بی جے پی ایوان پارلیمان میں 303نشستیں جہت گئی تو لکش دیپمیں اسے صرف 125ووٹ ملے اور جو موقع پرست اس کے قریب آئے تھے اب وہ بھی الٹے پیروں بھاگ کھڑے ہوے ہیں اس طرح کمل کا سپڑا صاف ہوگیا ہے۔ ممبئی میں اس کو کہتے ہیں کھایا پیا کچھ نہیں گلاس پھوڑا بارا آنہ ۔

لکش دیپکے دس آباد جزیروں میں سے ایک کا نام بنگارام ہے جہاں شراب کی چھوٹ ہے، باقی ۹ میں شراب ممنوع ہے ۔ پرفل پٹیل اس پابندی کو پوری طرح ختم کرنا چاہتا ہے ۔ اس کے آبائی وطن گجرات میں پچھلے 70 سال سے شراب پر پا بندی ہے اور چوتھائی صدی حکومت کرنے کے باوجود بی جے پی اسے ختم نہیں کرسکی ۔ دین اسلام میں تو خیریہ ام الخبائث حرام ہی ہے لیکن آدرش گجرات کے وزیر اعلیٰ وجئے روپانی نے ابھی مارچ میں فخر کے ساتھ اعلان کیا تھا کہ گجرات کی خواتین شراب پر پا بندی کے سبب محفوظ ہیں ۔ یہ عجیب بات ہے گجرات کی خواتین کے لیے جو پابندی امن و تحفظ کی ضامن ہے وہی شئے لکشدیب کی عورتوں کے لیے نقصان دہ نہیں ہے ۔اس کے باوجود پرفل پٹیل کا دعویٰ ہے کہ اس نے مقامی خواتین کو طاقتور بنانےکی خاطر میونسپل کارپوریشن کی 50فیصد نشستیں ان کے لیے مختص کردی ہیں ۔ اس کےساتھ پٹیل نے دو بچوں سے زیادہ کے والدین کوانتخاب میں حصہ لینے سے روکنے کا قانون بھی بنادیا ۔ یہ قانون نہ کرناٹک میں ہے اور نہ اترپردیش میں ۔ اتراکھنڈ میں تو اس پر عدالت نے روک لگا دی ہے لیکن پرفل پٹیل جیسا ان پڑھ یہ سب نہیں جانتا۔ جہاں تک خواتین کی قوت کا سوال ہے گجرات اسمبلی کے 180؍ ارکان میں صرف 14 ؍ یعنی 8فیصد خواتین ہیں ۔

لکش دیپکےماہی گیر ساحل پر اپنے جال اور دیگر سازو سامان رکھتے تھے پٹیل نے برسوں سے قائم وہ عارضی چھپر توڑ دئیے۔ اس احمق نے سرکاری دفاتر میں ٹھیکےپر کام کرنے والے کئی لوگوں کو بیروزگار کردیا۔ یہ کون سی ترقی ہے جس میں عام لوگوں سے ان کی روزی روٹی چھینی جارہی ہے؟ ماہی گیری کے معاملے میں ہندوستان دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے جو عالمی پیداوار کا 7.56 فیصد حصہ فراہم کرتا ہے۔ ماہی گیری اور آبی زراعت لاکھوں افراد کے لئے خوراک، تغذیہ، آمدنی اور روزگار کے اہم ذرائع ہیں۔ 2019۔20 کے دوران اس شعبے میں برآمدات کی آمدنی 46662.85 کروڑ روپئے تھی ۔ یہ شعبہ بنیادی سطح پر تقریباً 280 لاکھ افراد کو روزگار فراہم کرتا ہےاور اس میں سالانہ اوسط شرح نمو 7 فیصد تھی۔ حکومت ہند کے مطابق اس شعبے میں کاشتکاروں کی آمدنی کو 2022 تک دوگنا کرنے کے مواقع ہیں اس لیے مرکزی حکومت کی جانب سے پی ایم ایم ایس وائی نامی منصوبے کے تحت ماہی گیروں کی فلاح و بہبود 1820 کشتیوں اور جالوں کی تبدیلی عمل میں لائی اور آف سیزن کے دوران ماہی گیری کے وسائل کے تحفظ کے لئے 122551 کنبوں کو روزگار اور تغذیائی تعاون دیا جائے۔

یہ سب تو مرکزی حکومت کررہی ہے لیکن لکش دیپ کا احمق منتظم اعلیٰ طرح طرح سے اپنے ماہی گیروں کو پریشان کررہا ہے اور ہر کشتی کی نگرانی کرنے کا منصوبہ بنارہا ہے۔ اس احمق نے سرکاری ڈیری بند کروادی مہینے کے آخر تک تمام مویشیوں کو فروخت کرنے کا فرمان صادر کردیا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ وہ گجرات کی امول ڈیری کے فروغ کی خاطر یہ کررہا ہے ممکن اس میں دلالی کھانا چاہتا ہو۔ لکش دیپمیں صحت کی سہولت محدود ہے اس لیے وہاں زیادہ بیمار لوگوں کی خاطر سرکاری ہیلی کاپٹر فراہم کیے جاتے تھے ۔ پرفل اس خدمت کو بھی محض چند لوگوں تک محدود کرنا چاہتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے عصر حاضر میں جبکہ معمولی سیاسی رہنما ہیلی کاپٹر میں اڑتے پھرتے ہیں یہاں مجبور مریضوں کو اس سہولت سے محروم کیا جارہا ہے۔ لکش دیپکی ترقی کا دم بھرنے والا پرفل پٹیل بھول گیا ہے کہ جس وکاس کا نعرہ بی جے پی نے ۷ سال قبل لگایا تھا وہ دو سال قبل گجرات میں پاگل ہوگیا۔ بقول احمد فراز؎
امیرِ شہر غریبوں کو لُوٹ لیتا ہے
کبھی بہ حیلۂ مذہب کبھی بنامِ وطن

لکش دیپ کے لوگوں کی زبان ملیالم اور تہذیب کیرالہ سے مماثل ہے۔ وہاں کی ساری در آمد کیرالہ کی بندرگاہوں سے ہوتی ہے لیکن یہ چاہتا ہے کہ کیرالہ سے رشتہ توڑ کر کرناٹک کے منگلور سے جوڑ دیا جائے کیونکہ وہاں بی جے پی کی حکومت ہے۔ اپنے آپ کو دیش بھگت کہنے والا اس حقیقت سے غافل ہے کہ کیرالہ میں کسی بھی حکومت ہو تب بھی وہ ہندوستان کا ایک حصہ رہے گا۔ اس فیصلے کی وجہ سے کیرالہ کی معیشت پر برا اثر پڑ رہا ہے اور وہاں زبردست احتجاج شروع ہوگیا ہے۔ کیرالہ کے اندر گزشتہ اسمبلی انتخاب میں بی جے پی کو ایک سیٹ کیا ملی کہ سبری مالا کے بہانے وہ اقتدار میں آنے کا خواب دیکھنے لگی۔ اس بار میٹرو مین کو میدان میں اتارا گیا اس کے باوجود وہ ایک سے صفر پر آگئی۔ اب پرفل پٹیل کی اس حرکت کے بعد تو ان کا کیرالا میں گھسنا مشکل ہوجائے گا ۔ بی جے پی کو پر فل پٹیل جیسے دوچار اور بہی خواہ مل جائیں تو 2024 تک کریا کرم کرنے کے لیے کافی ہیں۔
موہن ڈیلکر کے اداروں کو ہتھیانے کا ملزم اب عوام کی جائیداد پر قبضہ کرنے کےلیے ایک نیا قانون وضع کررہا ہے جس کی روُ عوامی زمینوں پر سرکار قبضہ کر سکے گی ۔ جموں کشمیر میں جو ناکام ہوگیا اسے یہ لکش دیپمیں نافذ کرنا چاہتا ہے لیکن وہ کامیاب نہیں ہوگا ۔ گمان غالب تو یہ ہے کہ اس نے کچھ ایسے سرمایہ داروں سے سانٹھ گانٹھ کرلی ہے جو عوام کی زمینوں پر قبضہ کرکے سیاحتی مراکز بنانا چاہتے ہیں لیکن مقامی لوگ اس کو قبول نہیں کریں گے ۔ وہ مزاحمت کریں گے اس کو دبانے کی خاطر وہاں پاسا یعنی غنڈہ ایکٹ لانا چاہتا ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے ادارے این آر سی بی کے مطابق لکش دیپمیں جرائم نہ کے برابر ہیں ۔ سنگین جرائم کا تو نام و نشان نہیں ہے جیلیں خالی ہیں۔ اس قانون کے تحت لکش دیپمیں این آر سی اور سی اے اے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کو ہراساں کیا جارہا ہے ۔ یہ قانون دراصل سرکاری دھاندلی کی مخالفت کرنے والوں کو دبانے کے لیے تجویز کیا گیا ہے لیکن اگر اس کے نتیجے میں اگر وہاں بد امنی پھیل جائے تو نہ سرمایہ کاری ہوگی اور نہ سیاح آئیں گے ۔ ان ظالموں پر یہ شعر صادق آئے گا ؎
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے
رہے دل میں ہمارے یہ رنج و الم نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450496 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.