ایک وقت تھا جب پاکستان ریلوے بہترین ادارہ ہوا کرتا
تھا پھر جانے کس دشمن کی نظر لگ گئی ہمیں۔حادثہ ہو جانا اپنی جگہ جتنا اہم
ہوتا ہے اتنا ہی اہم اس سانحے پہ اپنایا جانے والا رویہ بھی ہوتا ہے۔آج ہم
ریلوے حادثات اور حکومتی رویوں پہ نظر ثانی کریں گے۔اگر ہم پاکستان ریلوے
کے بڑے بڑے حادثوں کی بات کریں تو سن دوہزار سے پہلے یہ نا ہونے کے برابر
تھے اور پھر اس کے بعد تواتر سے حادثات کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا
گیا۔پہلا حادثہ 4 جنوری 1990 کو سکھر کے قریب سنگی نامی گاؤں میں پیش آیا
جس میں 307 لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔حادثہ خالی ٹرین سے ٹکر
ہونے کی وجہ سے ہوا تھا۔پھر ایک طویل مدت بعد 13 جولائی 2005 کو بڑا حادثہ
ہوا جب تین ٹرینیں آپس میں ٹکرا گئیں تھیں جس میں تیرہ بوگیاں پٹڑی سے
اتریں تھیں اور اس اندوہناک حادثے نے 120 لوگوں کی جان لی تھی۔ اگلہ سانحہ
صرف ایک مہینے کے وقفے پہ 21 اگست 2005 کو ہوا۔ یہ حادثہ کراچی میں لانڈھی
کے قریب ملیر برج پر ہوا جب گاڑی اس برج کو عبور کرتے وقت پٹڑی سے اتر گئی
تھی۔ اس حادثے میں چوبیس گھنٹوں تک ریل ٹریفک بند رہی تھی۔
اگلہ حادثہ انیس دسمبر 2007 سندھ کے قصبے صحراب پور کے قریب گاڑی کی چودہ
بوگیوں کا پٹڑی سے اترنے کی وجہ سے پیش آیا۔اس حادثے میں بھی حکومت نے کوئی
خاطر خواہ ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں تھا کیا بلکہ غیر ذمہ دارانہ رویہ
اختیار کیا تھا۔ پھر 2 جولائی 2015 کو ریل گاڑی کی تین بوگیاں پٹڑی سے اتر
کر نہر میں جا گری تھیں جس کی وجہ سے انیس لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ ایسے ہی فقط
تین مہینوں کے بعد اگلا حادثہ پیش آ گیا جس میں 20 لوگ اپنے خالق حقیقی سے
جا ملے تھے۔یہ حادثہ 17 نومبر 2015 کو ہوا تھا۔ایسے ہی 3 نومبر 2016 کو 21
افراد لقمہ اجل بن گئے جب بہاالدی زکریا ایکسپریس نے فرید ایکسپریس کو ٹکر
مار دی تھی۔
اسی طرح حادثوں میں ایک اور اضافہ کرتے ہوئے 11 جولائی 2019 کو اکبر
ایکسپریس نے ریلوے اسٹیشن پر کھڑی کارگو ٹرین کو ٹکر مار دی جس کی بدولت 21
افراد مرے جبکہ 100 کے قریب زخمی ہوئے۔ اس سانحے پہ حکومت نے مرحومین کے
لواحقین کے لیے بیس بیس لاکھ جبکہ زخمی افراد کو ایک لاکھ کے لگ بھگ معاوضہ
دینے کا اعلان کیا تھا۔
اکتیس اکتوبر 2019 کو کراچی سے راولپنڈی جانے والی بیگم ایکسپریس میں آگ
لگنے کی وجہ سے 75 افراد کی موت ہوئی تھی۔ یہ حادثہ تب پیش آیا جب ٹرین
رحیم یار خان سے گزر رہی تھی۔اس حادثے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ حادثہ
گیس سلنڈر کے پھٹنے کی وجہ سے ہوا تھا۔ آگ مسافروں کے کھانا پکانے کی وجہ
سے لگی تھی۔
سب سے آخر میں 7 جون 2021 کو گھوٹکی والا حادثہ ہوا۔ یہ حادثہ ملت ایکسپریس
اور سر سید ایکسپریس کے مابین تصادم کی وجہ سے پیش آیا۔ اب تک کی معلومات
کے مطابق اس حادثے نے 62 لوگوں کی جان لی ہے جبکہ پیشتر زخمی ہوئے ہیں۔
ان تمام حادثات میں جہاں ملکی املاک کا نقصان بہت زیادہ ہوا وہیں اس سے بھی
زیادہ نقصان ان جانوں کا ہوا جن کا ازالہ ناممکن ہے۔سینکڑوں ہزاروں کے حساب
سے لوگ متاثر ہوئے۔ گھر، سہاگ اور کئی کوک اجڑ کے رہ گئیں۔ لیکن افسوس اس
بات کا ہوتا ہے کہ دکھ کی ان تمام گھڑیوں میں حکومتی رویے بڑے اجنبی اور
غیروں والے رہے۔ حکومت چاہے کسی بھی پارٹی کی رہی ہو کسی نے بھی متاثرہ
عوام کی بھلائی کا کبھی نہیں سوچا، ان کے دکھ میں سہارا نہیں بنے، انہیں
دلاسے نہیں دئیے، گلے نہیں لگایا، کبھی مالی معاونت نہیں کی فقط تعزیت کے
دو بول اور وہ بھی سوشل میڈیا کی حد تک بولے جاتے ہیں۔کیا حکمران ایسے ہوا
کرتے ہیں؟ بجائے یہ سب کرنے کے حکومتی وزراء ان حادثوں کی اور اپنی
لاپروائی کی ذمہ داری بھی قبول نہیں کرتے۔ ہر موجودہ حکومت اپنی نااہلی کو
ہمیشہ پچھلی حکومت پہ ڈالتی نظر آتی ہے۔یعنی ان کے نزدیک بیچاری عوام کی
جانوں کی بھی کوئی قیمت نہیں ہے۔ ہائے یہ بے حس حکمران جانے کب جاگے گا ان
کا ایمان۔؟
میری اﷲ سے دعا ہے کہ اﷲ کرے کہ ہم بحیثیت قوم اور حکمران ایک بہترین مثال
بنیں اور دوسروں کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھیں۔
|