سندھ میں کچے اور پکے کے ڈاکوؤں کا راج

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سندھ میں ڈاکوؤ ں کی بادشاہت قائم ہے جنہوں نے وہاں کی غریب عوام کو یرغمال بنایا ہوا ہے اور ان ڈاکووں کو با اثر شخصیات بشمول سیاستدانوں کی سرپرستی بھی حاصل ہے یعنی کچے کے ڈاکووں کی جان جن طوطوں میں ہے وہ پکے کے ڈاکو ہیں ، گزشتہ دنوں سندھ کے علاقے شکار پور سے متصل کچے کے علاقے میں مغویوں کی بازیابی کے لیئے پولیس آپریشن میں بکتر بند کے اندر پولیس اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد سندھ حکومت نے فوج اور رینجرز کی مدد سے کچے کے علاقے میں آپریشن کا فیصلہ کیا،اس سے قبل ماضی میں بھی کئی بار ان ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کیا جاتارہاہے ،سندھ میں کچے کے جنگلات میں کم ازکم چار دہائیوں سے ڈاکووں کاطوطی سر چڑ ھ کر بول رہاہے ،یہ نہیں کہ ان مقامات پر پولیس آپریشن نہیں کرتی مگر پولیس کا واسطہ ان ڈاکوؤں کے جدید اسلحے سے پڑتا ہے تو پولیس کو زیادہ اور ڈاکوؤں کو کم نقصان کا سامنا کرنا پڑتاہے ،جس کی مثال پولیس کی اس بلٹ پروف بکتر بند گاڑی سے لگایا جاسکتاہے جس کی سوشل میڈیا پر آج کل بہت چرچے دکھائی دیتے ہیں،آج کل سوشل میڈیا پر پولیس کی ایک بکتر بند گاڑی کو آسانی سے دیکھاجاسکتاہے کہ بکتر بندگاڑی پر ڈاکووں کی گولیاں آرپار دکھائی دیتی ہے،ایک ویڈیو سوشل میڈیا میں ایسی بھی ہے جس میں یہ ڈاکو اپنی فتح کا جشن منارہے ہیں جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ڈاکوؤ ں کی جانب سے پولیس کی بکتر بند گاڑی ان کے قبضے میں ہے اور ڈاکو وں کی جانب سے اس گاڑی پر چڑھ کرپولیس کو للکارتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پولیس کی بکتربند گاڑی پر عام قسم کے اسلحے سے حملہ کرنا آسان کام نہیں ہے مگر جس انداز سے بکتربندگاڑی کے گولیوں کے بڑے بڑے سائز کے سوراخ دکھائی دیتے ہیں اس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ ڈاکووں کے پاس کس قدر جدید اسلحہ موجود ہوگا، یعنی سچ تو یہ ہے کہ کلاشنکوف جب وجود میں آئی تو یہ جدید ترین اسلحہ تھا جو ڈاکوؤں کے پاس پہلے مگر پولیس کے پاس بعد میں آئی ،بکتر بند کو نشانہ بنانے کے لئے یہی اینٹی ایئر کرافٹ گنز استعمال کی جاتی ہیں جو کثیر تعدادمیں موجود ہیں سننے میں آیا ہے کہ صرف شکار پور میں ڈاکوؤں کے پاس نو ایسی گنز موجود ہیں ، انکے جواب میں پولیس کے پاس اس قسم کے معیار معیار کا اسلحہ موجود نہیں۔جیسا کہ میں بیان کرچکا ہوں کہ آج کل ایک بار پھر سے سندھ میں ڈاکوؤ ں کے خلاف آپریشن کرنے کی خبریں میڈیا پر چل رہی ہیں،جو کچھ دن چلنے کے بعد کچھ روز کے لیے روک دیا جاتاہے ایک عجیب کشمکش کے ساتھ اس آپریشن کا سفر جاری ہے ایک خبر یہ ہے کہ محکمہ داخلہ سندھ کی جانب سے سندھ میں کچے کے ستائیس ہائی پروفائل ڈاکووں کے سر کی قیمت مقرر کردی گئی ہے محکمہ داخلہ سندھ کے اس نوٹیفیکشن کے مطابق بیلو تیغانی نامی ڈاکوکے سرکی قیمت 30لاکھ روپے مقرر کی گئی ہے ،لاڈو تیغانی نامی ڈاکو کے سر کی قیمت 20لاکھ رکھی گئی ہے،دوسری جانب گزشتہ دنوں شکار پور پولیس نے کراچی کے علاقے گلستان جوہر میں شکار پور کے اہم سرادار تیغو خان تیغانی کی رہائشگاہ پر ریڈ کرکے سردار تیغو خان تیغانی کو2 بیٹوں سمیت گرفتار کرلیا ہے ، پولیس نے سردار تیغو خان تیغانی کے خلاف ڈاکوؤں کی سرپرستی کرنے کا مقدمہ بھی درج کیاتھا،سندھ حکومت کے ذمہ داران اکثر میڈیامیں آکر یہ عذر بیان کرتے رہے ہیں کہ ہر سال سیلابی صورتحال کے باعث کچے کے دشوار گزار علاقوں میں جانا ممکن نہیں ہوپاتا جو دڈاکوؤں کے مضبوط ٹھکانوں کی نشاندہی کرتا ہے مگر سوال یہ پیداہوتاہے کہ ہر طرح کی سہولتوں اور سرکاری پیٹرول کے باوجود پولیس کے لیے تو ان علاقوں میں جانا ممکن نہیں ہوتا مگر ڈاکو کس طرح اردگرد کے گاؤں میں ناکے لگا کر یا پھر ان غریبوں کی جھونپڑ یوں سے کبھی مردوں تو کبھی خواتین کو اٹھاکرلے جاتے ہیں ، متعدد بار ان ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کرنے کی تاریخیں ملتی رہی ہیں مگر ہر بار ان ڈاکوؤں میں کمی آنے کی بجائے اضافہ ہی ہوا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ پولیس سے زیادہ ڈاکوؤں کے زرائع کا ہونا اور دہشت کا عالم یہ ہے کہ ان مشہور ڈاکوؤ ں کا نام لینے سے ہی کام ہوجاتاہے کہ میں فلاں فلاں ڈاکو کا خاص آدمی ہو،سندھ میں موجود غربت اور بے روزگاری کے شکار نوجوان جب شعور اوراحساس نام کی چیز سے دور ہوجاتے ہیں تب وہ یا تو ڈاکوؤں کے مخبر بن جاتے ہیں یا پھر ہتھیا راٹھا کر خود ڈاکو بن جاتے ہیں کیونکہ دنیا میں کوئی بھی ڈاکو ماں کے پیٹ سے ڈاکو پیدا نہیں ہوتا کچھ نہ کچھ عمل دخل معاشرے کی بے راہ روی کا بھی ضرور ہوتاہے ۔یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سندھ میں کچے یا پکے کے علاقوں میں سب سے زیادہ طاقتور وہاں کا وہ آدمی ہوتا ہے جس کے پاس پیسہ اور زمین سب سے زیادہ ہوتی ہے جو جاگیر دار یا وڈیرہ یا سائیں بابا جیسے القاب سے پکاراجاتاہے جو ڈاکوؤں کی پشت پناہی کرنے کے ساتھ پولیس کے ساتھ بھی ٹھیک ٹھاک مراسم یا تعلق داری رکھتاہے علاقے میں مرضی کا ایس ایچ او لگوانا ایسے وڈیروں کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہوتا جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان وڈیروں کے سیاستدانوں سے کس قدر مظبور تعلقات ہوتے ہونگے جس کی بنیادی وجہ وہاں سے الیکشن کی کامیابی کا پکا سرٹیفیکیٹ ہوتا ہے جو انہیں باآسانی اسمبلی کے فلور پر پہچانے میں اہم کرداراداکرتاہے ، سیدھا سادہ سا سوال ہے کہ چند مٹھی بھر ڈاکو ریاست کے سامنے کس لحاظ سے زیادہ طاقتور ہوسکتے ہیں ؟ اوریہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی بھی آدمی جوبڑے پیمانے پروارداتیں کرتاہے لوٹ مارکرتاہے وہ بغیر کسی تگڑی سرپرستی کے یہ سب کچھ کیسے کرسکتاہے، اصل مسئلہ یہ ہی ہے کہ حکومتی سطح پر طاقت ور افراد جب سیاہ وسفید کاموں کی تکمیل کے لیے ایسے جرائم پیشہ افراد کی سیاسی پرورش کرتے ہیں تو یہ لوگ اپنے اپنے علاقوں میں ایسے ہی دہشت کی علامت بن جاتے ہیں اور یہ جرائم پیشہ افراد ان ہی بڑی طاقتوں کے آلہ کار بن کر جرائم کی دنیا کے بے تاج بادشاہ بن جاتے ہیں،یہ تو سندھ میں موجود کچے کے گنجان آباد علاقوں کا تزکرہ ہے مگر جب روشنیوں کا شہر کراچی کی تباہی و بربادی کی کہانی کی بات کریں تو یہ بھی کافی پرانا قصہ بن چکاہے جس میں جرائم پیشہ افراد کو ساتھ ملاکر ایساہی کھیل کھیلا جاتارہا ہے یہاں بھی کسی ایک فرد واحد کے نام کی دہشت پھیلاکر کئی دہائیوں تک اپنے ناجائز کاموں کی تکیمل کی گئی، ایک ایسا شہر جس پر پورے ملک کی معیشت کا نظام جڑا ہو،ایسے کیسے جرائم پیشہ افراد دیا دہشت گردی سمیت لا قانونیت ، بھتہ خوری ، بوری بند لاشوں اور مسلح افراد کا شہر بن سکتاہے، یہ وہ باتیں ہیں جو ہمارے ریاستی نظام کے لئیے خود ایک بڑا سوالیہ نشان بن چکی ہے ۔اور جب کبھی بھی یہاں سیاسی جماعتوں اور سیاسی نظام میں جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کی بات کی جاتی ہے ان جماعتوں میں عسکری ومسلح ونگ کی بات کی جاتی ہے تو ہماری سیاسی جماعتیں اور انکی قیادتیں اس الزام کو مسترد کردیتی ہیں جنھیں ہم مان بھی لیتے ہیں اور اپنے ان زخموں کو بھلا بھی دیتے ہیں جو کچے کے نام پر پکے کے ڈاکو ہمارے جسم اور روح پر لگاتے رہے ہیں۔
 

Muhammad Naeem Qureshi
About the Author: Muhammad Naeem Qureshi Read More Articles by Muhammad Naeem Qureshi: 18 Articles with 18836 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.