کینیڈا میں دل دہلا دینے والا واقعہ۰۰۰ مسلم خاندان پر تعصب پرست ڈرائیور نے ٹرک چلا دی

دشمنانِ اسلام عالمی سطح پر مسلمانوں میں ڈر و خوف پیدا کرنے کی کرشش کررہے ہیں لیکن ان کی یہ کوششیں انشاء اﷲ تعالیٰ کامیاب نہ ہوسکیں گی کیونکہ مسلمان آغاز اسلام سے ہی مصائب و آلام برداشت کرتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ بیشک ظالم کے ظلم کے موقع پر خوف و ہراس کا پایا جانا بشری تقاضہ ہے۔ آج دنیا کے بیشتر ممالک چاہے وہ اسلامی ممالک ہو کہ غیر اسلامی ۔ مغربی و یوروپی سب جگہ مسلمانوں کو نشانہ بنانا بنایا جارہا ہے۔ ایسا ہی ایک دل دہلادینے والا واقعہ کینیڈا میں پیش آیا جس کے بعد وہاں کے مسلمانوں میں خوف و دہشت کا ماحول بنا ہوا ہے۔ کینیڈا کے وزیر اعظم نے مسلمانوں کو تیقین دیا ہیکہ اس قسم کے دہشت گردانہ واقعات کو مزید ہونے نہیں دیں گے اور ظالموں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔گذشتہ دنوں کینیڈا کے صوبے اونٹاریو میں پاکستانی نژاد مسلم خاندان کے چار افراد کو ٹرک تلے روند کر ہلاک کردیا گیا جبکہ ایک کم عمر بچہ زخمی ہوگیا۔ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے اس موقع پر اپنے ردّعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حقیقت یہ ہیکہ کینیڈا کے بیشتر شہری اس خوف سے واقف نہیں ہیں جو نسل پرستی کے خدشات کا شکار کینیڈین مسلمان محسوس کرتے ہیں۔ جسٹن ٹروڈو نے ہاؤس آف کامنز میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ نسل پرستی اور نفرت کینیڈا میں نہیں ہے تو میں ان کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ ہاسپتل میں ایک بچے کو ایسے پرتشدد واقعے کی وضاحت کیسے پیش کریں گے؟ آپ کیسے ان خاندانوں سے نظریں ملاکر کہہ سکتے ہیں کہ اسلاموفوبیا ایک حقیقت نہیں ہے؟‘۔ واضح رہے کہ کینیڈا کے صوبے اونٹاریو میں ایک ٹرک ڈرائیور نے پیر کی شام ایک مسلم خاندان کے چار افراد کو ’سوچے سمجھے منصوبے‘ کے تحت ٹرک سے کچل کر ہلاک کیا ہے۔ایک ہی خاندان کے پانچ افراد فٹ پاتھ پر ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ ایک پک اپ ٹرک نے انہیں اس وقت روند ڈالاجب وہ ایک انٹرسیکشن کراس کرنے کیلئے کھڑے تھے۔اس واقعہ میں اس خاندان کا صرف ایک نو سالہ لڑکافائز سلمان زندہ بچ پایا ہے جو ہاسپتل میں زیر علاج بتایا جاتا ہے۔ ہلاک ہونے والوں میں 46سالہ فزیوتھراپسٹ سلمان افضل، ان کی اہلیہ اور پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر44سالہ مدیحہ سلمان، نویں جماعت کی طالبہ 15سالہ یمنیٰ سلمان اور انکی 74سالہ ضعیف دادی شامل ہیں۔شہر کے میئر ایڈ ہولڈر نے کہا کہ ہلاک ہونے والا خاندان تین نسلوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ’مجھے واضح کرنے دیں یہ مسلمانوں کے خلاف، شہر والوں کے خلاف اجتماعی قتل کا ایک ایسا اقدام تھا جس کی جڑیں ناقابل بیان نفرت ہے‘۔

کینیڈین پولیس نے بیس سالہ مشتبہ کینیڈین نوجوان جو ’زرہ بکتر کی طرح‘ جیکٹ پہنے ہوئے تھا ،کو اونٹاریو کے شہر لندن کے انٹرسیکشن کراس واک جہاں یہ واقعہ پیش آیا سے سات کلو میٹر دور ایک مال سے گرفتار کیا ہے۔زیرحراست نوجوان پر قتل کے چار اور اقدام قتل کا ایک الزام عائد کیا گیا ہے۔ کینیڈین پولیس کے ڈیٹیکٹیو سپرنٹنڈنٹ پال وائٹ نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ’اس بات کے شواہدملے ہیں کہ یہ ایک ’سوچے سمجھے منصوبے‘ کے تحت نفرت میں کیے جانے والا اقدام تھا‘۔پولیس کے مطابق’ خیال کیا جاتا ہے کہ متاثرہ افراد کو نشانہ بنایا گیا کیونکہ وہ مسلمان تھے‘۔ کینیڈا حکومت اس واقعہ کی شدید مذمت کی ہے اور اسے اسلاموفوبیا بتایا ہے۔ پال وائٹ نے کہا کہ’ مقامی حکام وفاقی پولیس اور اٹارنی جنرل سے بھی دہشت گردی کے ممکنہ الزامات شامل کرنے کے بارے میں رابطہ کر رہے ہیں‘۔پولیس نے تفتیش سے متعلق بتایا کہ مشتبہ نوجوان کی سوشل میڈیا پوسٹ کا جائزہ لیا گیا ہے۔

کینیڈین وزیراعظم نے ہاؤس آف کامنز میں اپنی تقریر کے دوران مزید کہا کہ ’’جب آپ ایک ایسی مسلم خاتون سے بات کرتے ہیں جو کہ ایک بس اسٹاپ پر کھڑی اس فکر میں ہوتی ہے کہ کوئی اس کے سر سے حجاب کھینچے گا یا اس کو نقصان پہنچائے گا تووہ آپ کو یہی بتائے گی کہ اسلاموفوبیا حقیقت ہے‘۔ اسی طرح ’’اگر آپ ان والدین سے بات کریں گے جو اپنے بچوں کو صرف اس خوف سے روایتی لباس نہیں پہننے دیتے کہ انہیں ہراساں کیا جائے گا ، وہ آپ کو بتائیں گے کہ نسل پرستی ایک حقیقت ہے‘۔ وزیر اعظم نے اس سے قبل اپنے ایک پیغام میں کہا تھا کہ ’ہم کینیڈا کے اس شہر لندن کی مسلم کمیونٹی اور پورے ملک میں موجود مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہیں، اسلاموفوبیا کی یہاں کوئی جگہ نہیں ہے۔ خاموشی سے پنپنے والی یہ نفرت نقصاندہ اور انتہائی شرمناک ہے، اسے ختم ہونا ہوگا‘۔ کینیڈا کے مقامی سماجی اور مذہبی تنظیموں نے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو سے پُرزور اپیل کی ہے کہ وہ اس واقعہ کو ایک معمولی واقعہ نہ سمجھیں اور اس واقعہ کو دہشت گردی کی واردات کے طور پر دیکھا جائے اور ملزم پر دہشت گردی کی دفعات عائد کی جائیں۔ اب دیکھنا ہیکہ وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے جس طرح کینیڈا میں دہشت گردی یا اسلاموفوبیا کو جڑ پیڑ سے ختم کرنے کا وعدہ کیا ہے اسے حقیقی شکل دے پاتے ہیں یا نہیں۰۰۰اس دل دہلادینے واقعہ نے کینیڈا کی مسلم کمیونیٹی میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا کردیا ہے۔

فران کے صدر امانویل میکرون کو ایک شہری نے سرعام طمانچہ رسید کردیا
فرانس کے صدر امانویل میکرون جوفرانس کے جنوب مشرقی علاقے ڈروم ریجن کے دورے پر تھے جہاں پر انہوں نے ان کے استقبال کیلئے آنے والے شہریوں سے ملاقات کررہے تھے کہ اسی اثناء ایک نوجوان نے صدر فرانس سے ہاتھ ملایا اورپھر فوراً انہیں طمانچہ رسید کردیا۔ صدر فرانس کو تھپڑ پڑتے ہی انکی سیکیوریٹی پر معمور عہدیدار نے انہیں اپنے حصار میں لے کر محفوظ مقام پر لے گئے جبکہ دیگر عہدیداروں نے تھپڑمانے والے نوجوان کو حراست میں لے لیا ۔ ابھی اس نوجوان کے تعلق سے ذرائع ابلاغ میں کوئی خبر نہیں پہنچی ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ فرانس میں حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم کی شانِ اقدس میں ہیبرون نامی میگزین نے گستاخانہ کارٹون شائع کیا تھا اوراسی سلسلہ میں ایک ٹیچر نے اس گستاخی کی تائید وحمایت کی تھی جس پر ایک مسلم نوجوان نے اُس ٹیچر پر حملہ کرکے قتل کردیا تھا۔اس کے بعد فرانسیسی صدر نے گستاخانہ کارٹون بنانے والوں اور دیگرگستاخوں کا ساتھ دے کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بیان دیا تھا ۔ سمجھا جارہا تھا کہ یہ واقعہ اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہو لیکن عالمی خبر رساں ادارے نے تفتیشی ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہیکہ تھپڑ مارنے والا شخص 28سالہ ڈامین تاریل جو فرانس کے شہر سینٹ ولائر کا رہائشی ہے جو تلوار بازی کا مداح ہے اور اس حوالے سے ایک کلب بھی چلاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ تھپڑمارنے والے نوجوان کا اس سے قبل کوئی مجرمانہ ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ ڈامین تاریل صدر فرانس کو طمانچہ رسید کرتے ہوئے فرانسیسی صدر کی پالیسیوں کے خلاف نعرہ بھی لگایا تھا ۔ذرائع ابلاغ کے مطابق فرانس میں کسی سرکاری عہدیدار سے مارپیٹ پر تین سال قید اور 45ہزار یورو کا جرمانہ ہوسکتا ہے لیکن صدر فرانس کو طمانچہ رسید کرنے پر کس قسم کی سزا دی جاتی ہے دیکھنا ہوگا۰۰۰

 

Dr M A Rasheed Junaid
About the Author: Dr M A Rasheed Junaid Read More Articles by Dr M A Rasheed Junaid: 358 Articles with 255985 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.