وطن عزیز کی نام نہاد جماعت کے سربراہان جنکے پاکستان میں
ڈرون حملے جاری رکھنے کے سائن مو جود ہیں
وطن عزیز ملک میں ڈرون حملوں میں ھزاروں بے گناہ شھری شھید ھو جائے اور یہ
کرسیوں پر بیٹھ کر ہڈدھرمی کر رہے ہوں اور بے وقوف عوام انکے لیے تالی بجا
رہی ہو
وطن عزیز ملک میں ملک کی بیٹی عافیہ صدیقی کو ڈالروں کے عوض بیچ دیا جائے
وطن عزیز ملک میں ایمل کانسی کو اپنے ھی ملک سے پکڑ کر امریکہ کے حوالۂ کیا
جائے
وطن عزیز ملک میں سلالہ چیک پوسٹ پر غیرملکی جہازوں کی بمباری میں 24 آرمی
کے معصوم جوان بلاوجہ شہید ھو جائیں
وطن عزیز ملک میں دوسرے ملک کی فوجی دنیا کے منہ پر فیک حملہ ایبٹ آباد میں
اپریشن کرکے واپس چلے جائے اور آزاد ملک کے آزاد ادارے اس سے بے خبرھو اور
وہ وطن عزیز کو پوری دنیا میں جھوٹا پروپیگنڈہ کر کے بدنام کر جائے
وطن عزیز ملک میں کافر ریمنڈڈیوس دو افسران کو قتل کرگے گرفتار ھو جائے اور
پھر ایک اشارے سے فوری اسکی رہائی ھو جائے
اب چلیں اصل کاز کی طرف جیسا کے
جنگ عظیم دوم میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے گئے جس سے لاکھوں
لوگ لقمۂ اجل بن گئے۔ یہ حملے اتنے شدید تھے کہ چاپانیوں نے ہتھیار پھینک
دیے کیونکہ ان کی کمر ٹوٹ چکی تھی۔ اتحادیوں نے چاپان کو جنرل ڈگلس
میکارتھر کے حوالے کر دیا۔
جنرل میکارتھر ایک زیرک انسان تھا، انہوں نے جاپانی قوم پر دلچسپ دستاویزات
تیار کیں جس میں انہوں نے کہا کے جاپانیوں میں خودکشی کا رجحان پایا جاتا
ہے اور ہیروشیما اور ناگاساگی کے بعد جاپانیوں کی زندگی کا ایک ہی مقصد تھا،
امریکہ کو تباہ کرنا، امریکیوں کو قتل کرنا۔ جنرل میکارتھر نے اس خطرے کو
بھانپ لیا اور اس خطرے سے نمٹنے کے لئے ایک فارمولہ بنایا گیا جو امریکہ کی
منظوری کے بعد جاپان کا آئین بن گیا جس کے مطابق جاگیردارانہ نظام اور خفیہ
پولیس کے محکمہ بند نوجوانوں کو رائے دیہی کا حق دے دیا گیا، تعلیم عام کر
دی گئی۔
میکارتھر نے کہا کہ ہمیں مستقبل میں ایسے خطرات سے نمٹنے کے لئے جاپانیوں
کے دلوں میں امریکی نفرت ختم کرنا ہو گی۔ جاپانی ذہن تبدیل کرنا ہوں گے،
امریکہ کو جاپانیوں کے لئے اپنی جامعات کے دروازے کھولنا ہوں گے۔ دوسری طرف
میکارتھر نے جاپان میں ادیبوں کا ایک طبقہ پیدا کیا جو نوجوانوں کو بتاتا
کہ اب جنگ کا رخ بدل چکا ہے، اب اگر ہم نے امریکہ سے بدلہ لینا ہے تو
ٹینکوں، بندوقوں اور بموں کی جگہ کارخانے، لیبارٹریاں اور سکول بنانے ہوں
گے۔ یہ سب ایک شخص کا نظریہ تھا جس نے جاپانی تاریخ کو بدل کر رکھ دیا۔ اسی
طرح مورخہ
10 فروری 1964 کو کوئٹہ کے ایک پشتون قوم پرست سیاسی گھرانے میں ایک بچہ
جنم لیتا ہے، پہلے دن سے ہی الگ مزاج رکھنے والے اس بچے نے ابتدائی تعلیم
گرائمر سکول کوئٹہ سے حاصل کی، گریجویشن کی ڈگری بھی گورنمنٹ ڈگری کالج
کوئٹہ سے حاصل کی، گریچویشن کے بعد جامعہ بلوچستان سے انگلش لٹریچر میں
ماسٹر کیا، یہ انتہائی قابل اور ذہین بچہ میر ایمل خان کانسی تھا، جسے آج
دنیا ایمل کانسی کے نام سے جانتی ہے۔
میر ایمل خان کانسی کا تعلق چونکہ قوم پرست گھرانے سے تھا، یوں زمانۂ طالب
علمی میں ہی اس کی توجہ پشتون قوم پرست سیاست کی جانب مبذول ہو گئی۔ جامعہ
میں تعلیمی سلسلہ شروع کرنے کے بعد انہوں نے عوامی نیشنل پارٹی کی طلبا
تنظیم پشتون سٹوڈنٹس فیڈریشن میں شمولیت اختیار کی۔ بعد میں وہ پشتونخواہ
ملی عوامی پارٹی کی طلبا تنظیم پشتون سٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے وابستہ رہے۔
ایمل خان کانسی 3 مارچ 1990 کو سیاسی پناہ کی خاطر امریکہ گیا، وہاں ایک
کورئیر کمپنی ”ایکسل“ میں ملازمت کی، یہ کمپنی امریکی خفیہ ایجنسی کو حساس
دستاویزات پہنچاتی تھی، ایمل کانسی بھی دستاویزات لے کر ہیڈ کوارٹر جایا
کرتا تھا۔
پچیس جنوری 1993 کی صبح سات بج کر 7 منٹ پہ ورجینیا میں مکلین کی سڑک پر
ایک گاڑی رکی جس پر ایک نوجوان نے فائر کھول دیا جس کے نتیجے میں دو امریکی
شہری ڈاکٹر لاسنگ پینٹ اور فرینک ڈارلنگ جاں بحق ہو گئے، فائرنگ کرنے والا
نوجوان پاکستان کے شہر کوئٹہ کا ہونہار طالب علم میر ایمل خان کانسی تھا۔
ایمل کانسی فائرنگ کے بعد پاکستان فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔
ایمل کانسی نے امریکہ سے شدید نفرت کی بنا پہ سی آئی اے کے ایک سابق
ڈائریکٹر کو قتل کرنے کا پروگرام بنایا تھا کیونکہ اس کا خیال تھا کہ عراق
اور مشرق وسطیٰ میں امریکہ نے ناجائز حملے کر کے ہزاروں مسلمانوں کا قتل
عام کیا ہے۔ اسے امریکہ کی اسرائیل نواز خارجہ پالیسی سے شدید اختلاف تھا
کیونکہ وہ فلسطینیوں کے خلاف تھی۔ اس کا مقصد امریکہ سے بدلہ لینا تھا۔
امریکہ نے مسلسل چار سال تک اس کا تعاقب کیا اور 15 جنوری 1997 کو اسے
گرفتار کر لیا۔ کانسی کی مخبری کرنے والے شخص کو 35 لاکھ ڈالر دیے گئے اور
14 نومبر 2002 کو ایمل کاسی کو زیریلا انجیکشن لگا کر ابدی نیند سلا دیا
گیا۔
امریکہ نے اس وقت پوری دنیا کے مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں، چاہے
افغانستان، ایران، عراق، شام ہو یا فلسطین۔ کوئی بھی ریاست امریکہ ظلم و
جبر سے محفوظ نہیں۔ اب نوجوانوں میں اسی طرح کا رویہ پایا جاتا ہے جیسا
ایمل کاسی کا تھا، اسی لیے ہر مسلمان نوجوان امریکہ اور امریکیوں سے نفرت
کرتا ہے۔
ہمیں اس وقت جنرل میکارتھر جیسے لیڈر کی ضرورت ہے جو ہمیں سمجھا سکے کہ اب
جنگ کا زاویہ اور میدان بدل چکا ہے۔ اب تم لوگ بموں اور رائفلوں سے امریکہ
کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اگر تم لڑنا چاہتے ہو تو تعلیم اور ٹیکنالوجی کے
میدان میں امریکہ کا مقابلہ کرو۔ امریکہ کو بھی جاپانیوں کی طرح
پاکستانیوں، افغانیوں اور دوسرے ممالک کے لوگوں کے لئے اپنی جامعات کے
دروازے کھولنا ہوں گے ورنہ القاعدہ، جیش محمد، طالبان اور ان جیسی درجنوں
تنظیموں کے نوجوان سر پہ کفن باندھ کر گھومتے رہیں گے اور ایمل خان کانسی
کی طرح امریکہ سے بدلے لیتے رہیں گے۔ میں جرنل میکارتھر کے خیالات سے بحثیت
مسلمان اتفاق نہیں کرتا۔کیونکہ اسلام میں خون کا بدلہ خون ہے اللہ تعالی
بھی سورت بقرہ آیت نمبر 286 میں فرماتے ہیں "جو عمل تم کرو گے اسکا وبال
تمھاری ہی جان پر پڑے گا نیکی کرو گے تو نیکی کو صورت میں برائی کرو گے تو
برائی کی صورت میں" اسلیے امریکہ اور دوسرے ظلم کی انتہا کرنے والے سن لیں
ایک دن انکی تباہی کی باری بھی آنی ہے یہ جو ہر مسلمان ممالک کو آج تباہ
برباد کر رہا اسکی باری بھی قریب ہے۔ یہی دستور دنیا ہے جو بیجو گے وہی
کاٹنا ہوتا ہے اور جنرل میکارتھر جیسی سوچ رکھنے والے امریکی سو بار سوچیں
کے امریکہ ظلم ہی نہ کرے۔جب معصوم انسانوں پر زیادتی اور بے گناہ کی زندگی
کا چراغ بجھا دینا ایک معمول بن جائے جیسا کے عراق۔ہیروشیما ناگا ساقی
جاپان کشمیر۔افانستان۔فلسطین برما اور انڈیا میں ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے
ہیں اور خاص مسلمانوں کو ہی ظلم بربریت کا نشانہ بنایا جارہا ہے تو سیدھا
سادھا کورئیر کمپنی میں کام کرنےوالا عام سا لڑکا دنیا جس کو ہٹلر کے نام
سے جانتی ہےاتنا ظالم نہ ہوتا۔ کیونکہ جب بھی ظلم حد سے بڑھ جاتا ہے تو یہ
مٹ جاتا ہے۔
|