فلسطین لہو لہو پکار رہا ہے مدد مسلمان

اسرائیل اور فلسطینی تنظیم حماس کے درمیان جنگ بندی ہوچکی ہے۔ تاہم اس جنگ بندی سے 11 دن جاری رہنے والی جارحیت کے دل دہلادینے والے مناظر ذہنوں سے نہیں بھلائے جاسکتے۔

ان 11 دنوں میں اسرائیل کی جانب سے پناہ گزینوں کے کیمپوں پر بھاری بمباری کی گئی، میزائیل حملوں میں معصوم دودھ پیتے بچے تک جاں بحق ہوئے، عمارتوں پر حملہ کرکے انہیں منہدم کردیا گیا اور لوگ تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے سے بے بسی میں اپنے پیاروں کی لاشیں نکلتے ہوئے دیکھتے رہے۔ اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں جو انسانی بحران پیدا ہوا اس سے ہر فلسطینی متاثر ہوا ہے۔

فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی حالیہ فوجی مہم نے غاصب اسرائیل کی جانب سے گزشتہ 70 سال سے فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے ظلم اور ناانصافی کی داستان میں ایک اور باب کا اضافہ کردیا ہے۔ فلسطینیوں کو ان کے آبائی علاقوں سے بے دخل کیا جارہا ہے اور ان کی زمینوں پر قبضہ کیا جارہا ہے۔ فلسطینیوں کو نہ ختم ہونے والے ظلم، غیر قانونی گرفتاریوں اور اجتماعی سزاؤں کا سامنا ہے۔ غیر قانونی اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کے لیے پورے کے پورے محلوں کو ہی منہدم کردیا جاتا ہے اور لوگوں کو بے دخل کردیا جاتا ہے۔ غزہ کی 20 لاکھ پر مشتمل آبادی کو 14 سال سے اسرائیل کی جانب سے کی گئی ناکہ بندی اور سخت پابندیوں کا سامنا ہے۔

ناانصافی پر مشتمل اس تاریخ کو دیکھا جائے تو حالات بگڑنے کے لیے بس ایک چنگاری ہی کافی تھی۔ غاصب قوت نے فلسطینیوں پر آگ برسانا شروع کی لیکن اسے ان لوگوں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جن کا واحد ہتھیار اپنے مقصد پر غیر متزلزل یقین تھا۔

حالیہ کشیدگی کے کئی عوامل تھے۔ اسرائیلی پولیس کی جانب سے ماہِ رمضان میں مسجد اقصٰی میں موجود عبادت گزاروں پر بلا اشتعال حملہ کیا گیا۔ دوسری جانب مقبوضہ مشرقی یروشلم کے علاقے شیخ جراح میں فلسطینیوں کو زبردستی ان کے گھروں سے نکالا جانے لگا۔

جواباً غزہ اور مشرقی کنارے کے شہروں اور دیہاتوں میں بڑے عوامی مظاہرے ہوئے جنہیں اسرائیلی پولیس نے سختی سے کچل دیا۔ اس صورتحال میں حماس کی جانب سے راکٹ داغے گئے جس کے بعد اسرائیل کے فضائی حملوں کا سلسلہ شروع ہوا جن کے نتیجے میں 65 بچوں سمیت 240 سے زائد فلسطینوں نے اپنی جانیں گنوا دیں۔

یہ قتلِ عام 11 روز تک جاری رہا۔ اس دوران او آئی سی کی جانب سے مذمتی بیان تو جاری ہوا لیکن کوئی مشترکہ اقدام سامنے نہیں آیا۔ یہ بیان لفاظی کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ جن عرب ممالک نے حال ہی میں اسرائیل سے تعلقات قائم کیے ہیں ان سے یہ تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔ بلکہ ہوسکتا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ معاملات معمول پر لانے کی ان کی پالیسی نے ہی اسرائیل کو اس قسم کی جارحیت کے ارتکاب کا حوصلہ فراہم کیا ہو۔

امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں نے اسرائیل کی حمایت جاری رکھی اور فلسطینیوں کی چیخ و پکار کو نظر انداز کرتے رہے۔ امریکی حکام نے کچھ دنوں بعد ’کشیدگی میں کمی لانے‘ کا مطالبہ کیا۔

اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے ہنگامی اجلاس کو بھی امریکا کی وجہ سے کچھ دنوں کی تاخیر سے منعقد کیا گیا اور جب یہ اجلاس ہوا بھی تو امریکا کی جانب سے بقیہ تمام 14 ممالک کے متفقہ بیان کو روک دیا گیا۔ اس بیان میں کشیدگی میں کمی لانے، فلسطینی خاندانوں کی ان کے گھروں سے بے دخلی روکنے اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین کا احترام کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس عمل نے امریکا کو اقوامِ متحدہ میں تنہا کردیا تھا لیکن اس کے باوجود وہ اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹا۔

ان میں سے کوئی بھی چیز حیران کن نہیں تھی۔ امریکا اسرائیل کا سب سے بڑا سرپرست ہونے کے ناطے ایک طویل عرصے سے اپنے قریبی حلیف کی حفاظت کرتا آیا ہے۔ لیکن کب تک یہ دہشت گرد یہودی کافر مسلمانوں کا قتل عام کرتا رہے گا دوسری جانب وہ فلسطینیوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں پر خاموشی اختیار رکھتا ہے۔ یہ وہی انسانی حقوق ہیں کہ اگر دنیا میں کہیں اور ان کی خالف ورزی ہو تو امریکا اس پر اپنی آواز اٹھاتا ہے
آپ ضرور اپنے بچوں کو فلسطین کے بارے میں بتانا
آپ کے بچے بھلے آپ سے پوچھیں یا نہ پوچھیں، آپ انہیں یہ ضرور بتایا کیجیئے کہ

ہم فلسطین سے اس لیئے بے پناہ دل و جان سے محبت کرتے ہیں کہ

نمبر 01: یہ فلسطین انبیاء علیھم السلام کا مسکن اور سر زمین رہی ہے۔

نمر 02: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فلسطین کی طرف ہجرت فرمائی۔


نمبر 03: اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت لوط علیہ السلام کو اس عذاب سے نجات دی جو ان کی قوم پر اسی جگہ نازل ہوا تھا۔

نمر 04: حضرت داؤود علیہ السلام نے اسی سرزمین پر سکونت رکھی اور یہیں اپنا ایک محراب بھی تعمیر فرمایا۔

نمبر 05: حضرت سلیمان علیہ اسی ملک میں بیٹھ کر ساری دنیا پر حکومت فرمایا کرتے تھے۔

نمبر 06: چیونٹی کا وہ مشہور قصہ جس میں ایک چیونٹی نے اپنی باقی ساتھیوں سے کہا تھا "اے چیونٹیو، اپنے بلوں میں گھس جاؤ" یہیں اس ملک میں واقع عسقلان شہر کی ایک وادی میں پیش آیا تھا جس کا نام بعد میں "وادی النمل – چیونٹیوں کی وادی" رکھ دیا گیا تھا۔

نمبر 07: حضرت زکریا علیہ السلام کا محراب بھی اسی شہر میں ہے۔

نمبر 08: حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسی ملک کے بارے میں اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ اس مقدس شہر میں داخل ہو جاؤ۔ انہوں نے اس شہر کو مقدس اس شہر کے شرک سے پاک ہونے اور انبیاء علیھم السلام کا مسکن ہونے کی وجہ سے کہا تھا۔

نمبر 09: اس شہر میں کئی معجزات وقوع پذیر ہوئے جن میں ایک کنواری بی بی حضرت مریم کے بطن سے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی ولادت مبارکہ بھی ہے۔

نمبر 10: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جب اُن کی قوم نے قتل کرنا چاہا تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں اسی شہر سے آسمان پر اُٹھا لیا تھا۔

نمبر 11: ولادت کے بعد جب عورت اپنی جسمانی کمزوری کی انتہاء پر ہوتی ہے ایسی حالت میں بی بی مریم کا کھجور کے تنے کو ہلا دینا بھی ایک معجزہ الٰہی ہے۔

نمبر 12: قیامت کی علامات میں سے ایک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زمین پر واپس تشریف اسی شہر کے مقام سفید مینار کے پاس ہوگا۔

نمبر 13: اسی شہر کے ہی مقام باب لُد پر حضرت عیسٰی علیہ السلام مسیح دجال کو قتل کریں گے۔

14: فلسطین ہی ارض محشر ہے۔

نمبر 15: اسی شہر سے ہی یاجوج و ماجوج کا زمین میں قتال اور فساد کا کام شروع ہوگا۔


نمبر 16: اس شہر میں وقوع پذیر ہونے والے قصوں میں سے ایک قصہ طالوت اور جالوت کا بھی ہے۔

نمبر 17: فلسطین کو نماز کی فرضیت کے بعد مسلمانوں کا قبلہ اول ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ ہجرت کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام دوران نماز ہی حکم ربی سے آقا علیہ السلام کو مسجد اقصیٰ (فلسطین) سے بیت اللہ کعبہ مشرفہ (مکہ مکرمہ) کی طرف رخ کرا گئے تھے۔ جس مسجد میں یہ واقعہ پیش آیا وہ مسجد آج بھی مسجد قبلتین کہلاتی ہے۔

نمبر 18: حضور اکرم صل اللہ علیہ وسلم معراج کی رات آسمان پر لے جانے سے پہلے مکہ مکرمہ سے یہاں بیت المقدس (فلسطین) لائے گئے۔

نمبر 19: سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم کی اقتداء میں انبیاء علیھم السلام نے یہاں نماز ادا فرمائی۔ اس طرح فلسطین ایک بار پھر سارے انبیاء کا مسکن بن گیا۔

نمبر 20: سیدنا ابو ذرؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ زمین پر سب سے پہلی مسجد کونسی بنائی گئی؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ مسجد الحرام(یعنی خانہ کعبہ)۔ میں نے عرض کیا کہ پھر کونسی؟ (مسجد بنائی گئی تو) آپﷺ نے فرمایا کہ مسجد الاقصیٰ (یعنی بیت المقدس)۔ میں نے پھر عرض کیا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا فاصلہ تھا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ چالیس برس کا اور تو جہاں بھی نماز کا وقت پالے ، وہیں نماز ادا کر لے پس وہ مسجد ہی ہے۔

نمبر 21: وصال حبیبنا صل اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ارتداد کے فتنہ اور دیگر

کئی مشاکل سے نمٹنے کیلئے عسکری اور افرادی قوت کی اشد ضرورت کے باوجود بھی ارض شام (فلسطین) کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تیار کردہ لشکر بھیجنا بھی ایک ناقابل فراموش حقیقت ہے۔

نمبر 22: اسلام کے سنہری دور فاروقی میں دنیا بھر کی فتوحات کو چھوڑ کر محض فلسطین کی فتح کیلئے خود سیدنا عمر کا چل کر جانا اور یہاں پر جا کر نماز ادا کرنا اس شہر کی عظمت کو اجاگر کرتا ہے۔

نمبر 23: دوسری بار بعینہ معراج کی رات بروز جمعہ 27 رجب 583 ھجری کو صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں اس شہر کا دوبارہ فتح ہونا بھی ایک نشانی ہے۔

نمبر 24: بیت المقدس کا نام قدس قران سے پہلے تک ہوا کرتا تھا، قرآن نازل ہوا تو اس کا نام مسجد اقصیٰ رکھ گیا۔ قدس اس شہر کی اس تقدیس کی وجہ سے ہے جو اسے دوسرے شہروں سے ممتاز کرتی ہے۔ اس شہر کے حصول اور اسے رومیوں کے جبر و استبداد سے بچانے کیلئے 5000 سے زیادہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے جام شہادت نوش کیا۔ اور شہادت کا باب آج تک بند نہیں ہوا، سلسلہ ابھی تک چل رہا ہے۔ یہ شہر اس طرح شہیدوں کا شہر ہے۔

نمبر 25: مسجد اقصیٰ اور بلاد شام کی اہمیت بالکل حرمین الشریفین جیسی ہی ہے۔ جب قران پاک کی یہ آیت (والتين والزيتون وطور سينين وهذا البلد الأمين) نازل ہوئی ّ تو ابن عباس کہتے ہیں کہ ہم نے بلاد شام کو "التین" انجیر سے، بلاد فلسطین کو "الزیتون" زیتون سے اور الطور سینین کو مصر کے پہاڑ کوہ طور جس پر جا کر حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک سے کلام کیا کرتےتھے سے استدلال کیا۔

نمبر 26: اور قران پاک کی یہ آیت مبارک (ولقد كتبنا في الزبور من بعد الذكر أن الأرض يرثها عبادي الصالحون) سے یہ استدلال لیا گیا کہ امت محمد حقیقت میں اس مقدس سر زمین کی وارث ہے۔

نمبر 27: فلسطین کی عظمت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے یہاں پر پڑھی جانے والی ہر نماز کا اجر 500 گنا بڑھا کر دیا جاتا ہے۔ بقول علامہ اقبال۔
ہے خاک فلسطین پہ یہودی کا اگر حق۔
ہسپانیہ پہ حق نہیں کیوں اہل عرب کا۔


 

Syed Maqsood Ali Hashmi
About the Author: Syed Maqsood Ali Hashmi Read More Articles by Syed Maqsood Ali Hashmi: 171 Articles with 152354 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.