بلدیہ اور اسکی سوئی ہوئی عوام

The topic discussed here is about the bad situation or circumstances of a big town in City of Karachi namely Baldia Town.

یہ تحریر بلدیہ جیسے کراچی کے اک گاؤں نمہ یہ شاید اس سے بھی بدتر اک علاقے کے نام جہاں روز اک عام آدمی اپنے گھر اپنے خاندان اپنے بیوی بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے روز مرتا روز جیتا ہے۔ اسکی زندگی اک حصرت بن کے رہ جاتی ہے،کراچی میں جہاں اک مڈل کلاس خاندان سے تعلق رکھنے والا شخص اپنی روز مرّہ کی زندگی میں صرف چند روز مرہ کے خواہشات کو لے کر جیتا ہے جو کہ اسکے خاندان سے منصلق ہوتیں ہے اپنے بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کے لیئے روز جدوجہد کرتا ہے، وہی بلدیہ کے رہائشی کے لیئے یہ سب تھوڑا اور مشکل ہوجاتا ہے، یہ سب جو کہ اک عام بندہ کہ لیئے عام سی بات ہوتی ہے وہی بحیثیت خود اس نظام اس علاقے کا رہائشی ہمارے لیئے یہ عام بات نہیں ہوتی ۔ روز صبح جہاں ہم اور اپنے گھر کے افراد کے اچھے مستقبل کا خواب دیکھ رہے ہوتے ہیں اس خواب کو جب حقیقت میں تبدیل کرنے کے لیئے اپنے کام وغیرہ پر جانے کیلئے اپنی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اٹھتے ہیں تو سب سے پہلے دن کی شروعات اُس بند پنکھے کو دیکھ کر ہوتی ہے جسے دیکھتے ہی باقی کے دن کا عکس زہن میں بن جاتا ہے کہ کس طرح روزانہ کی زندگی کی طرح آج کا دن بھی عام سے بھی عام تر گزارنے کیلئے کس طرح جستجو کرنی پڑے گی،اِس سب سے فارغ ہوکر جب کام وغیرہ پر جانے کا وقت ہوتا اور انسان گھر بیٹھے ہی ان ٹوٹی پوٹی سڑکوں کا سوچھتا ہے تو دل بھر سا جاتا ہے، لیکن یہاں کی عوام کے لیےٴ یہ سب عام سی باتیں ہیں۔ زیادہ افسوس تب ہوتا جب اس بات کا علم ہوتا کہ یہاں کی عوام میں سے زیادہ طر کو تو اپنے حقوق تک کا پتہ ہی نہیں اور جنہیں پتہ ہے وہ باقی کے لوگوں کے ساتھ اس سب کو اپنی قسمت سمجھ کر سب قبول کرلیتے ہیں، حالانکہ انہیں اِس بات کا علم تک نہیں کہ جن کی وجہ سے انکے حقوق کی حق تلافی کی جا رہی وہ سب انکے ہی بٹھائے ہوئے ہیں انہی کیلئے ہیں۔ اِس علاقے میں بجلی کی کمی کا پتہ تب چلتا جب ہم جیسے جو ہفتے کے چھ دن تو کام پر ہوتے صرف تصور کرسکتے اُس تکلیف کا جو ہم صرف گھر سے نکلتے ہوئے محسوس کرتے ہیں کہ گھر والے اس سب کے ساتھ سارہ دن کس طرح گزار رہے ہونگے جب ہفتے کے اختتام پر کام سے یا یونیورسٹی وغیرہ سے چُھٹی ہوتی ہے اور وہ اتوار کا دن ہمارا بھی گھر پر گزرتا تب پتہ چلتا کہ صرف ہم ہی زمانے کا یا گھر کا سوچ کر نہیں برداشت کر رہے ہوتے ہیں بلکہ ہمارے گھر والے بھی اسی قسم کی جستجو کررہے ہوتے ہیں۔ گھر والوں کو اس چیز کی فکر الگ کے اب اس گرمی میں کھانا تو بنا لیں لکن اگر گیس نہ ہو تو، کیوںکہ ہمارے علاقے میں گیس اور پانی کا اک مسلہ اک عرصہ دراز سے چلتا آرہا ہے، لوگ گیس کی کمی کے ساتھ ساتھ پانی تک کے لئے ترس رہے ہوتے ہیں، جو کہ کہی جا کر بیس سے پچیس دن کے بعد اک دفعہ آتا ہے جس میں بھی اسے صرف گھنٹے ڈیڈھ کے لئے ہی چھوڑا جاتا ہے، جو مشکل سے اک گھر کا ہفتہ دو چل جاتا ہے۔ تو اسی طرح یہاں کے مسئلے کافی ہیں جنہیں شاید بیاں کرتے ہوئے یہ وقت اور یہ الفاظ کم پڑھ جائے ۔ تو اس تحریر کا اہم مقصد اس بات کی یاد دہانی اور سفارش ہے کہ جتنا ہوسکے سب سے پہلے اس معاشرے سے ناخواندگی کا اختتام کیا جائے، ہم سب کو ہمارے حقوق کا علم ہو کہ ہمارے کیا حقوق ہیں، اس معاشرے سے اور اسی طرح اس معاشرے کے ہم پر کیا حقوق ہیں۔ یہ سب جان کر ہی اک عام شخص بھی اپنے حق کے لئے بات کرسکتا ہے آواز بلند کرسکتا ہے۔ اسے کسی کے سامنے بھیک مانگنے کی یہ کسی کے پیر پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں، اس ناخواندگی کے خاتمے کے بعد ہی ہمارا معاشرہ کسی حد تک ترقی پذیر بن سکتا ہے اور اسکے بعد ہی ان سب مسئلوں کا حل بھی نکل سکتا ہے.

 

Salman Ahmed
About the Author: Salman Ahmed Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.