یہ ہیں ہمارے رہنما

پاکستان مسلم لیگ (ن)، جمعیت علماءاسلام (ف) کے بعد متحدہ قومی موومنٹ کی ایک بار پھر حکمران اتحاد سے علیحدگی نے ملک کے سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ کردیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے رابطوں میں ایک دم تیزی آگئی ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی سیاسی ہلچل نے پیپلز پارٹی کی مفاہمتی سیاست کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے، جبکہ ملک میں سیاسی تبدیلی کے لیے اپوزیشن کے ”گِرینڈ الائنس“ کے وجود میں آنے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے، جس کی وجہ سے حکومت کے لیے اپنی بقا کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے اور اپوزیشن کا یہ ممکنہ اتحاد آگے جاکر بڑا انتخابی اتحاد بھی بن سکتا ہے۔

دوسری جانب پیپلز پارٹی کی قیادت بھی اس ممکنہ صورت حال سے نمٹنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر تیاریاں کررہی ہے۔ایم کیوایم کی حکمران اتحاد میں واپسی فی الوقت مشکل دکھائی دے رہی ہے ،کیونکہ آئندہ عام انتخابات میںچھ سے آٹھ ماہ ہی رہ گئے ہیں، تاہم ایک بات طے ہے کہ ”دوسروں کو لڑاﺅ اور حکومت کرو“ کی پالیسی پر عمل پیرا صدر زرداری کے ساتھ اس دفعہ ”ہاتھ“ ہوگیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے اختلافات سے فائدہ اٹھا کر ساڑھے تین سال تک کامیابی سے حکومت کرنے والے پی پی کے شریک چیئرمین سیاسی تنہائی کے شکار ہوتے جارہے ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ اہم قومی امور پراپنے اتحادیوں کو اعتماد میں نہیں لیتے۔

ماضی قریب میں (ن) لیگ اور متحدہ کی لڑائیاں اور ایک دوسرے پرسنگین نوعیت کے الزامات قوم کے ذہنوں سے ابھی محونہیں ہوئے۔ اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ہاںذاتی مفادات اور اقتدار کی سیاست ہورہی ہے۔ سیاست دانوں کی تمام تر رسہ کشی، دوڑ دھوپ اور جوڑ توڑ حصول اقتدار کے لیے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے سیاست دان صرف کرسی اقتدار کے لیے ہی اپنے حلیفوں کو حریفوں اور حریفوں کو حلیفوں میں تبدیل کردیتے ہیں۔ اگر انہیں عوامی مفادات سے غرض ہوتی، انہیں قوم کی حالت بدلنے کا خیال ہوتا اور یہ اپنے ووٹروں سے مخلص ہوتے تو قوم آج مشکلات در مشکلات کی چکی تلے نہ پس رہی ہوتی، عوام بجلی، گیس اور پانی جیسی بنیادی ضروریات زندگی سے محروم نہ ہوتے۔ ”روٹی، کپڑا اور مکان“ کا نعرہ لگانے والے حکمرانوں کے دور میں قوم کا کوئی پرسان حال نہیں۔

ان کی بدترین کارکردگی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ 3 برسوں میں پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث 57 فیصد لوگ غربت، بھوک اور افلاس کے شکار ہوئے ۔اس وقت 17 کروڑ افراد میں 11 کروڑ افراد خط غربت سے بھی نچلی سطح پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جبکہ ہر دس پاکستانیوں میں سے 6 کی یومیہ آمدنی صرف 170 روپے ہے اور ہر دس پاکستانیوں میں سے 6 پاکستانی یومیہ 100 روپے صرف اپنی خوراک پر خرچ کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے پاس دیگر تمام ضروریات کے لیے صرف 70 روپے یعنی پورے ایک سو روپے بھی نہیں بچتے۔ جبکہ حکومت ان کے حالات کی بہتری کے لیے کوئی اقدام اٹھانے کو تیار نہیں۔

ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق غربت کی روک تھام نہ کی گئی تو آئندہ دس برسوں میں غریبوں کی تعداد 13کروڑ سے تجاوز کرجائے گی۔ دوسری جانب کل سے نئے مالی سال کا آغاز ہوچکا ہے۔ اس موقع پر نہ صرف گیس اور بجلی کے نرخوں میں 10 سے 100 فیصد اضافہ کیا جاچکا ہے بلکہ یہ خبریں بھی آ رہی ہیں کہ بہت سی دیگر اشیاءکی قیمتیں بھی بڑھ جائیں گی۔

فروری 2008ءکے انتخابات پر عوام نے موجودہ حکومت کو اپنے بنیادی مسائل، امن وامان ، رہائش، روزگار، تعلیم وطبی سہولیات سوشل سیکورٹی کے حل کے لیے ووٹ دیے تھے۔ اور ان سب کے لیے صرف پانچ چھ وزراءبھی کافی تھے۔ حکومت نے ان مسائل کے حل کے لیے کیا کیا.... امن وامان کا یہ حال ہے کہ صرف جنوری سے اب تک صرف متحدہ کے 100 سے زاید کارکنان قتل ہوگئے جبکہ وہ پوری طرح برسراقتدار بھی تھی۔ دوسری جماعتوں کے حال اور عام شہریوں کے حال کا اندازہ اس سے کرلیا جائے۔

روزگار کی حالت یہ ہے کہ کراچی میں بجلی، تیل، گیس کے بحران کے سبب یومیہ ایک کارخانہ بند اور اس سے وابستہ ہزاروں کارکنان بے روزگار ہورہے ہیں۔ رہائش کا مسئلہ اب خارج از بحث ہوچکا ہے۔ تعلیم اور صحت کی سہولیات کا اندازہ وفاقی بجٹ میں مختص کردہ رقوم سے ہوسکتا ہے۔ صحت کے بجٹ میں بھی مزید 70 فیصد کٹوتی کردی گئی ہے جس سے عام لوگ اب سرکاری ہسپتالوں میں ٹیسٹ کروانے سے لے کر ادویہ کے حصول تک سے محروم ہوگئے ہیں۔ سوشل سیکورٹی اب صرف حکمرانوں کا استحقاق ہے ویسے بھی جس ملک میں انسانی جان بے وقعت ہوگئی ہے وہاں سوشل سیکورٹی کی بات فضول ہے۔ ملکی حالات صرف مستقل ڈرون حملوں، ایبٹ آباد سے مہران بیس کیس تک کے حوالے سے کافی ہیں۔

ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ صرف فیصل آباد میں 600 کارخانے بند اور 4 لاکھ محنت کش بے روزگار ہوگئے ہیں۔ اس سے پورے ملک کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اب تو پنجاب کے بعد سندھ میں بھی گیس کی لوڈشیڈنگ کا اعلان کردیا گیا ہے۔ یعنی سندھ میں بھی صنعت وحرفت کا بیڑا غرق.... اس پر فردوس عاشق اعوان بڑے فخر سے اعلان کررہی ہیں کہ سی این جی کی قیمت پیٹرول کے برابر کردیں گے۔ کیا پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتیں اسی لیے برسراقتدار آئی تھیں۔ ساڑھے تین سال قوم کو جی بھر کر لوٹنے کے بعد ایک دوسرے پر الزامات تھوپے جارہے ہیں۔ نئے اتحاد بن رہے ہیں تاکہ اگلے انتخابات میں پھر قوم کو بے وقوف بنا کر ٹھگا جاسکے۔ یہ سارے کے سارے ٹھگوں کا ٹولہ ہیں۔ قوم فیصلہ کرے کہ وہ کب تک ان ٹھگوں کے ہاتھوں لٹتی رہے گی؟ اگر یہ سارے سیاست دان اقتدار کے لیے گٹھ جوڑ کرسکتے ہیں تو قوم کے مسائل کے حل کے لیے، ملکی خود مختاری اور سا لمیت کے تحفظ کے لیے متحد کیوں نہیں ہوسکتے؟
Usman Hassan Zai
About the Author: Usman Hassan Zai Read More Articles by Usman Hassan Zai: 111 Articles with 86374 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.