تلسی داس نے کہا تھا کہ تجھے
چاہیے کہ دوسروں کو اچھے کام کرنے کے مشورے دینے کی بجائے خود زیادہ عمل
کرو۔mqmنے حکومت کے خلاف نکتہ آفرینیوں اور الزامات کی یورش میں حکومتی
اتحاد کو چھوڑ دیا۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ پوری قوم کی جانب سے
متحدہ کے ڈان اور انکے سیاسی مریدوں کو ہلال پاکستان سے بھی بڑا ایوارڈ
دیاجائے اور یہ ایوارڈ صرف ایم کیو ایم کے لئے مختص ہو اور ہر سال باقاعدگی
سے چودہ اگست کو ایوان صدر میں پروقار تقریب میں عطا کیا جائے کیونکہ متحدہ
نے بلیک میلنگ اور دھوکہ دہی اور احسان فراموشی کی قدیم روایات کو نہ صرف
پوری آن بان سے دہرایا بلکہ اگلے پچھلے ریکارڈز توڑ دئیے۔ ایم کیو ایم کی
سیاسی اہمیت سے سر مو انکار نہیں کیا جاسکتا تاہم انکی محولہ بالہ روایات
کی حیثیت بھی مسلم ہے۔ایم کیو ایم نے چھ سات مرتبہ پہلے بھی کو لیشن الائنس
سے خفا ہوگئی انہیں نصف درجن سے زائد مرتبہ منایا گیا ۔ ہر دور کی اتحادی
حکومتوں کو چھوڑ دینے کی دھمکیاں دینا متحدہ کا وطیرہ بن چکا ہے۔ پچھلے سال
اتحاد کو چھوڑنے کا غیر متوقع اعلان کرکے حکومت کو ایسا جھٹکا دیا کہ یوں
نظر آتا تھا کہ حکومت کا جانا ٹھر چکا ہے ۔کہ فضل الرحمن نے حکومتی اتحاد
کو خیر باد کہا توحکومت کے پاس گنے چنے ممبران پارلیمنٹ تھے ۔ ارباب اختیار
ابھی جے یو آئی کو منانے کے جتن کررہے تھے کہ متحدہ نے اپنی کی حکومت کو
چھوڑنے کا اعلان نامراد کردیا۔ اس وقت گیلانی کی وزارت عظمی کی بقا کے لئے
اراکین پارلیمنٹ مطلوبہ تعداد تک نہ تھی۔ یہ تو بھلا ہوا نواز شریف کا کہ
انہوں نے تحریک عدم اعتماد کو مسترد کردیا۔ ورنہ ایم کیو ایم نے جمہوریت کو
شہید کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔ متحدہ اپنے مطالبات منوانے کے لئے دو
چار دنوں کی علحیدگی کا سوانگ رچاتی ہے۔وزیراعظم منانے کے لئے نائن زیرو
گئے۔ وزیرداخلہ رحمن ملک متحدہ کی خواہشات اور مطالبات کو عملی جامعہ
پہنانے کے لئے کئی دن کراچی میں دردر کی خاک چھانتے رہے۔ گیلانی سرکار جس
پر متحدہ نے دو روز قبل کرپشن مہنگائی اور اقرباپروری کے الزامات لگائے تھے
پھر اسی کا بینہ کا دوبارہ حصہ بن گئے۔ کشمیری الیکشن کے التوا کے معاملے
پر متحدہ ایسی خفا ہوئی کہ ڈاکٹر عشرت العباد گورنر سندھ بھی لندن کے اشارے
پر مستعفی ہوکر ڈان کی قدم بوسی کے لئے برطانیہ پہنچ گئے۔ صدر مملکت زرداری
نے دیار غیر سے گورنر کو مستعفی ہونے کے فیصلے پر نظرثانی کرنے کی اپیل کی
وہ مسترد ہوگئی۔ متحدہ کے ناٹک کا اہم ترین آپشن امدہ الیکشن کی تیاریوں کا
حصہ ہے۔الیکشن سے پہلے متحدہ سال ڈیڈھ سال مظلومیت کا بگل بجائے گی کہ ہم
نے قومی مفاد اور عوام کی دیوانگی کے لئے اقتدار کو ٹھوکر ماری دی۔کسی بھلے
مانس کو متحدہ کے رجال کاروں سے یہ پوچھنا چاہیے کہ42 مہینوں تک صوبائی اور
مرکزی اقتدار کی سے عیاشیاں کرتے وقت انہیں حکومتی اتحاد کی خامیاں نظر
نہیں آئیں؟ متحدہ کی حکومت سے طلاق، گورنر سندھ کا مستعفی ہونا نیک شگون تو
نہیں ہے۔ پاکستان کے داخلی اور خارجی محازوں پر ہوشربا اور سلگتے ہوئے
خطرات کے بھنور میں پھنسا ہوا ہے۔ امریکی عہدیدار پاکستان کو روزانہ
دھمکیاں دے رہے ہیں۔پاک فوج کو کمزور کرنے کی عالمی شاطربازیاں عروج پر
ہیں۔یہ سچائی بھی منظر عام پر آچکی ہے کہ امریکہ پاکستان کے ایٹمی قوت کو
پاش پاش کرنے کے درپے ہیں۔ اندرون ملک شدت پسندوں نے کہرام مچا رکھا ہے۔
موجودہ حالات کا تقاضا تو یہ ہے کہ جمہوریت کی مضبوطی اور اغیار کی ریشہ
دوانیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے متحدہ مخلوط اتحاد کے ساتھ سینہ سپر بن جاتے
اور جمہوریت دفاع پاکستان کی خاطر وہ نازک ترین حالات میں مخلوط اتحاد کا
ساتھ دیتے رہتے مگر زاتی امنگیں و ترنگیں جمہوریت اور استحکام پر فوقیت لے
گئیں۔ متحدہ کے اس عظیم کارنامے پر تجزیہ نگار سیاسی پنڈت اور میڈیا متنوع
اور متفرق ارا کا اظہار کررہے ہیں۔۔متحدہ کے فیصلے کو قدرے اہمیت دی جارہی
ہے۔ایم کیو ایم کے اس اقدام کے تناظر میں باور کیا جاتا ہے کہ یہ فیصلہ پی
پی پی اور متحدہ کے مابین محبت و نفرت اور التفات و تغافل کے تین عشروں پر
محیط دیدہ زیب نشیب و فراز کا ڈراپ سین ہے۔ صدر مملکت اور پی پی پی کی اعلی
قیادت نے مفاہمت اور مصالحت کی اپیلیں کی ہیں۔ رحمن ملک جو دوسروں کو منانے
کے حوالے سے یگانہ روز گار شخصیت رکھتے ہیں صدر کی ہدایت پر اکھاڑے میں اتر
چکے ہیں مگر شائد اس مرتبہ وہ فاتح میدان کا تاج نہ پہن سکیں۔ حکومت کو
قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل ہے اور قرائن سے نظر اتا ہے کہ پی پی پی اپنی
ٹرم مکمل کرےگی مگر متحدہ کے شو کے مضمرات اور اثرات کو کسی صورت نظر انداز
کرنا درست نہیں ہوگا کیونکہ حالیہ جمہوری عمل دھیرے دھیرے آگے سرک رہا ہے
اور یہ کسی صدمے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔کراچی میں لاقانونیت چھائی ہوئی ہے۔
ٹارگٹ کلنگ کا بازار تندور کی طرح شعلہ آفرین ہے۔ ماضی کی ہسٹری پر نظر
دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ کسی دور میں جب کبھی حکومت کے خلاف فیصلہ اتا ہے
تو شہر قائد کو خون میں نہلادیا جاتا ہے۔یہ کون لوگ ہیں؟ قاتلوں دہشت گردوں
بھتہ خوروں اور غیر ملکی جاسوسوں کے کراچی میں قائم نیٹ ورک کو توڑنے کے
لئے ایم کیو ایم کا تعاون لازم ہے۔ متحدہ کے قائدین کو چاہیے کہ وہ ایک یا
دو نشستوں کے لئے جمہوری نظام کی بنیادیں کھوکھلی نہ کریں اور سیاسی بلوغت
کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومتی نمائندگان سے سیاسی ڈائیلاگ کریں۔یہی تو
جمہوریت کا حسن ہے کہ سیاسی فیصلے باہمی گفت و شنید سے کئے جائیں۔ متحدہ نے
علحیدگی کے جواز کے لئے جو دلائل و شکووں یا الزامات کا پنڈورہ بکس کھولا
ہے اسے دیکھر سیاسی منافقت کے قصے یاد انے لگتے ہیں۔فاروق ستار نے مخلوط
اتحاد سے اپوزیشن میں جانے کی لمبی کہانی پریس کے سامنے سنائی تھی اس دوران
ایک موقع پر وہ گویاہوئے کہ ہمارے وزرا بے اختیار تھے ۔ چلو اگر اسے تسلیم
بھی کرلیا جائے تو ہمیں خود اپنی جہالت کا احساس ہونے لگتا ہے۔کیا فاروق
ستار بتائیں گے کہ انکے بے اختیار وزرا گاڑیوں بنگلوں لمبی تنخواہوں اور
حکومتی مراعات سے مستفید ہونے کے لئے اقتدار کی راہداریوں میں گردش کرتے
رہے بے اختیاروں نے پہلے روز ضمیر کی اواز پر لبیک کیوں نہیں کیا؟ ن لیگ نے
متحدہ کو مبارکباد دی ہے۔ شنید ہے کہ فضل الرحمن ایم کیو ایم اور ن لیگ
جوائنٹ اپوزیشن کا کردار نبھائیں گے۔ جمہوریت مخالفین اور پاک فورسز سے
مخاصمت رکھنے والے ملکی اور غیر ملکی ایجنٹ بھی سیاسی کشاکش کو بڑھاوادینے
کے لئے متحرک ہوچکے ہیں۔ اپوزیشن رہنماؤں کے سخت گیر بیانات سے یہ سچائی
الم نشرح ہے کہ نوے کی تاریخ کو دہرانے کی صف بندیاں کی جارہی ہیں مگر کیا
سارے رہبر فارغ البالی کے مرض میں مبتلا ہیں؟ کیا انہیں معلوم ہے کہ1990
والی ناعاقبت اندیشیوں اور باہمی بعد المشرقین 12 اکتوبرانقلاب کو جنم دیتا
ہے۔ایم کیو ایم کا خمیر تو خاکی وردی کا شاہکار ہے۔ ایم کیو ایم تو نئے
مشرف کے ساتھ ہنی مون منا سکتی ہے مگر کوئی یہ تو بتائے کہ اگر کوئی
پانچواں مشرف آگیا تو توسترہ کروڑ عوام کا پرسان حال کیا ہوگا بحرف آخر قوم
پاکستان متحدہ کے بھیوں اور ممبران پارلیمنٹ کا قومی فرض ہے کہ وہ تلسی داس
کے محولہ بالہ قول کے تناظر میں حکومتی مفاہمت کی اپیلوں پر لبیک کہے۔
|