بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نواب
اسلم رئیسانی کو بھی میڈیا میں ”ان“ ہونے کا فن آ گیا ہے اور ٹی وی چینلز
نے جب سے ان کی ڈگری .... ڈگری ہوتی ہے چاہے اصلی ہو یا نقلی .....کی فوٹیج
بار بار ناظرین کو دکھا نی شروع کی ، تو عوام کو ناصرف بلوچستان کا خیال آ
یا بلکہ انہیں وزیراعلیٰ بلوچستان کے نام کے ساتھ ان کی شخصیت بھی اچھی
لگنی لگی۔شاید یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد نواب اسلم رئیسانی کے چند ایک اور
فقرے مثلاً ڈگری ڈگری ہوتی ہے چاہے یونیورسٹی کی ہو یا پھر تھرمامیٹر کی
۔۔۔۔ اور یہ کہ مجھے حکیم نے خون دینے سے منع کیا ہے اور حال ہی میں ان کا
ایک اور چٹکلا کہ گرمی گرمی ہوتی ہے چاہے ونٹر ہو یا سردی........ خاصا
مقبول ہوا ،غرض اب ان کی طبعیت پیر پگاڑا کی سی بن گئی ہے بلکہ ان سے بھی
دو ہاتھ آگے کہ پگاڑا صاحب تو اخبارات میں زندہ رہتے ہیں جبکہ رئیسانی صاحب
ٹی وی چینلز پر بذات خود زندہ دلی کا ثبوت دیتے ہیں بہر حال اس سے ایک بات
تو طے ہو گئی ہے کہ نواب صاحب نے بلوچستان کے مسئلے پر باقی صوبوں کو بیدار
کر دیا ہے اور یہ صوبہ قومی دھارے میں آ گیا ہے۔
یہ تو نواب صاحب کی مرنجان مرنج طبعیت کا ایک رخ ہے اگر دوسرے رخ کو دیکھیں
تو وہ کسی دانش ور سے کم نظر نہیں آتے ۔گزشتہ دنوں برطانوی ہائی کمیشن کی
فرسٹ پولیٹکل سیکرٹری کیٹ ایوانز اور سکینڈ پولیٹکل سیکر ٹری لورا ڈینر نے
ان سے ملاقات کی تو انہوں نے اپنی باتوں سے دونوں سفارت کاروں کو حیران کر
دیا اور سچے محب وطن ہوتے ہوئے انہوں نے پاکستان کے سابق آقا کے نمائندوں
کو بتا دیا کہ پاکستان ایک سچائی ہے اور بلوچستان کی علیحدگی کی باتیں مہم
جوئی کے سوا کچھ نہیں ، انہوں نے مزید کہا کہ بم دھماکے اور اغواءبرائے
تعاون علاقائی اور عالمی کھلاڑیوں کے کھیل کا حصہ ہیں ۔یقیناًہر درد دل
رکنے والے شخص کو بلو چستان کی خراب صورتحال پر تشویش ہے ،اہدافی قتل ہو ،
فرقہ ورانہ واقعات ہوں،حساس اداروں کی کاروائی ہو ،سانحہ خروٹ آباد ہو یا
سرداروں کے ناروا سلوک اور ان کی انانیت ،،،ان سب نے پاکستان کے 43 فیصد
رقبے پر محیط صوبے پر سوالیہ نشان بنا دیا ہے لیکن اس سب کے باوجود یہ بات
بھی طے ہے کہ عالمی اور علاقائی طاقتیں بلوچستان کا امن و امان خراب کرنے
میں بھی پیش پیش ہے ۔کہنے کو تو اب یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ امریکا کے دباؤ
پر بھارت بلوچستان کے معاملے سے پیچھے ہٹ گیا ہے ،کیا یہ حقیقت نہیں کہ
افغانستان میں اتحادی جس طرح پیچھے ہٹتے جا رہے ہیں اس سے بھارت کاکردار
بھی محددد کر دیا ہے اور میڈیا میں کوئٹہ سے 200 کلو میٹر کے فاصلے پر
واقعہ شمسی ائیر بیس کا معاملہ کھڑا کر دیا گیا ہے جس پر امریکہ نے نائن
الیون کے بعد سے قبضہ کیا ہوا ہے اور اس قبضہ کا آغاز جنرل پرویز مشرف کے
دور میں ہوا تھا جسے موجودہ حکومت نے بھی توسیع دیدی ایسی صورتحال میں بلوچ
عوام کے تحفظات اور خدشات بجا ہیں کہ ان کی سرزمین کو اپنے ہم وطنوں اور
مسلمان بھائیوں کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت کیوں دی جا رہی ہے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب رئیسانی نے تو ریکو ڈک اور گوادر کے منصوبے بھی
صوبے کے حوالے کرنےکا مطالبہ کیا ہے تاکہ اسے بلوچ عوام چلا سکیں ،ایسا
ہوتا نظر نہیں آ رہا اب جبکہ 30 جون کو 7 وزارتوں کو صوبوں کو منتقل کرنے
کا عمل اٹھارویں ترمیم کے تحت مکمل ہو گیا ہے ، امید کی جا سکتی ہے کہ
صوبائی خود مختاری کےلئے مختص حلقوں سے جو آوازیں آ رہی ہیں وہ کافی حد تک
مطمئن ہو جا ئیں گے اس سلسلے میں بڑی مثال تو گزشتہ روز پشاور میں اے این
پی کے زیر اہتمام ہونے والا پروگرام تھاجس میں سرخ پوش رہنماؤں نے اسے خان
عبدالغفار خان کے فلسفہ کی کامیابی قرار دیا ۔ادھر ایچ آر سی پی کی اسلام
آباد میں جاری کردہ بلوچستان کے حوالے سے رپورٹ نے اگرچہ میڈیا کی خاصی
توجہ حاصل کر لی ہے لیکن یہاں اس بات کوبھی مد نظر رکھنا چاہئے کہ غیر ملکی
کھلاڑیوں کا ایسی ہی باتوں سے شہ ملتی ہے اور وہ انگلیاں اٹھانے لگتے ہیں
اس میںکوئی شک نہیں کہ پنجاب کے علاوہ باقی تمام صوبوں میں رینجرز،لیوی،ایف
سی،سکاوٹس سمیت پیراملٹری فورسز ا من و امان کے حوالے سے کام کر رہی ہیں
لیکن ان کا زیادہ دیر تک شہری آبادیوں میں رہنے سے صورتحال بہتر ہونے کی
بجائے زیادہ خراب ہوتے ہیں اور ایسی صورتحال ہی سیاسی مہم جوئی کا محرک
بنتے ہیں بنگلہ دیش،سویت یونین اور بلغاریہ اس کی واضح مثالیں ہیں۔
|