بجٹ کے بارے میں اپوزیشن کے دعوے صرف بیانات تک محدود
ثابت ہوئے ۔ پی ڈی ایم کے جلسوں،جلوس میں کیے گئے اعلانات بھی صرف تقرریں
ہی ثابت ہوئیں ۔ماہرین کی جانب سے پیشگوئی کی جارہی ہے کہ پاکستان تحریک
انصاف کی حکومت آئندہ چار ماہ یعنی ’’جولائی ، اگست ، نومبر اور اکتوبر‘‘
اپوزیشن کے لئے بھاری ہیں ۔ کیونکہ اکتوبر کا مہینہ سیاسی اعتبار سے بہت ہی
اہمیت کا حامل ہے ۔بتایا جارہاہے کہ آئندہ چند ماہ میں بہت سے ایوزیشن
اتحادی بیرون ممالک روانہ ہوجائیں گے ۔ جس سے ملکی سیاسی تاریخ میں بڑی
ہلچل رونما ہوسکتی ہے ۔
دوسری جانب تاریخی حوالے سے اکتوبر کا مہینہ نہ صرف پاکستان کیلئے تاریخی
اورسیاسی اہمیت رکھتا ہے بلکہ وزیراعظم عمران خاں، نواز شریف، میر ظفراﷲ
جمالی مرحوم ، جنرل پرویز مشرف اور مولانا فضل الرحمن کی زندگی کے کئی
ناقابل فراموش واقعات بھی اسی مہینے میں پیش آئے۔عمران خاں کی زندگی میں
اکتوبر یوں اہم ہے کہ ان کی پارٹی کا مینار پاکستان میدان لاہور میں وہ
یادگار جلسہ 30 اکتوبر 2011کو ہی ہوا جس سے ملنے والی قوت نے بالآخر انہیں
ایوان وزیراعظم میں پہنچایا۔
عمران خاں پیدا بھی 5 اکتوبر 1952 کو ہوئے تھے۔ یکم اکتوبر 2012کوطالبان نے
حکیم اﷲ محسود کی صدارت میں کمانڈرز کے اجلاس کے بعد عمران خاں کی 6 اکتوبر
کو ہونے والی ریلی کیلئے سکیورٹی فراہم کرنے کی پیشکش کی تھی کیونکہ یہ
ریلی ڈرون حملوں کیخلاف تھی۔اس ریلی کے نتیجے میں عمران خاں کو خیبر
پختونخوا اور بلوچستان سے کافی حمایت حاصل ہوئی جس کے ثمرات بعد میں ملتے
رہے۔ پرویز مشرف کے وردی اتارے بغیر 6 اکتوبر2007کو ہونے والے صدارتی
الیکشن لڑنے پر احتجاج کیلئے 2 اکتوبر 2007کو عمران خاں نے بھی 85 ارکان
پارلیمنٹ کے ساتھ استعفیٰ دے دیا،11 اکتوبر 2019کو عمران خاں نے ترک صدر
اردوان سے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کے حوالے سے ترکی کی تشویش کو پوری طرح
سمجھتا ہے۔
اس بیان کو ترکی اور مشرق وسطی میں بہت اہمیت دی گئی۔جنوری 2015میں اعلان
کیا گیا کہ عمران خاں نے پاکستانی نژاد برطانوی صحافی ریحام خاں سے اپنی
رہائش گاہ پر نکاح کرلیا ہے لیکن ریحام خاں نے بعد میں اپنی کتاب میں لکھا
کہ ان کی شادی دراصل اکتوبر 2014میں ہوگئی تھی لیکن اعلان جنوری 2015میں
کیا گیا۔دونوں نے علیحدگی کا فیصلہ بھی اکتوبر ہی کی 22 تاریخ کو کیا۔اب
اکتوبر ہی میں ہی عمران خاں کو اپوزیشن کا حقیقی چیلنج درپیش ہے۔ اسی ماہ
کے آغاز ہی میں گیارہ جماعتی اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم نے مولانا فضل الرحمن
کو اپنا سربراہ چنا۔گزشتہ سال 30 اکتوبر کو مولانا فضل الرحمان کا عمران
حکومت کیخلاف لانگ مارچ لاہور پہنچا تھا۔ یہ مولانا کا سب سے بڑا سیاسی
جلوس تھا۔انہوں نے مینار پاکستان میدان میں بڑے جلسے سے خطاب کیا تھا۔یہ
مارچ 13 نومبر کو ختم کرکے پلان بی کے طور پر بڑی سڑکوں کو بند کیا
گیا۔نواز شریف کے 19 اکتوبر کو ایر ایمبولینس پر لندن روانہ ہونے کے ساتھ
ہی احتجاج ختم کردیاگیا، 10 اکتوبر 2002 کو ہونے والے انتخابات میں مولانا
فضل الرحمن نے متحدہ مجلس عمل(ایم ایم اے)کی قیادت کی تھی۔ان انتخابات کے
بعد پرویز مشرف کی حمایت سے مسلم لیگ ق کو اکثریت مل گئی اور میر ظفراﷲ
جمالی وزیراعظم بنے لیکن ایم ایم اے نے 63 نشستیں جیت کر سب کو حیران کردیا
تھا۔ پیپلز پارٹی نے81 نشستیں لیں اور مسلم لیگ ن کا صفایا ہوگیا۔
اس سے تین سال پہلے 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے اکتوبر کی 12 تاریخ کو ہی
نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا تھا،2010 میں اکتوبر کے مہینے میں ہی
پرویز مشرف نے لندن کے ایک کلب میں اپنی پارٹی آل پاکستان مسلم لیگ بنانے
کا اعلان کیاتھا۔اس سے پہلے 16 اکتوبر 1951کو پہلے وزیراعظم لیاقت علی خاں
قتل ہوئے اور 17اکتوبر کو ملک غلام محمد نے گورنر جنرل اور خواجہ ناظم
الدین نے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا۔غلام محمد کے استعفے کے بعد سکندر مرزا
نے یکم اکتوبر 1955 کو ہی عہدہ سنبھالا، 7 اکتوبر 1958 کو انہوں نے مارشل
لا لگا دیا،27 اکتوبر کو جنرل ایوب خاں نے انہیں چلتا کیا. 26 اکتوبر1959
کو ایوب خاں نے بنیادی جمہوریت کا تصور دیا اور اگلے دن فیلڈ مارشل بن
گئے۔نواز شریف 24 اکتوبر 1990 کے الیکشن کے نتیجے میں وزیراعظم بنے،6
اکتوبر1993کے الیکشن کے نتیجے میں بینظیر دوبارہ وزیراعظم بنیں،8اکتوبر
2006 کو ملک میں بدترین زلزلہ آیا،18 اکتوبر 2007 کو بینظیر بھٹو کی وطن
واپسی پر سانحہ کارساز پیش آیا۔ماہرین کاکہناہے کہ پیش گوئی ہے وزیراعظم
عمران خان کی قیادت میں آئندہ چارماہ میں بہت بڑی تبدیلی رونما ہوگی جس سے
دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن ہوگا ۔
|