بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ریاستی دہشتگردی اور
انتہاپسندی کی وارداتیں بڑھ رہی ہیں۔مسلمانوں کوپاکستانی جاسوس کہہ کر
پکارا جا رہا ہے اورتشدد کے دوران زبردستی جے شری رام اور وندے ماترم کے
نعرے لگوائے جا رہے ہیں۔ بھارت کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں بزرگ
مسلمان شہری کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد زبردستی داڑھی کاٹنے والے افراد
کے خلاف فرضی مقدمہ درج کیا گیا۔ سرکاری طور پر اعلان کیا گیا کہ ملوث ہندو
انتہا پسندوں کو گرفتار کیا گیا ہے مگر تا حال انتہا پسند گرفتار نہیں ہوئے
ہیں۔ بلند شہر سے تعلق رکھنے والے 72سالہ عبدالصمد سیفی فوتگی کی تعزیت اور
اپنی بھتیجی سے ملاقات کے لیے غازی آباد گئے ۔وہاں انہیں تشدد کا نشانہ
بنانے کے بعد ان کی داڑھی بھی کاٹ دی گئی۔اس واقعے کے ایک ہفتہ بعدایک
ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو ئی جس پر بزرگ مسلمان کو تکلیف دہ واقعے کی
روداد سناتے ہوئے دیکھا گیا۔ اس ویڈیو پر عوام سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں
نے بھی بھارتی حکومت اور پولیس سے واقعے کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔ بزرگ
پر حملہ، ان کی داڑھی شیو کرنے کو انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھارت میں
بڑھتی ہوئی عدم برداشت اور مسلمان مخالف رویے کا عکاس قرار دیا ۔عمر رسیدہ
شہری نے خود سامنے آ کرحقائق بیان کئے کہ وہ سرحدی علاقے لونی کے قریب رکشے
میں سفر کررہا تھا جب دو افراد نے اغوا کر لیا جو رکشے میں آگے بیٹھے ہوئے
تھے۔ وہ بزرگ کو جنگل میں لے گئے اور تشددشروع کردیا۔’’ میں ان سے منت
سماجت کرتا رہا لیکن وہ نہ مانے اور جب میں نے تکلیف سے کراہنا شروع کیا تو
انہوں نے پوچھا کہ کیا میں اﷲ کا نام لے رہا ہوں۔‘‘
عبدالصمد اپنی رواداد میں کہتے ہیں کہ حملہ آوروں نے انہیں پاکستانی جاسوس
کہہ کر بھی پکارا اور زبردستی جے شری رام اور وندے ماترم کے نعرے
لگوائے۔انہوں نے کہا کہ میں درد برداشت نہیں کرپا تھا اور اسی اثنا میں وہ
دو قینچیاں لے آئے اور میری داڑھی کاٹ دی، مجھے اپنی جان خطرے میں لگ رہی
تھی۔ان کا کہنا تھا کہ شدت پسندوں نے اس کے بعد ان کی ویڈیو بناتے ہوئے کہا
کہ ہم مسلمانوں کے ساتھ ایسا کرتے ہیں، تمام مسلمانوں کو اس سے ایک پیغام
جائے گا اور چار گھنٹے تک تشدد کرنے کے بعد مجھے چھوڑ دیا۔لوہے کے کباڑ کے
چھوٹے سے کاروبار سے وابستہ بزرگ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرے
خاندان میں 9 مئی2021 کو ایک عزیز کی موت ہو گئی اور رمضان کی وجہ سے میں
وہاں نہیں جا سکا ۔ 5 جون کو میں وہاں جا رہا تھا،اڑھائی بجے کے قریب میرے
پاس ایک رکشا آ کر رکا اور انہوں نے مجھے قریب ہی نہر کے پاس چھوڑنے کی
پیشکش کی، میں ان کے ساتھ بیٹھ گیا اور میری صرف یہی غلطی تھی۔اس سے پہلے
بھی بھارت کی ریاست آسام میں متنفر جنونی ہندوؤں نے مزید ایک مسلمان پر
گائے کا گوشت فروخت کرنے کا الزام لگا کر بری طرح تشدد کا نشانہ بنا ڈالا
اور سور کا گوشت کھانے پر مجبور کردیا۔سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو
میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ہجوم نے ایک مسلمان بزرگ 68 سالہ شوکت علی کو گھیر
رکھا ہے جن کے کپڑے تشدد کے باعث کیچڑ میں لت پت اور پھٹ چکے ہیں۔ اسی
واقعے کی دوسری ویڈیو میں دیکھا گیا کہ تنہا شخص کو گھیر کر انتہا پسند
ہندوؤں نے ایک پیکٹ میں سے سور کا گوشت نکال کر انہیں وہ گوشت کھانے پر
مجبور کیا۔ویڈیو میں جنونی افراد بزرگ شخص سے ان کی شناخت ثابت کرنے کا
مطالبہ بھی کررہے ہیں۔ بھارتی ریاست آسام میں گائے کے گوشت پر پابندی نہیں
ہے اور آسام کے قانون کے مطابق 14 سال کی عمر سے زائد مویشی کو کاٹنے کی
اجازت ہے جس کے لیے جانور کی صحت سے متعلق سرٹیفکیٹ لینا ضروری ہے۔
شوکت ایک کاروباری شخص ہیں اور گزشتہ 35 سال سے اس علاقے میں ہوٹل چلا رہے
ہیں ۔ہجوم نے ان پر ہر ہفتے لگنے والے بازاروں میں گائے کا گوشت فروخت کرنے
کا الزام لگایا۔ شرپسندوں نے شوکت علی کو بری طرح مار پیٹ کے بعد انہیں سور
کا گوشت کھانے پر مجبور کردیا۔ شوکت علی زخمی ہونے کے باعث ہسپتال میں زیرِ
علاج رہے۔ پولیس کو مجرموں کا پتہ ہوتا ہے لیکن وہ نامعلوم افراد کے خلاف
مقدمات درج کرتی ہے۔ پولیس مسلمانوں پر تشدد کے واقعات کو مذہب کی بنیاد پر
تشدد قرار دینے سے انکارکرتی ہے۔ آسام میں گائے کا گوشت فروخت کرنا قانونی
طور پرجائزہے ۔ بھارت کے کسی بھی حصے میں بے گناہ شخص کو الزام لگا کر تشدد
کا نشانہ بنانا بھارت میں ہر جگہ غیر قانونی ہے۔ پولیس کہتی کہ حملہ آور کی
بھی شناخت ہو گئی ہے، مگر انہیں گرفتار نہیں کیا گیا۔
بھارت میں مسلمانوں کا جینا حرام کر دیا ہے۔ پاکستان ایک معاہدے کے تحت
بھارتی مسلمانوں کے تحفظ اور بھارت کے ساتھ معاملات اجاگر کرنے کا پابند ہے۔
یہ بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں۔ مگر نئی دہلی کے حکمران ان واقعات کو
اپنا اندرونی معاملہ قرار دے کر دنیا کو گمراہ کر رہے ہیں۔
|