ایران میں صدارتی انتخابات کے بعد کی صورتحال۔مسائل،توقعات،خدشات۔

ابراہیم رئیسی کا ایران کیسا ہوگا؟نے ایرانی صدر کی آمد سے ایران اور خطے میں کیا تبدیلیاں وقوع پذیر ہوں گی،ایران امریکہ تعلقات کیا رخ اختیار کریں گے؟ایران کی معیشت کو سہارا کیسے ملے گا؟ایران کے ایٹمی پروگرام کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟مایوسی کا شکار ایرانی نوجوان کیلے امید کی شمع کیسے روشن ہوگی؟ایران کے ہمسایہ ممالک سے تعلقات میں کس نہج کی تبدیلی کی توقع کی جا سکتی ہے؟؟یہ وہ سوال ہیں جو ہر اس شخص کے زہن میں کلبلا رہے ہیں جو ایران کی سیاست پر نگاہ رکھتا ہے۔اس مضمون میں ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ نئے امریکی صدر کو کن مسائل کا سامناہے۔

ہمسایہ برادر اسلامی ملک ایران میں منعقد ہونے والے حالیہ صدارتی انتخابات کے نتائج کے مطابق ابراہیم رئیسی بھاری اکثریت سے فتح حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں، اس حوالے سے پاکستان سمیت عالمی برادری کے سربراہان مملکت نے نو منتخب ایرانی صدر کو مبارکباد پیش کی ہے اور انکے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔دنیا کے نقشے پر موجود ایران ایک ایسا ملک ہے جہاں کی ہر سیاسی سرگرمی پر عالمی دنیا نگاہیں مرکوز کیے ہوے ہوتی ہے۔خصوصا ایران کے انتخابات پر عالمی برادری کی نظریں لگی ہوتی ہیں، انتخابی نتائج سے قبل ہی نئی متوقع ایرانی قیادت کی ترجیحات اور پالیسیوں کے بارے میں قیاس آرائیوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے،اور دنیا کے ہر دارالحکومت میں اس حوالے سے خصوصی دلچسپی پائی جاتی ہے۔یہاں پر یہ امر قابل ذکر ہے کہ انقلاب کے بعد ایرانی معاشرہ اور سیاست روایتی طور پر قدامت پسندوں اور اصلاح پسندوں کے درمیان منقسم ہے۔ لیکن فیصلہ سازی میں قدامت پسندوں کو غلبہ حاصل رہا ہے۔

انتخابات سے قبل ہی عالمی میڈیا کے مطابق قدامت پسند ابراہیم رئیسی کو ایرانی صدارت کیلئے مناسب ترین مقبول امیدوار قرار دیا جارہا تھا، ان کے بارے میں پیش گوئی کردی گئی تھی کہ وہ انتخابات میں فتح یاب ہونگے۔ساٹھ سالہ ابراہیم رئیسی پر ایرانی اعلی قیادت کے اعتماد کا یہ عالم تھا کہ ایرانی رہبر اعلیٰ اور سپریم کمانڈر آیت اﷲ علی خامنہ ای نے دو سال قبل انہیں عدلیہ کا سربراہ مقرر کیا تھا، الیکشن سے قبل ہی میڈیا نے ایسا تاثر بنا کر پیش کر دیا تھا جیسا کہ وہ،رہبر اعلیٰ خامنہ ای کے ممکنہ جانشین بھی ہو سکتے ہیں۔۔صدر رئیسی ایک گرم سرد چشیدہ شخصیت ہیں۔وہ پہلی مرتبہ اس دوڑ میں شامل نہیں ہوے بلکہ اس سے 2017کے انتخابات میں بھی حصہ لے چکے ہیں۔ تاہم اس وقت وہ اعتدال پسندوں اور اصلاح پسندوں کے حمایت یافتہ امیدوارتھیمگر موجودہ صدر حسن روحانی کو شکست دینے میں کامیاب نہیں ہوسکے تھے، 2017کے انتخابات میں حسن روحانی ایران میں امید کی ایک نئی کرن بن کر ابھرے تھے، ایرانی نوجوانوں کو ان سے بہت امیدیں وابستہ تھیں۔سابق صدر نے بھی ایران میں کء بنیادی اصلاحات کا وعدہ کیا تھا۔لیکن ان اصلاحات کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔جسکی وجہ سے شکست سے دوچارہوے۔تاہم انکے دورِ حکومت میں ایران اور امریکہ کے مابین جوہری معاہدہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی جس کی بدولت ایرانی عوام کو اپنا معیار زندگی بلند کرنے کیلئے بہت زیادہ توقعات وابستہ تھیں، تاہم صدر ٹرمپ کی طرف سے معاہدے سے نکل جانے سے ایران پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔

سابق ایرانی صدر حسن روحانی سیایرانی عوام کو یہ بھی گلہ تھا کہ وہ معاشی و سماجی شعبوں میں اصلاحات کے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہے ہیں، ایران میں کرنسی کا بحران بھی اصلاح پسند حکومت کی نامقبولیت کا اہم سبب بنا۔

نئے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کو اندررونی اور بیرونی محاذ پر بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے، انہیں ملکی معیشت میں بہتری لانے اور عام آدمی کو ریلیف دینے کیلئے سخت فیصلے کرنا ہونگے، نومنتخب ایرانی صدر نے اپنی الیکشن مہم میں ایرانی عوام کے ساتھ متعدد وعدے بھی کر رکھے ہیں۔ایران سے سماجی بدعنوانی کے خاتمے اور معاشی مسائل کے حل کیلئے ایک منظم لائحہ عمل پیش کرنے کا بھی وعدہ کیا ہے، تاہم اب انہیں اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ٹھوس لائحہ عمل ترتیب دیناہوگا، غربت دور کرنے کے علاوہ آئندہ چار برسوں میں 40لاکھ مکانات کی تعمیربھی ان کے انتخابی نعروں کا حصہ ہے۔عالمی سطح پر دیکھا جائے تو امریکہ سمیت عالمی برادری ایران میں قدامت پسندوں کی کامیابی سے ناخوش نظر آرہی ہے۔بلکہ کسی حد تک خائف بھی نظر آتی ہے، نومنتخب ایرانی صدرابراہیم رئیسی پر امریکہ نے متعدد پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور ان پر ماضی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزامات بھی عائد کئے جاتے رہے ہیں، مغربی میڈیا کی جانب سے آزادی اظہار رائے کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے،تاہم ایسی اطلاعات بھی منظرعام پر آرہی ہیں کہ ابراہیم رئیسی امریکہ کے ساتھ جوہری معاہدے میں واپسی کے حامی ہیں۔تاہم اس بات کی امید کی جاسکتی ہے کہ صدر رئیسی اس خطے کی تیزی سے بدلتی صورتحال سے آگاہ ہوں گے۔ امریکہ کے افغانستان سے فوجی انخلاء سے سب سے زیادہ ایران اور پاکستان متاثر ہونگے، ایران کی نو منتخب قیادت کو حالات کی نزاکت سمجھتے ہوئے سمجھداری اور دوراندیشی سے کام لیتے ہوئے عالمی جوہری معاہدے میں واپسی کیلئے کوششیں کرنی چاہئے، پاکستان اور ایران کا دوطرفہ تعاون علاقائی امن و استحکام کیلئے بہت ضروری ہے۔نو منتخب ایرانی صدر کو اس پہلو پر بھی توجہ دینا ہوگی۔ایرانی قیادت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ پاکستان ایران کا قابل اعتماد ہمسایہ ہے۔بلوچستان میں ایرانی مداخلت کے الزامات کے بعد دونوں ممالک میں پاء جانے والی سرد مہری کو توڑنے کیلئے بھی انکو ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔

نئے صدر اور مغربی دنیا سے پیچیدہ تعلقات: نو منتخب ایرانی صدر کو جن چیلنجرز کا سامنا ہے ان میں سب سے اہم مغرب اور امریکہ سے ایران کے تعلقات ہیں۔صدد ٹرمپ کی جانب سے جوہری معاہدے کے منسوخی کے بعد ایرانی عوام میں خوشحالی کی امیدیں مانند پڑتی نظر آ رہی ہیں۔ بین الاقوامی مبصرین اور سفارتکاروں کا خیال ہے صدارتی انتخابات میں کامیابی کے بعد ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے جوہری معاہدے پر اثرات مرتب ہوں گے۔ اب تک عالمی طاقتیں قدرے اعتدال پسند صدر حسن روحانی کے ساتھ مکالمہ کا عمل جاری رکھے ہوئے تھیں۔ اب آٹھ برس منصب صدارت پر فائز رہنے کے بعد روحانی کے اقتدار کا سورج غروب ہوچکا ہے۔اب دیکھنا ہوگا کہ عالمی طاقتیں قدامت پسند حکمران کے ساتھ مکالمہ جاری رکھتی ہیں یا نہیں۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سخت گیر موقف رکھنے والے نو منتخب صدر، انتخابی مہم کے دوران اقتصادی پابندیوں کے تناظر میں امریکا کو ہدف تنقید بنائے ہوئے تھے اور اب اسی شخصیت کی کامیابی سے بات چیت کا عمل مشکلات کا شکار ہو سکتا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ صدر رئیسی کو صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد بات چیت میں نئی رکاوٹوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔

ایران اس وقت ٹرمپ دور میں عائد کی جانے والی شدید نوعیت کی اقتصادی پابندیوں میں تبدیلی کا خواہشمند ہے اور دوسرا فریق یعنی عالمی طاقتیں یہ چاہتی ہیں کہ ایرانی جوہری پروگرام کی نگرانی مزید سخت کرنے کے ساتھ ساتھ یورینیم کے ذخیرے کو بھی محدود کر دے۔اب یہ فیصلہ نء ایرانی انتظامیہ کو کرنا ہوگا کہ وہ اپنے لیے کیا لائحہ عمل منتخب کرتی ہیں

ایران کے نو منتخب صدر کیلے بڑے مسائل کون سے ہیں؟ الیکشن کے اعصاب شکن مقابلے کے بعد منتخب صدر کو اگست میں عنان اقتدار سنبھالنے کے بعد کئی مشکل چیلنجز کا سامنا کرنا ہو گا۔2018 میں دوبارہ عائد کی جانے والی سخت امریکی پابندیوں کے باعث ایران عالمی معاشی نظام سے کٹ کر رہ گیا اور اسے تیل کی فروخت میں اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا

معاشی مسائل اور امریکی پابندیاں: انتخابی مہم میں شریک تمام امیدواروں نے جن ترجیحات پر اتفاق کیا تھا ان میں ایران پر عائد سخت امریکی پابندیاں سرفہرست ہیں جس کی وجہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا جوہری معاہدے سے انخلا تھا۔

ان پابندیوں کے بعد ایرانی معیشت کو کرونا وبا کے باعث بھی شدید نقصان ہوا ہے۔2015 کے جوہری معاہدے کے بعد ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کی امید کی جا رہی تھی۔ یہ معاہدہ ایران کے اس وعدے پر کیا گیا تھا کہ وہ جوہری ہتھیار تیار نہیں کرے گا۔
ایران ہمیشہ سے اس بات کی تردید کرتا رہا ہے لیکن سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس معاہدے سے یک طرفہ انخلا کے بعد ایران کی امیدوں پر پانی پھر گیا تھا۔جبکہ ٹرمپ نے ایران پر ایک بار پھر سخت پابندیاں عائد کر دیں تھیں جو ان کی 'بھرپور دباؤ' مہم کا حصہ تھا۔ان پابندیوں کے باعث ایران عالمی معاشی نظام سے کٹ کر رہ گیا اور اسے تیل کی فروخت میں اربوں ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑا۔

بین الااقوامی مانیٹری فنڈ کے مطابق 19-2018 میں ایران کی جی ڈی پی میں چھ فیصد سے زائد کمی ہوئی جبکہ گذشتہ سال اس میں کچھ بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔

بے روزگاری میں اضافہ: ایران کے بدترین معاشی حالات کی بدولت ملک میں بیروزگاری میں شدید اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ایران میں بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے اور ایرانی کرنسی کی قیمت بڑی حد تک گر چکی ہے جبکہ مہنگائی میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔آئی ایم ایف نے رواں سال مہنگائی کی شرح 39 فیصد رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔دی انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل اینڈ سٹریٹجک ریلیشنز ان پیرس کے ماہر تھیری کووئیل کا کہنا ہے کہ ’اگر ایران پر عائد پابندیاں ختم کر دی جاتی ہیں تو ہم معاشی صورت حال میں استحکام دیکھیں گے جس سے نمو میں اضافہ اور مہنگائی میں کمی ہو گی۔مہنگای،کساد بازاری،افراط زر میں اضافہ اور برے معاشی حالات میں ایرانی عوام نے صدر رئیسی پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔نئے صدر کو ان عوامی توقعات پر پورا اترنا ہو گا۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ چیزیں فوری طور پر بہتر ہو جائیں گی لیکن ایسا نہ ہوا تو انہیں شدید مایوسی ہو گی

جوہری پروگرام اور خارجہ پالیسی: ایران کا ایٹمی پروگرام اس وقت نہ صرف ایران بلکہ تمام عالمی طاقتوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ایران اور مغرب کے مابین تنازعات میں سب سے بڑا تنازعہ ایران کا ایٹمی پروگرام ہے۔مبصرین کا یہ کہنا ہے کہ اگر ایران کے جوہری پروگرام پر سمجھوتہ ہو جاتا ہے تو بھی اس سے مغربی سرمایہ کار بہت جلد ایرانی مارکیٹ میں واپس نہیں آ سکیں گے۔ ایسا ہونے کے لیے ایران اور امریکہ کے درمیان سفارتی تعلقات معمول پر آنا ضروری ہو گا۔امریکی صدر بائڈن ایران کے ساتھ ایٹمی پروگرام پر بات چیت کے حامی ہیں۔اوباما دور حکومت میں ایران کے امریکہ اور یورپ کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے کے خالق صدر بائڈن تھے۔اس لیے امید کی جاسکتی ہے کہ اس دور حکومت میں ایران امریکہ تعلقات معمول کی طرف لوٹے ہیں گے۔لیکن ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہے کہ ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای امریکہ کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے مخالف ہیں اور وہ کئی دہائیوں سے امریکہ کو ’شیطان بزرگ‘ کا لقب دے کر بلاتے رہے ہیں نئے ایرانی صدر ماضی کی پالیسی سازی میں اہم کردار رہے ہیں اس لیے امید کی جاسکتی ہے کہ ایرانی عوام کے بہتر مستقبل کی خاطر درمیانی راہ نکالی جا سکے گی۔کیونکہ جوہری پروگرام کا براہ راست تعلق ایرانی عوام کے معیار زندگی اور ایرانی معیشت سے ہے۔اہران پر اقتصادی پابندیوں کے باعث وہاں کی معیشت سخت دباؤ میں ہے۔اس لیے ایرانی انتظامیہ کو معاشی حالات میں بہتری کی نئی راہیں تلاش کرنی ہوں گی اور ایسا کرنے کے لیے انہیں امریکی صدر بائیڈن کی انتظامیہ کے ساتھ اپنے اختلافات کی سطح میں ردوبدل کرنا ہو گا۔‘ ابراہیم رئیسی صدارتی مہم کے دوران یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ ایران کے اطراف میں موجود ممالک سے بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں۔ ایران کے چین کے ساتھ بھی دوستانہ تعلقات ہیں۔تاہم بعض مبصرین مصر ہیں کہ رئیسی کی صدارت کے دوران مغرب سے تعلقات میں مزید کشیدگی کا امکان ہے۔

ماحولیاتی بحران: ایرانی میڈیا پر ہونے والی مباحث کے نتیجے میں یہ راے بھی سامنے آئی ہے کہ نومنتخب صدر کے پاس ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے کوء ویژن نہیں جبکہ ماحولیاتی مسائل ایران کی اولین ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔ یہ عدم توجہی آٹھ کروڑ 30 لاکھ آبادی والے ملک لیے ایک خطرہ ثابت ہوسکتی ہے۔ جسے پانی کی کمی، صحرائی علاقے میں اضافے اور شہری آب و ہوا میں آلودگی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ ’ایران میں ماحولیاتی بحران ایک حقیقت ہے لیکن ابھی تک حکومت اس حوالے سے کوئی جامع پالیسی مرتب کرنے کے قابل نہیں ہو سکی۔

ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے تین صدارتی مباحثوں میں ماحولیاتی مسائل پر کوئی بات نہیں کی گئی۔مستقبل میں ’ماحولیاتی مسائل اہمیت کے حامل ہوں گے لیکن ان مسائل کی وجوہات کا تدارک صدر کے دائرہ اختیار میں نہیں۔ماحولیاتی مسائل کے سبب ایران میں ’پانی کے ذخائر کم ہوتے جا رہے ہیں۔‘ وہ اس کی وجہ ’قدرتی وسائل کی تباہی‘ کو قرار دیتے ہیں جو صنعتی اور غیر مستحکم زرعی پالیسیوں کے باعث ہے۔

کرونا کی وبا: ایران کرونا وباسے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کیمطابق اب تک ایران میں 30 لاکھ سے زائد افراد کرونا سے متاثر ہو چکے ہیں جبکہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد 81 ہزار سے زائد ہے۔امریکی پابندیوں کے باعث ایران کو ویکسی نیشن کی مہم چلانے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔پابندیوں میں نرمی کے علاوہ ایران کی تیار کردہ ویکسین کا استعمال بھی اس سلسلے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ایران کی تنہائی اور معاشی مشکلات، 2017 اور 2018 میں ہونے والے مظاہروں کو طاقت کے زور پر دبائے رکھنے کے اثرات بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ ایرانی قوم امریکہ کے ساتھ کشیدگی کے عروج کے دوران جنوری 2020 میں یوکرینی طیارے کو گرائے جانے پر بھی غم زدہ رہی ہے۔ کہ ’مستقبل کی حکومت کو اعتماد کی بحالی کے لیے فوری اقدامات کرنے ہوں گے، جن میں سوشل میڈیا ویب سائٹس جیسے کہ ٹیلی گرام اور ٹوئٹر پر عائد پابندی ختم کرنا اور خواتین پر پردے کے لیے عائد سخت شرائط میں نرمی لانا شامل ہو گا۔‘

خلاصہ کلام۔ ایران میں قیادت کی تبدیلی ایک ایسے مرحلہ پر ای ہے جب پورے خطے میں ہیجان کی کیفیت ہے۔افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا اور اسکے بعد کی غیر یقینی صورتحال سے تمام ممالک خائف ہیں۔پاکستان اور ایران افغانستان کے حالات سے براہ راست متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہیں دوسری طرف چین کے بڑھتے ہوے اثرورسوخ سے مغرب پریشان ہے۔چین نے پاکستان اور بھارت کے ساتھ ساتھ ایران میں بھی بھاری سرمایہ کاری کا عندیہ دیا ہے۔جبکہ بھارت پاکستان کے اندرونی معاملات خصوصاً بلوچستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش میں مسلسل مصروف عمل یے۔اور ماضی میں بھارت اور ایران بلوچستان کے حوالے سے ایک پیج پر بھی رہے ہیں۔ان پیچیدہ حالات میں ایرانی صدر کے اقدامات سے پورا خطہ متاثر ہوسکتا ہے۔امید کی جانی چاہیے کہ نء ایرانی قیادت نہ صرف ایرانی عوام کی بہتری کیلے کام کرے گی بلکہ خطے کے تمام میں عدم مداخلت کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہیں کسی بھی ملک کے خلاف آلہ کار نہیں بنے گی۔
 

Pir Farooq Bahaul Haq Shah
About the Author: Pir Farooq Bahaul Haq Shah Read More Articles by Pir Farooq Bahaul Haq Shah: 26 Articles with 19936 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.