سیاست کے گُر ہی نہیں اخلاق بھی سیکھیں

بجٹ ملک کی اہم ترین دستاویزات میں سے ایک ہے۔ اس کے ذریعے حکومت کے معاشی اہداف کا تعین کیا جاتا ہے، اور پورے سال کے لیے منصوبے تشکیل دیے اور پیش کیے جاتے ہیں۔ بجٹ کا آنا ایک ایسا موقع ہوتا ہے جب عوام، تاجروصنعت کار، زراعت پیشہ افراد، سرکاری ملازمین غرض یہ کہ سب جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے لیے اس میزانیے میں کیا ہے، اور جو ہے وہ کس حد تک فائدہ مند یا نقصان دہ ہے۔ لیکن اس موقع پر ہمارے ملک میں جو کچھ ہوتا ہے اس کے بعد لوگوں کی توجہ نہ بجٹ کے اعدادوشمار اور منصوبوں پر مرکوز رہتی ہے نہ حکومت کے وعدوں اور دعوؤں اور منافع اور خسارے پر، ان کی توجہ کا مرکز بجٹ پیش کیے جانے کے موقع پر قومی اسمبلی میں ہونے والا شورشرابا، ہلڑبازی اور دشنام طرازی پر مرکوز ہوکر رہ جاتی ہے۔ یہ ہمارے ملک میں جاری سیاہ روایتوں میں سے ایک روایت ہے، یہ روایت جوں کی توں جاری رہتی تب بھی ٹھیک تھا، لیکن اس بار تو معاملہ حد سے بڑھ گیا۔

ہر سال بجٹ اجلاس میں حزب اختلاف اتنا شور کرتی ہے کہ بجٹ تقریر کی آواز اس شور میں دب کر رہ جاتی ہے۔ ہماری سیاست میں رائج بہت سی غلیظ رسموں اور گندے رواجوں کی طرح یہ سب بھی اب ہماری سیاسی اور پارلیمانی روایت کا حصہ بن گیا ہے، ایک نہایت شرمناک اور افسوسناک حصہ، لیکن منگل پندرہ جون کو حزب اقتدار کے ارکان بدتہذیبی، بدتمیزی، بے ہودگی اور اوچھے پن میں حزب اختلاف سے بازی لے گئے اور اپنے ماضی کے مقابلے میں انہوں نے ایک نئی تاریخ رقم کردی۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ حزب اختلاف کے ارکان نے تہذیب اور شائستگی کا مظاہرہ کیا، انھوں نے بھی حتی المقدور غیرشائستہ اور نامعقول رویوں کا کُھل کر اظہار کیا۔

اس اجلاس میں کیا کچھ ہوا، یاددہانی کے لیے اس خبر پر نظر ڈالتے ہیں،”قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی تقریر کے دوران حکومتی اراکین کے شدید شور شرابے اور نعرے بازی کے بعد اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔

منگل کو قومی اسمبلی میں شہباز شریف کی تقریر کے دوران وفاقی وزراء سمیت پی ٹی آئی کے ارکان سیٹیاں اور ڈیسک پر بجٹ کتاب بجانے میں مصروف رہے۔ اس موقع پر شہباز شریف نے کہا کہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اپوزیشن لیڈر بات کرے تو اس میں خلل ڈالا جائے۔ اجلاس کی کارروائی ملتوی ہونے کے بعد ایوان میں حکومتی اور اپوزیشن اراکین میں جھڑپ بھی ہوئی۔ پی ٹی آئی کے اسلام آباد سے رکن قومی اسمبلی اور وزیراعظم کے معاون خصوصی علی نواز اعوان نے مسلم لیگ کے رکن شیخ روحیل اصغر کو کتاب دے ماری۔ اس دوران حکومتی اور اپوزیشن ارکان آپس میں گتھم گتھا ہو گئے اور ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی کی۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیر اطلاعات فواد چوہدری سمیت وفاقی وزراء بھی اپنی نشستوں پر کھڑے ہو گئے اور نعرے بازی کی۔ اسپیکر نے ارکان اسمبلی کو ویڈیوز بنانے سے روک دیا۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی تقریر کے دوران مسلم لیگ ن کے ارکان نے انہیں گھیرے رکھا جبکہ حکومتی ارکان ان کے خطاب میں مسلسل خلل ڈالتے رہے۔ ہنگامہ آرائی کے دوران قومی اسمبلی کے سارجنٹس ارکان میں بیچ بچاؤ کراتے رہے۔ اس دوران بجٹ دستاویزات لگنے سے ایک سارجنٹ زخمی بھی ہوگئے۔

ایوان میں جب مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے ارکان ایک دوسرے کو بجٹ کی کاپیاں مار رہے تھے تو اس دوران پارلیمانی سیکرٹری قانون و انصاف ملیکہ بخاری کی آنکھ زخمی ہو گئی۔ پی ٹی آئی کے رکن فہیم خان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ کے ارکان کی جانب سے بجٹ دستاویزات پھینکنے سے ان کی انگلی زخمی ہوگئی۔ قومی اسمبلی میں شور شرابے میں تقریر کرنے کے بعد شہباز شریف نے ٹوئٹر پر اپنا بیان جاری کیا۔ بیان میں حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ آج پوری قوم نے ٹی وی سکرینز پر دیکھا کہ کس طرح حکمران جماعت ایوان میں غنڈہ گردی اور گالم گلوچ کا مظاہرہ کیا۔ اسپیکر اسد قیصر اس موقع پر بار بار حکومت اور اپوزیشن کے ارکان کو خاموش ہونے اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے کی ہدایات کرتے رہے۔ دوسری طرف وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ ایوان میں لڑائی مسلم لیگ ن کے رکن علی گوہر بلوچ کے ان نعروں سے شروع ہوئی۔ فواد چوہدری کے مطابق ن لیگ کے ارکان نے تمام پارلیمانی اقدار کو بالائے طاق رکھ کر ننگی گالیاں دیں۔ اس پر پی ٹی آئی کے نوجوان ارکان جذباتی ہو گئے اور پھر بجٹ کی کتابیں پھینکنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔“

اور تو اور ایک وڈیو میں انسانی حقوق کی وفاقی وزیر بھی کالج کی کسی شریر طالبہ کی طرح ”چور چور“ کے نعرے لگاتی دکھائی دے رہی ہیں۔ صحافت جیسے سنجیدہ اور باوقار پیشے سے وابستہ رہنے والی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون شیریں مزاری کا یہ انداز ہر ایسے شخص کے لیے قابل افسوس اور حیرت انگیز تھا جو علم کو بردباری، رکھ رکھاؤ اور تہذیب سکھانے کا ذریعہ سمجھتا ہے۔

اپنے کسی بھی قابل عمل طرزعمل پر شرمندہ ہونے، معذرت کرنے اور اس عمل کی آئندہ تکرار نہ ہونے کا عزم ظاہر کرنے کے بجائے اس کے بھونڈے جواز پیش کرتے ہیں، جو فارسی محاورے کے مطابق اس گناہ سے بھی بدتر ہوتے ہیں جو ان سے سرزد ہوا ہے۔ یہی کچھ مسلم لیگ ن کے راہ نما روحیل اصغر نے کیا۔ انھوں نے اپنی گالیوں کا جواز پیش کرتے ہوئے فرمایا ”بندہ غصے میں گالی دے دیتا ہے“ اس کا جواب تو یہی ہوسکتا ہے کہ جسے اتنا غصہ آتا ہے کہ وہ نہ یہ دیکھے کہ وہ اس قومی اسمبلی میں موجود ہے جس کے تقدس کے وہ دعوے کرتا ہے نہ یہ سوچ سکے کہ اسے کروڑوں لوگ یہ عمل کرتے دیکھ رہے ہیں جن میں بزرگ، خواتین، بچے اور خود اس کے اہل خانہ بھی شامل ہیں، تو ایسے شخص کو نہ سیاست میں آنا چاہیے نہ اسمبلی میں۔ روحیل اصغر صاحب اسی پر نہیں رکے، بلکہ اپنے عمل کو درست قرار دینے کی دُھن انھوں نے پورے پنجاب کے منہ پر بھی یہ کہہ کر کالک ملنے کی کوشش کی کہ ”گالی پنجاب کا کلچر ہے۔“ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے لیے کہے گئے ان کے اس فقرے ہر پاکستانی کو دکھ پہنچا ہے۔ جس پنجاب نے بھلے شاہ، بابا فرید، علامہ اقبال اور فیض احمد فیض جیسے انسانی فکروتہذیب کو پروان چڑھانے اور انسانوں کو اعلیٰ اقدار اور رویوں کی طرف بلانے والی عظیم شخصیات کو جنم دیا ہو، اس کا کلچر گالی کیسے ہوسکتی ہے۔

سیاست دانوں کی بدتہذیبی، گالی گلوچ اور مارپیٹ کے واقعات قومی اسمبلی تک محدود نہیں، بلکہ یہ اپنی بداخلاقی کے مظاہرے کسی بھی مقام پر کرجاتے ہیں۔ فواد چوہدری صاحب کے ایک صحافی کو شادی کی تقریب میں تھپڑ مارنے کا واقعہ کسے یاد نہ ہوگا۔ پھر حال ہی میں ایک ٹی وی ٹاک شو میں قادرومندوخیل اور فردوس عاشق اعوان کے مابین جو کچھ ہوا اس کا نظارہ ہم سب نے کیا، اور یہ سارے نظارے اپنے پیچھے یہ سوال چھوڑ گئے کہ سیاست کے سارے گُر اور حربے سیکھ لینے والے تھوڑی سے تمیز اور ذرا سی تہذیب سیکھنے سے کیوں محروم رہ گئے۔

ہم اپنے سیاست دانوں اور منتخب ارکان سے بس اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ وہ عوام کو کچھ نہیں دے سکتے تو نہ دیں، کم ازکم ہماری نئی نسل کو یہ تربیت تو نہ دیں کہ جنگ اور محبت کی طرح غصے میں بھی سب جائز ہے۔
 

Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 311621 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.