امریکہ ہر سال چار جولائی کو یوم آزادی کی تقریبات مناتا
ہے، رواں سال بھی چند دن بعد یہ دن پورے جوش و خروش سے منایا جا رہا ہے۔
امریکی صدر جوبائیڈن مرکزی تقریب کے صدر ہوں گے۔ توقع یہ کی جارہی ہے کہ
امریکی صدر جوبائیڈن اس دن اپنی قوم کو یہ خوشخبری سنائیں گے کہ امریکی
افواج کا افغانستان سے انخلا مکمل ہو چکا ہے۔ بظاہر امریکہ اسے اپنی
کامیابی تصور کر رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ افغانستان سے یہ خبریں مسلسل
آرہی ہیں کہ افغانستان کے اکثر اضلاع پر طالبان دوبارہ اپنا اقتدار مستحکم
کر رہے ہیں۔ افغان جنگوؤں کی بڑے شہروں میں آمد سے افغان فوجیوں کی پسپائی
کا عمل بھی جاری ہے۔ امریکی اخبار نیویارک کے مطابق گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے
دوران افغان طالبان نے دس سے زائد اضلاع پر قبضہ کر لیا ہے جبکہ دیگر مختلف
ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ طالبان نے 48گھنٹوں میں تیس سے زائد اضلاع پر قبضہ
کر لیا ہے اس دوران وہاں سے افغان فورسز نے اسلحہ اور گاڑیاں طالبان کے
حوالہ کرکے وہاں سے جانے میں ہی عافیت جانی ہے۔ چند دنوں میں بیس فیصد سے
زائد افغانستان پر طالبان نے قبضہ کیا ہے۔طالبان جس سمت جاتے ہیں افغان
فورسز کے اہلکار ہتھیار ان کے حوالے کرتے جارہے ہیں صرف یہی نہیں بلکہ بہت
سے لوگ دوستانہ انداز میں طالبان کو خوش آمدید کہتے نظر آرہے ہیں۔ گزشتہ
چند دنوں میں ایک سو سے زائد بیس کیمپ، اسلحہ ڈپو اور 183امریکی گاڑیوں پر
طالبان قبضۃ کر چکے ہیں۔ اسی طرح تاجکستان کی سرحد سے منسلک تخار صوبے میں
افغان فورسز کا اہم بیس کیمپ ”علی خانم“ بھی طالبان کے قبضے میں جا چکا ہے۔
طالبان کی ان پیش قدمیوں کا اس قدر چرچا ہے کہ افغان سرکاری میڈیا بھی
انہیں نشر کر رہا ہے۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ یکم مئی سے
اب تک پچاس سے زائد اضلاع پر طالبان کا قبضہ مکمل ہو چکا ہے۔طالبان کا
اثرورسوخ جنوبی علاقوں سے شروع ہو کر شمالی علاقوں میں بھی پھیل رہا ہے۔
اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا توچار جولائی کو جونہی امریکی افواج کا
انخلاء مکمل ہوتا ہے طالبان کابل کی طرف چڑھائی کریں گے اور کابل کی فتح کے
ساتھ ہی طالبان کی واپسی کا عمل مکمل ہو جائے گا افغان حکومت کے لیے بھی
یہی دن ان کا آخری دن ثابت ہوگا۔ طالبان کے مختلف اضلاع پر قبضوں کے دوران
دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ وہاں کے گورنر اور مقامی اراکین پارلیمنٹ بھی خود
کو طالبان کے سامنے پیش کررہے ہیں اور ان کی اطاعت قبول کررہے ہیں۔
شورش زدہ ملک افغانستان میں غیر ملکی افواج کے انخلاء اور طالبان کے بڑھتے
قدموں سے ایک بار تشویش بڑھتی جارہی ہے کہ آخر اس ملک کا مستقبل کیا ہے؟
اگر طالبان کا قبضہ کابل تک مکمل ہو جاتا ہے تو موجودہ حکومت کا مقام کیا
ہو گا۔ کیا پھر سے افغان قوم کو ایک نئی خانہ جنگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
انہی جیسے کئی سوالات امن پسند قوتوں کے ساتھ ساتھ افغانستان کے ہمسایہ
ممالک کو بالعموم اور پاکستان کو بالخصوص پریشان کر رہے ہیں۔عمومی طور پر
دنیا میں یہی بیانیہ چل رہا ہے کہ طالبان پاکستان کی حمایت سے ہی افغانستان
پر اپنا قبضہ مکمل کر رہے ہیں اور طالبان کو ہمیشہ سے پاکستان کی حمایت رہی
ہے۔ ماضی میں شاید یہی وجہ رہی ہے کہ پاکستان کو افغان امن عمل سے باہر
نکالنے کی عالمی کوششیں ہوتی رہی ہیں امریکہ اور بھارت اس سلسلہ میں اپنی
پوری طاقت لگا چکے ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ شاید امریکہ یہ بات سمجھ گیا
کہ افغانستان کا ہمسایہ ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جس نے
افغان روس اور امریکہ افغان دونوں جنگوں میں فرنٹ لائن سٹیٹ کا کردار ادا
کیا ہے۔ بیس سال کی امریکہ افغان جنگ میں بھی پاکستان کے کردار کو منفی
کرنا ممکن نہیں۔ بھارت نے افغانستان پاکستان کے کردار کو منفی کرنے کے لیے
بھاری سرمایہ کاری کی حتیٰ کہ طالبان کے خاتمہ کے بعد شمالی اتحاد کے ساتھ
مل کر بہت سے قونصلیٹ بھی پاک افغان سرحد پر بنا لیے جن کے ذریعے پاکستان
میں ہونے والی دہشت گردی کی مددکی جاتی۔ لیکن بیس سال بعد افغانستان سے
امریکہ کا انخلاء مکمل ہورہا ہے جبکہ بھارت کی سرمایہ کاری بھی ڈوب چکی
ہے۔بھارت اب اس تلخ حقیقت کا سامنا کرنے پر مجبور ہے کہ پاکستان کے کردار
کو کسی صورت منفی کرنا ممکن نہیں ہے۔ پاکستان ہی وہ واحد ملک ہیں جہاں
افغانستان پر روس کے قبضہ کے ساتھ کئی ملین افغانی مہاجرین کو پناہ ملی اور
اب بھی پاکستان میں چار ملین سے زائد افغانی پناہ گزین موجود ہیں۔ شاید یہی
وجہ ہے کہ پاکستان اس بات کا سب سے بڑا حامی ہے کہ افغان مسئلہ کو سیاسی
طور پر حل کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ بات یقینی ہے کہ اگر دوبارہ کسی قسم کی
خانہ جنگی کا سلسلہ شروع ہوا تو پھر لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین کی
پاکستان میں ہی آمد ہوگی اور پاکستان جو پہلے ہی معاشی بحران کا سامنا
کررہا ہے ایسی صورتحال کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس خانہ
جنگی کے برے اثرات پاکستان پر بھی پڑے گا کیونکہ مختلف افغان دھڑوں کے حامی
پاکستان میں بھی بڑی تعداد میں رہائش پذیر ہیں۔ پاکستان ایک عرصہ تک افغان
سرحد پر دہشت گردوں کے حملوں کا نشانہ رہا ہے اور اب طویل ترین سرحد پر باڑ
کی تنصیب کے ساتھ ان حملوں میں خاصی کمی آئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اس
مسئلہ کا سیاسی حل چاہتا ہے اور بڑا واضح پیغام دے چکا ہے کہ مستحکم اور
پرامن افغانستان ہی پاکستان سمیت پورے خطے کی ضرورت ہے۔
افغان حکومت کے سربراہ اشرف غنی اور قومی مفاہمت کی اعلی کونسل کے سربراہ
عبداللہ عبداللہ رواں ماہ کے آخر میں آخر میں امریکہ کو دورہ کررہے ہیں۔ اس
دورے میں بھی یقینا افغانستان میں امن عمل کے حوالہ سے ہی گفتگو کی جائے
گی۔ اس موقع پر دونوں ممالک کو بالخصوص اور افغان رہنماؤں کو بالخصوص اپنی
قوم کے مستقبل اور ایک پرامن افغانستان کے لیے ان اقدامات پر راضی ہونا
ہوگا جس سے حکومت کی منتقلی اور طالبان کی واپسی کو پرامن طریقے سے قبول
کیا جاسکے۔یہ بات واضح ہے کہ امریکہ افغانستان میں مزید قیام برداشت کرنے
کے قابل نہیں رہا، اس کی طالبان اور افغانستان پر نظر رکھنے کے لیے قریبی
ہمسایہ ملک میں کسی فضائی اڈے کی خواہش بھی پوری ہوتی نظر نہیں آرہی ایسی
صورت میں موجود افغان حکومت پر سب سے بڑی ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ وہ ماضی
کے اختلافات کو بھلا کر قوم اور ملک کے مستقبل کے لیے اپنے موقف کو نرم کرے
اور طالبان کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے سیاسی طورپر اقتدار کی منتقلی کو
ممکن بنائے ورنہ دوبارہ سے ہونے والی خانہ جنگی میں افغان فورسز شاید اس
حکومت کاساتھ زیادہ دیر تک نہ دے پائے اور ایک بار پھر یہ خطہ جنگ کے نتیجہ
میں ہونے والے خطرات کا سامنا کرنے پر مجبور ہوجائے۔
|