مہذب سماج اور یواے پی اے جیسے ظالمانہ قوانین

آصف اقبال ، نتاشا نروال اور دیوانگنا کلیتا سے ایک سال قبل اسی معاملے میں گرفتار صفورہ زرگر کو بھی ضمانت مل چکی ہے لیکن ذرائع ابلاغ میں اس پر کوئی خاص بحث نہیں ہوئی اور صفورہ زرگر کو اس قدرمقبولیت بھی حاصل نہیں ہوئی ۔ اس کی وجہ ان دونوں رہائیوں کے پس پشت عوامل اور فیصلے کے درمیان موجود وا ضح فرق ہے ۔ صفورہ کی ضمانت کو چونکہ ایک سال گزر چکا ہے اس لیے اس کی یاددہانی ضروری معلوم ہوتی ہے۔ صفورہ بھی آصف کی مانند جامعہ کی طالبہ اور وہ سی اے اے و این آر سی کی تحریک میں پیش پیش تھی۔ 10 ؍ اپریل کو انہیں گرفتار کیا گیا اور 24؍جون 2020کو وہ ضمانت پر رہا ہوئیں ۔ آصف، ویوانگنا اور نتاشا کو مزید ایک سال انتظار کرنا پڑا نیز ان کے ساتھ گرفتار ہونے والے جامعہ کے طلبا میران حیدر اور شفاء الرحمٰن ہنوز جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں ۔ پولس نے دہلی میں فساد برپا کرکے حکومت کا تختہ الٹنے کے الزام میں مذکورہ 6 لوگوں کے علاوہ گلفشاں فاطمہ، طاہر حسین، عشرت جہاں ، خالد سیفی اور عمر خالد کے خلاف فردِ جرم داخل کر رکھی ہے اور ان کے ساتھ گرفتار کیے جانے والے دیگر سیکڑوں لوگوں کو کب رہائی نصیب ہوگی یہ کوئی نہیں جانتا۔
 
صفورہ زرگر کی پولس حراست 13؍ اپریل 2020 کو ختم ہوئی اور انہیں ضمانت مل گئی لیکن ان پر یو اے پی اے لگا کر دوبارہ گرفتار کرلیا گیا۔ 4 ؍جون صفورہ کی چوتھی درخواستِ ضمانت مسترد ہوئی اور اس فیصلے کو17؍ جون کے دن ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا ۔ اگلے دن جسٹس راجیو شکدر نے پولس کو جواب داخل کرنے کا حکم دیا۔ اس کی تعمیل میں 22؍ جون کو پولس نے صفورہ پر سخت الزامات کا اعادہ کیا اور عدالت کو اس سنگین معاملے میں مداخلت سے منع کیا یعنی ضمانت کی مخالفت کی لیکن دوسرے دن ایک چمتکار ہوگیا۔ پولس کی جانب سے اچانک سولیسیٹر جنرل تشار مہتا وارد ہوگئے اور انہوں نے عدالت سے کہا کہ پولس انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ضمانت دینے پر راضی ہے۔ اس کے بعد مختلف پابندیوں کے ساتھ صفورہ رہا ہوکر گھر آگئیں ۔اس ضمانت سے دوسروں کا استفادہ ناممکن تھا کیونکہ مرد اپنی جنس کے سبب اوردیگر محصور خواتین حاملہ نہیں ہونے کی وجہ سے اس کی مستحق نہیں تھیں۔

اس وقت یہ سوال پیدا ہوا تھا کہ اچانک راتوں رات پولس یعنی سرکار کا من پریورتن کیسے ہوگیا؟ صفورہ کی بابت 13؍ اپریل کو اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کونسل کے ورکنگ گروپ نے احتجاج کیا تھا لیکن اس کو نظر انداز کردیا گیا اس کے باوجود اس ظالمانہ اقدام کے خلاف رائے عامہ کی ہمواری کا کام جاری رہا۔ جون میں اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کونسل کی جانب سے ان گیارہ جہد کاروں کی رہائی کے مطالبے کی بھنک حکومت کو لگ گئی ۔ عالمی سطح پر اپنی بدنامی سے بچنے کی خاطر حکومت صفورہ زرگر کو رہا کردیا۔ اس طرح 27؍ جون کو رپورٹ کے منظر عام پر آنے سے پہلے رہائی عمل میں آگئی۔ اقوام متحدہ کے علاوہ حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں ، فلمی ہستیاں ، دیگر دانشور، یوروپی پارلیمان کی رکن ماریا ارینا، امریکی بار ایسو سی ایشین ، ایمنسٹی انٹر نیشنل اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی کئی تنظیمیں رہائی کا مطالبہ کرچکی تھیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے عوامی سطح پر کی جانے والی کوششوں کا سرکار اور عدلیہ کا دباو پڑتا ہے۔ اس لیے زیر حراست میران حیدر اور گلفشاں فاطمہ جیسے طلبا اور طاہر حسین ، خالد سیفی، شفاء الرحمٰن اور شرجیل امام کی رہائی کے لیے اس طرح کی کوششیں جاری رہنی چاہئیں ۔ان کے علاوہ دیگر گرفتار شدہ بے قصور وں کی رہائی کا راستہ بھی اسی طرح کھلے گا۔

صفورہ زرگر کی رہائی کے حکمنامہ اور آصف، نتاشا و دیوانگنا کی ضمانت کا موازنہ کیا جائے تو سب سے بڑا فرق یہ دکھائی دیتا ہے کہ موخر الذکر معاملے میں کوئی احسان اور ہمدردی کاپہلو نہیں ہے بلکہ ضمانت کو ان کاحق تسلیم کرکے ادائیگی کی گئی ہے۔ اس لیے سپریم کو رٹ عجیب و غریب مخمصے میں گرفتار ہوگیا اور اس نے کہا، کہ دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کو دوسرے معاملات میں راحت کے لئے نظیر کے طور پر استعمال نہیں کیا جائے گا تاہم ضمانت میں دخل اندازی نہیں ہوگی ۔ یہ دراصل عوامی دباو ہی تھا کہ ضمانت کی مخالفت کرنے والے سالیسٹر جنرل نےجہاں اس حکم پر روک لگانے کے لیے یہ کہا کہ ہائی کورٹ کےاس فیصلے سے ملک میںیو پی اے کے تمام معاملے متاثر ہوں گےوہیں اب تینوں کو باہر رکھنے کی بھی وکالت کی ۔ پولس تو پتہ جانچنے کے بہانے سے رہائی کو ٹال رہی تھی تاکہ سپریم کورٹ میں اس پر روک لگوا کر رہائی سے محروم کیا جائے لیکن اچانک عوام کے دباو میں آگئی۔

کسانوں کی اتنی بڑی تحریک کو اپنی ہٹ دھرمی سے نظر انداز کرنے والی سرکار کا اس طرح دباو میں آجانا ایک غیر معمولی عمل ہے اور اس کا میابی پر رائے عامہ کو ہموار کرنے والی تنظیمیں مثلاً یونائیٹیڈ اگینسٹ ہیٹ اور دیگر دانشور مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ہائی کورٹ کے فیصلے کی اثر پذیری کا اندازہ سالیسٹر جنرل کے اعتراف میں ہے جو انہوں کیا کہ اس نے تو یو اے پی اے کو ایک طرح سے غیر آئینی قرار دے دیا ہے۔ ہائی کورٹ جسٹس سدھارتھ مردل اور جسٹس انوپ جے بھمبانی کی بنچ کا مشاہدہ کہ بادی النظرمیں یو اے پی اے کی دفعہ 15، 17 یا 18 کے تحت کوئی بھی جرم موجودہ معاملہ میں ریکارڈ کئے گئے مواد کی بنیاد پران تینوں کے خلاف عائد نہیں ہوتااگردرست ہے تو اس کے اظہار میں تامل کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے۔ معروف وکیل کپل سبل نے جب عدالت عظمیٰ میں کہا کہ وہ اس اہم مسئلہ پر سماعت سے متفق ہیں لیکنیہ ضمانت کا معاملہ ہے۔ اس پر سپریم کورٹ کا سوال تھا کہ ایسے کون سے ضمانت کے معاملے ہیں جن میں ہائی کورٹ نے 100 صفحات سے زیادہ کا فیصلہ دیا ہو۔ اسی فرق نے سرکار کی چولیں ہلادی ہیں۔

دہلی ہائی کورٹ نے عوام کے حق اختلاف و احتجاج پر جو اہم بحث کی ہے نیز یواے پی اے کی ضرورت اور اہمیت کو بیان کرنے کے بعد اس کے بیجا استعمال پر جو گرفت کی ہے وہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔ اس کے لیے زیادہ صفحات کااستعمال مستحسن ہے ۔ سپریم کورٹ کو چاہیے کہ اس طرح کے تاریخی فیصلوں کی طوالت سے پریشان ہونے کے بجائے کئی ہزار صفحات پر مشتمل فردِ جرم پر اعتراض کرے ۔ یہ عام بات ہوگئی ہے کہ پولس ایک طول طویل خیالی داستان گھڑ کر بے قصور کے جیل میں ٹھونس دیتی ہے اور برسوں تک جیل صعوبت برداشت کر کے بعد وہ باعزت بری ہوجاتے ہیں ۔ اس کی مثالیں آئے دن سامنے آتی رہتی ہیں جس میں بے قصورلوگوں کی پوری جوانی جیل کے پیچھے گزر جاتی ہے۔ ان سچے واقعات پر مشتمل ڈاکٹر علیم اللہ خان اور معروف صحافی منیشا بھلا نے ’باعزت بری ‘ نام کی کتاب بھی لکھی ۔

ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے نے انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف جدوجہد کرنے والوں جہد کاروں کا حوصلہ بلند کیا ہے۔ ذرائع ابلاغ میں موجود وہ تمام لوگ جو اس مسئلہ پر فکر مند تھے انہیں اپنے زور قلم سے اس اہم پہلو کی جانب توجہ مبذول کرانے کا موقع ملا ہے اور یہی وجہ ہے تقریباً تمام ہی قومی اخبارات نے اسے اپنے صفحات پر اسے مثبت انداز میں جگہ دی اور اس کی تائید میں اداریہ لکھا۔ گودی میڈیا کہلانے والے ٹیلیوژن چینلس نے اسے اچھے انداز میں کوور کیا۔ این ڈی ٹی وی، ٹائمز ناو، دی وائر ، ستیہ اور کاروان جیسے معروف چینلس نے آصف اقبال ، نتاشا نروال اور دیوانگنا کلیتا کے انٹرویوز کو اپنے پرائم ٹائم میں شامل کیا ۔ اس سے بظاہر مایوس کن ماحول میں امید کا چراغ روشن ہوا ہے۔ اس لیے اول تو یواےپی اے جیسے ظالمانہ قوانین کا بے دریغ استعمال کرنے والوں کو اس کی قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔ یہ قوانین بظاہر قومی تحفظ کی خاطر وضع کیے جاتے ہیں لیکن اس کا استعمال اکثر وبیشتر حکومت اپنے مخالفین کا گلا گھونٹنے کی خاطر کرتی ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنےکاوقت آگیاہے کہ کسی بھی مہذب سماج میں ایسے قوانین کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449265 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.