امریکی خوفناک چہرہ

کوئی امریکاسے پوچھے کہ سات سمندرپارسے ہزاروں میل کی مسافت طے کرکے کبھی مشرق وسطی کبھی خلیج کی ریاستوں کبھی جنوبی ایشیااور سینٹرل ایشیامیں لاؤ لشکراورساز شیں لیکر کیوں نازل ہوتاہے۔اس کاجواب یہ ہے کہ یہ موت فروخت کرنے اورزندگی خریدنے آتاہے۔اس خواہش میں مہم جوئی توسیع پسندی مجرمانہ کاروبارطاقت کا بیجااستعمال اور مذہبی جنونیت کا عنصر بھی شامل ہے اگرامریکاکوانسان اورانسانیت امن وآشتی سے الفت ہوتی،اگراسے غربت جہالت مفلسی بیماری سے نفرت ہوتی تویہ دنیاجنت کانظارہ پیش کررہی ہوتی۔ان مقاصدکوپانے کیلئے جنگ وجدال،آگ وخون کے سمندرسے دنیاکونہیں گزرناپڑتا،نہ گولہ بارودکی ضرورت ہوتی بس صرف جیواورجینے دو،انسان اورانسانیت کے اعلی اصولوں کی پاسداری طاقتوراورکمزورکابرابری کی بنیادپراحترام بلاامتیازرنگ ونسل ومذہب، باہمی احترام کسی قوم کی آزادی اس کی سرحدوں کے تقدس کوتسلیم کرنابنیادی شرائط ہیں اوایک اہم پہلویہ بھی ہے کہ کسی کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنابہت ضروری ہے مگرموت کاسوداگراورزندگی کا خریدارنام نہادامن وآشتی کے دعویدارہے جس نے اپنے ملک کے چاروں طرف طویل اوردیوقامت حفاظتی دیواریں اورفصیلیں بنا رکھی ہیں،اس میں بسنے والے انسان بھی نظرآتے ہیں اورانسانیت سے بھی واقف ہیں،آزاد بھی ہیں اورگولہ بارودکے زہرسے محفوظ بھی۔ غریب بھوک وافلاس وبیماری کے مارے کمزورناتواں انسان اور ممالک بچارے کیاان کی سرحدوں میں دراندازی کر سکیں گے۔یہ ملکہ توان شکارکی تلاش میں محوپروازعقابوں کوحاصل ہے جو جہاں چاہیں حملہ آورہوجائیں اورانسان اورانسانیت کے جسم سے بوٹی بوٹی نوچ لیں۔

خونی عقابوں کاٹولہ جوننگے بھوکے انسانوں کی لاش کوگولہ بارودمیں بھون کرنوچنے والے دہشتگردعقاب اپنے ہی ہاتھوں ستائے ہوئے انسانوں میں دہشتگردتلاش کرکے شکارکرنے پرآمادہ اوربضدہیں۔ان دہشتگردعقابوں کے اپنے بھی کوئی اصول نہیں ہیں اور شکارکی تلاش میں کبھی خودبھی دست وگریباں ہوتے رہے ہیں ۔1950میں برطانیہ فرانس اور امریکا نے ایک سہ فریقی معاہدہ کیا تھاجس کے تحت مشرق وسطی کی تمام سرحدوں کی سلامتی کی ضمانت اس شرط پردی گئی تھی کہ کوئی فریق جارحیت کا ارتکاب نہیں کرے گامگرحرص و ہوس کے مارے مغرب کو کہاں قرار۔6سال ہی اس معاہدے کوگزرے تھے کہ برطانیہ اورفرانس نے نہرسویزپرحملہ کردیا،یہ ایک الگ داستان ہے۔سردست امریکااوراس کے موجودہ اتحادیوں کے تین بنیادی مفادات زیرِقلم ہیں۔ پہلامفادیہ ہے کہ خلیج کے ممالک سے جہاں سے دنیاکی سا ٹھ فیصدتیل کی ضرورت پوری ہوتی ہے ان کے وسائل پرقبضہ کرکے اس علاقہ میں ان کی اجارہ داری قائم ہو۔(اس دوڑمیں سوویت یونین بھی شامل رہاہے)امریکی پالیسی کے تحت امریکااسرائیل کی سلامتی کی ضمانت فراہم کرنے کے علاوہ اس کی آزادی اوروجودکواس قدرمضبوط کرناچاہتاہے کہ اسرائیل کے خوف سے عرب ممالک پریشان اوردبے رہیں اوراس کی آڑمیں امریکی پالیسوں کوعربوں پرمسلط کیاجاتا رہے ،جبکہ دوسری حکمت عملی یہ ہے کہ بعض عرب ریاستیں جن میں سعودی عرب،مصر،اردن اورخلیج کی دیگربادشاہت اورحاکمیت پرمشتمل ریاستوں کے اقدارکے تحفظ اوراسرائیلی خوف سے نجات دلانے کی یقین دہانی پرنام نہاددوستی کے نام پرامریکانے ان کی معیشت اقتصادیات اوردفاعی شعبوں پراپنی اجارہ داری قائم کرلی ہے، سلامتی کے خوف میں مبتلا سعودی عرب سمیت دیگرخلیجی ریاستوں میں امریکی فوجیں موجود ہیں۔ایک طرف امریکی فوجوں اورساماں حرب کے اخراجات ان ممالک کو برداشت کرنے پڑرہے ہیں تودوسری طرف امریکی فوجوں کی ان ریاستوں میں موجودگی اسرائیل کیلئے تحفظ اور سلامتی کا باعث ہیں۔

ایران میں انقلاب کے بعدامریکااپنے ایک معتمد سے محروم ہوگیا۔اس تبدیلی کے باعث امریکانے سریع الحرکت فوج تیارکی جس کامقصدخلیج اورساری دنیامیں اپنے مفادات کا تحفظ بذریعہ طاقت کرناتھا۔عراق،شام،لبنان امریکی تسلط سے آزادمگرسوویت یونین کے زیراثرتھے۔ایران کو کھونے کے بعدامریکا نے عراق کواپنے حصارمیں لے لیاچونکہ ایران عراق میں سرحدی ودیگر ایشوزپر شدیداوردیرینہ اختلافات اورتنازعات تھے ،امریکااس کافائدہ اٹھاکرایران کے انقلاب کو ناکام بنانے کیلئے دونوں میں تصادم کراناچاہتا تھا اوراسے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل ہوئی۔8سالہ عراق ایران جنگ نے دونوں ملکوں کوشدیدجانی ومالی نقصانات سے دوچار کیاجبکہ اسلحہ ساز فیکٹریاں رکھنے والے امریکا سمیت دیگرممالک نے ان دونوں ممالک کو83بلین ڈالرکااسلحہ فروخت کیا۔

ایران کوبھی سرحدی تنازعات اوردیگردعوں کی تکمیل کی صورت صدامی اقتدارکے خاتمے میں نظرآئی۔جنگ کی بساط بچھائی گئی۔خلیج کی ریاستوں کوعدم تعاون کاسگنل دیاگیا،خلیج سے باہراسلامی ملکوں کوجنگ میں شرکت کی دعوت دی گئی یاغیرجانب داررہنے کوکہاگیا۔مغربی اتحادیوں کے یہاں جنگ کاطبل بجایاگیا۔ ریہرسل شروع کر دی گئی۔خلیجی ریاستوں کو اپنے تحفظ کے نام پراسلحہ خریدنے کاحکم دیاگیا۔اس خلیجی جنگ کی وجہ سے امریکی دفاعی صنعتوں کوتقریبا210بلین ڈالرصرف خلیجی ممالک کی طرف سے ملے تھے جس میں سعودی عرب نے تقریباً 60بلین ڈالرکااسلحہ امریکاسے خریدا۔

امریکی ایماپراسرائیل عراق سے چھیڑ چھاڑاورفلسطینیوں پرمظالم کی رفتار بڑھاچکاتھا۔ماسوائے دوتین ممالک کے تمام خلیجی ریاستیں عراق کے خلاف امریکاکے پہلومیں کھڑی تھیں ۔ امریکی ایماپرکردوں کی تحریک میں تیزی آچکی تھی۔امریکی خفیہ ایجنسیاں اورادارے فرقہ وارانہ صوبائیت لسانیت اورعلاقائیت کے سوئے ہوئے فتنے کوجگانے میں کامیاب ہو چکے تھے۔عراقی تینوں افواج میں نفاق کی سازشیں کامیاب ہوچکی تھیں سیکولرازم اوراشتراکیت کاپرچارکرنے والے صدام حسین کاخیال تھاکہ وہ مختلف المذاہب اورفرقہ واریت اورصوبائیت کے فتنے کوختم کرکے ایک عراقی قوم پرست عوام تیارکرچکے ہیں۔اظہاررائے کی آزادی سے محروم عراقیوں کے اندرپکنے والالاواتب سامنے آیا جب امریکاجوعراق پر ایٹمی وکیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کا الزام لگاکر(جوبرآمدنہ کرسکاجس پرٹونی بلیئرنے معافی مانگ کراپنی غلطی کااعتراف بھی کرلیاہے)اپنی پوری قوت اورطاقت کے ساتھ عراق پرحملہ آورہوا،اورعراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی پوراعراق آگ وخون میں نہلادیاگیا۔ہزاروں عراقی بلا امتیازبوڑھے، جوان بچے خواتین بے رحمی سے شہیدکردئیے گئے ،مقدس مقامات کونشانہ بنایاگیا۔مظالم کے ایسے خوفناک پہاڑتوڑے گئے کہ ساری دنیانے ابوغریب جیل میں مسلمانوں کی غیرت کے جنازے نکلتے دیکھے۔

عراقی فرقہ واریت صوبائیت اورعلاقائیت کی بنیا دپرباہم متصادم ہوئے۔عراقی عوام یکجہتی برقرارنہ رکھ سکے اورعراق کی افواج نے صدام حسین سے غداری کی۔ تمام جہاز،میزائل اورسامان حرب دھراکادھرارہ گیا۔امریکا کولتاڑنے پرصدام حسین کو پھانسی پرچڑھادیاگیا۔تین دہائیوں کے بعد مصرمیں منتخب حکومت نے اپنی خودمختاری کاجونہی احساس دلایافوری طورپراس کا دھڑن تختہ کرکے اپنانمائندہ سامنے لے آئے۔اب ایران کے جہاں سرحدی تنازعات ختم ہوچکے ہیں وہاں امریکا اورمغرب کے ساتھ ایٹمی پروگرام پربھی اس کی مفاہمت ہونے جارہی ہے۔خلیجی ریاستوں کے بادشاہوں اورحکمرانوں کے اقتدارکواس وقت تک کوئی خطرہ نہیں جب تک وہ امریکااورمغرب کے تابعدارہیں البتہ یمن کے مسئلے پرایران اور عرب ممالک میں مستقل مخاصمت برقرار رکھی جائے گی۔اب دیکھنایہ ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کااگلاہدف کون ہے؟

 

Sami Ullah Khan
About the Author: Sami Ullah Khan Read More Articles by Sami Ullah Khan: 491 Articles with 315610 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.