|
|
“ڈاکٹروں نے کہا کہ اس بچی کو ماں کے پیٹ میں ہی ختم
کروادیں کیونکہ اس کے نہ ہاتھ ہیں نہ پیر یہ کیسے جیے گی“ |
|
یہ الفاظ ہیں کرن اشتیاق کے کو رحیم یار خان کی رہائشی
ہیں۔ کرن کے پیدائشی طور پر دونوں ہاتھ پیر نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود ان
کی آنکھوں اور باتوں میں ہمت اور
عزم کی ایسی چمک ہے جو کسی کی نگاہوں سے
پوشیدہ نہیں رہ سکتی |
|
پتہ نہیں ماں کیوں مجھے
چھوڑ کر چلی گئیں۔۔۔ |
کرن کہتی ہیں کہ ان کے والدین نے انھیں ختم نہیں کیا
بلکہ بہت محبت سے اپنایا۔ لیکن جب وہ چھ ماں کی ہوئیں تو ان کے والدین میں
کچھ ناچاقیوں کی وجہ سے طلاق ہوگئی جس کے کچھ ہی عرصے بعد ان کی والدہ
نےدوسری شادی کی اور سعودی عرب منتقل ہوگئیں۔ اور اب جب ان کے دوسرے شوہر
کا انتقال ہوگیا ہے تو وہ واپس آئی ہیں اور کرن نے انھیں بڑا ہونے کے بعد
پہلی بار دیکھا ہے۔ کرن اپنی والدہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتی ہیں
“پتہ نہیں والدہ مجھے چھوڑ کر چلی گئیں لیکن میرے گھر والوں نے مجھے اتنا
پیار دیا ہے کہ مجھے اپنی ماں کی کمی نہیں محسوس ہوئی۔ میری ماں کے جانے کے
بعد میری دونوں پھوپھیوں نے انی پڑھائی چھوڑ دی تاکہ مجھے سنبھال سکیں“ |
|
|
|
میٹرک میں فرسٹ ڈویژن
حاصل کی |
کرن نے اپنا تعلیمی سلسلہ شدید معذوری کے بوجود کامیابی
سے جاری رکھا ہوا ہے۔ وہ منہ سے پین پکڑ کر لکھتی ہیں اور جب کمرہ امتحان
میں داخل ہوتی ہیں تو لوگ ان سے سوال کرتے ہیں کہ وہ یہاں کیا کرنے آئے ہیں
اس پر وہ جواب دیتی ہیں کہ باقی بچوں کہ مقابلے میں وہ بھی لکھ کر امتحان
دینے آئی ہیں۔ آج کل کرن یونیورسٹی انگریزی میں بی اے آنرز کررہی ہیں
کیونکہ ان کی خواہش ہے کہ ان کی انگریزی بہت اچھی ہو۔ |
|
|
|
عمران خان سے گزارش ہے
کہ ۔۔۔ |
کرن کہتی ہیں کہ میٹرک میں فرسٹ ڈویژن حاصل کرنے پر بہت
سے اخباروں میں ان کا نام آیا اور کئی جگہ انھوں انٹرویو دیا جس کے بعد
شہباز شریف نے انھیں مصنوئی ٹانگیں اور ہاتھ لگوادیے لیکن وہ اتنے بھاری
تھے کہ وہ اس کا استعمال نہیں کرسکیں۔ اب کرن وزیرِ اعظم عمران خان سے
گزارش کرتی ہیں کہ وہ بھی ان کی مدد کریں تاکہ انھیں اپنے کام کرنے کے لئے
کسی اور کے سہارے کی ضرورت نہ پڑے۔ کرن کہتی ہیں وہ قوم کی بیٹی ہیں اس لئے
حکمرانوں کا فرض ہے کہ ان کی اور ان جیسی باقی لڑکیوں کی مدد کریں تاکہ وہ
زندگی میں اپنی عزت نفس کے ساتھ آگے بڑھ سکیں |
|