بھارت کی مودی حکومت مقبوضہ ریاست جموں کشمیر میں
سیاسی عمل کی بحالی کے لئے سوچ رہی تاکہ عالمی سطح پر یہ تاثر دیا جاسکے کہ
5 اگست 2019 کے اقدامات کے بعد وہاں حالات معمول پر آرہے ہیں اور لوگوں میں
ان اقدامات کے خلاف کوئی ردعمل نہیں۔اس سلسلہ میں بھارت نواز کشمیری راہنما
جن میں فارق عبداﷲ ، محبوبہ مفتی اور عمر عبداﷲ شامل ہیں 24 جون کو بھارتی
وزیر اعظم مودی کی دعوت پر نئی دہلی انہیں ملنے جارہے ہیں۔ بھارت نے پہلے
بھی اپنے زیر قبضہ ریاست میں کئی مرتبہ انتخابی ڈھونگ رچائے ہیں۔ نئی دہلی
اپنی طے شدہ پالیسی پر عمل پیرا ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اسلام آباد کے
پاس کوئی واضح پالیسی نہیں ہے اور نہ ہی اسے یہ معلوم ہے کہ اسے کیا کرنا
چاہیے۔ اس کا ثبوت یہ بھی ہے کہ وزیرخارجہ جناب شاہ محمود قریشی نے کہا ہے
کہ انہوں نے مسئلہ جموں کشمیر کے حوالے سے اپنے ذہن میں ایک خاکہ بنا لیا
ہے اور وہ جلد وزیراعظم جناب عمران خان کو پیش کریں گے۔ سبحان اﷲ، بھارت کی
جانب سے 5 اگست 2019 کو گیے گئے اقدامات کو 2سال ہونے والے ہیں اور ہماری
جانب سے جوابی اقدامات تو ایک طرف رہے، ابھی خاکہ ہمارے وزیر خارجہ کے ذہن
رسا میں ہے۔ قوم منتظر ہے کہ وہ کب منظر عام پر آئے گا۔ یہ ہے ہماری کشمیر
پالیسی۔ دوسری جانب وزیر اعظم جناب عمران خان فرما رہے ہیں کہ اگر بھارت 5
اگست 2019 کے اقدامات واپس لے گئے تو مذاکرات اور بحالی تعلقات ہوسکتے ہیں۔
جناب وزیر اعظم یہ آپ کی غلط فہمی ہے کیونکہ 70 سال سے بھارت نے جموں کشمیر
کے حوالے سے جو قدم بھی اٹھایا ہے، وہ کبھی واپس نہیں لیا اور نہ ہی بھارت
جموں کشمیر پر کوئی رعایتیں دے گا۔ اس لئے مسئلہ جموں کشمیر کی تاریخ کا
مطالعہ ضرور کرلینا چاہیے۔ اکتوبر 1947 کو مہاراجہ جموں کشمیر کا نام نہاد
الحاق، 1956 میں مقبوضہ جموں کشمیر کی اسمبلی کی الحاق ہندوستان کی قرارداد،
1974 میں شیخ عبداﷲ اندرا معائدہ، سیاہ چن پر قبضہ، دہلی میں اقوام متحدہ
کے فوجی مبصرین کے دفتر کو بند کرنے اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے دیگر
اقدامات میں سے کیا بھارت نے کوئی بھی یو ٹرن لینا ہے۔ اب 5 اگست 2019 کے
اقدامات پر بھارت سے یو ٹرن کی توقع خوش فہمی ہی ہوسکتی ہے۔
بھارت نے جموں کشمیر پر اس وقت کوئی رعایت نہیں دی جب اقوام متحدہ کی
سلامتی کونسل نے اس حوالے سے قراردادیں پاس کیں۔ پنڈت جواہر لال نہرو جیسی
شخصیت نے ایسا نہیں کیا تو اب یہ کیسے ممکن ہوگا۔ بھارت نے 1965 کی جنگ کے
بعد تاشقند معائدہ میں کسی قسم بھی رعایت دینے سے صاف انکار کردیا۔ 1965 کی
جنگ کے بعد تاشقند معائدہ سے قبل صدر پاکستان جنرل محمد ایوب خان نے
برطانیہ کا دورہ کیا اور وزیراعظم ولسن سے ملاقات میں مسئلہ کشمیر کے حل کے
لئے تعاون کی درخواست کی جس پر برطانوی وزیر اعظم نے صاف انکار کردیا۔
برطانیہ سے مایوس واپس لوٹنے کے بعد وہ روس کی دعوت پر تاشقند روانہ ہوگئے۔
بھارتی وزیر اعظم شاستری سے ان کی ملاقاتیں ہوئیں۔ صدر ایوب مسئلہ کشمیر پر
کچھ رعایتیں حاصل کرنا چاہتے تھے۔ بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری کے
سوانح نگار پی سری واستوا نے اس حوالے سے ایوب خان اور شاستری کے مابین
ہونے والے مکالمہ کو کچھ یوں بیان کیا ہے۔
ایوب: کشمیر کے مسئلے میں کچھ ایسا کر دیجیے کہ میں بھی اپنے ملک میں منہ
دکھانے کے قابل رہوں۔
شاستری: صدر صاحب! میں بہت معافی چاہتا ہوں کہ اس معاملے میں آپ کی کوئی
خدمت نہیں کرسکتا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے وزیر خارجہ کی حیثیت سے پہلے ہی یہ یقین دلایا تھا کہ
مذاکرات میں کشمیر کو فیصلہ کن حیثیت حاصل نہیں ہوگی اور آخر کار 10جنوری
1966 کو معائدہ تاشقند پر دستخط ہوگئے۔ 1965 کی جنگ پاکستان کی فوجی حکومت
نے ریاست جموں کشمیر آزاد کرانے کے لئے لڑی اور آپریشن جبرالٹر جیسا منصوبہ
بنایا لیکن حیرت یہ ہے کہ اس جنگ سے قبل آزاد حکومت ریاست جموں کشمیر کے
پہلے منتخب صدر اور قائد اعظم کے سیکرٹری جناب کے ایچ خورشید آزاد کو جبری
طور پر 5 اگست 1964 کو صدارت سے ہٹا کر دلائی قلعہ میں نظر بند کردیا اور
جنگ کے بعد ان کی رہائی 22 جنوری 1966 کو ہوئی۔ 1971 کی پاک بھارت جنگ کے
بعد معائدہ شملہ میں بھارت مسئلہ کشمیر کو ختم کرنے کے در پہ تھا اور یہی
وجہ ہے کہ اندارا بھٹو مذاکرات میں بار بار تعطل آتا رہا۔ بالآخر 3 جولائی
1972 کو شملہ معائدہ ہوگیا اور بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر اور آزاد کشمیر کے
درمیان جنگ بندی لائن "سیز فائر لائن" کو "کنٹرول لائن" بنانے پر اتفاق
ہوگیا۔ معائدہ تاشقند ہو یا معائدہ شملہ کسی میں بھی کشمیری نمائندے موجود
نہ تھے۔ جموں کشمیر میں LOCتسلیم کئے جانے بعد آزاد کشمیر میں اہم تبدیلیاں
کی گئیں جن میں 1974 کے عبوری ایکٹ کا نفاذ، کشمیر کونسل کا قیام، آزاد
کشمیر فوج AKRF کی تحلیل اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا آزاد کشمیر میں
قیام شامل ہیں۔
5 اگست کے اقدامات کے بعد بھارت نے جموں کشمیر میں ظلم وبربریت کا بازار
گرم کررکھاہے ، کشمیری رہنماؤں کو جیلوں میں ڈال رکھا ہے۔ عالمی رائے نے اس
مسئلہ پر خاموشی اور چپ سادھ رکھی ہے۔ پاکستان کی موجودہ حکومت کی ایک اہم
وزیر محترمہ شیریں مزاری خود اپنی حکومت کی کشمیر پر خارجہ پالیسی سے مطمئن
نہیں۔ وزیرخارجہ فرما رہے ہیں کہ ان کے ذہن میں کشمیر کا خاکہ بن گیا ہے
لیکن خاکے کو منظر عام پر آئے ہوئے نجانے کتنا عرصہ درکارہوگا جبکہ کشمیری
یہ کہہ رہے ہیں
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہوتے تک |