کرگس و شاہین: ارون مشرا اور سدھا بھاردواج

ملک کی جانی مانی سماجی کارکن سدھا بھاردواج28؍اگست 2018 سے یو اے پی کے تحت جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں ۔ ان کی بابت آر ٹی آئی کے ذریعہ اب یہ انکشاف ہوا ہے کہ کشور وڈانے نامی جس جج نے 2019 میں ان کے فردِ جرم کی سماعت کی تھی وہ این آئی اے ضابطے کے تحت اس کے اہل نہیں تھے۔ یعنی ایک نااہل جج نے سدھا کو گرفتار کیے جانے کی توثیق کی اور اس غیر قانونی گرفتاری کے خلاف ضمانت کی درخواستوں کوہائی کورٹ سے لے کرسپریم کورٹ سبھی نے مسترد کیا۔ وہ کوئی غیر معروف شخصیت نہیں ہے کہ ان کے خلاف اپنی مرضی کے مطابق اوٹ پٹانگ الزامات لگا دیئے جائیں۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی مفلس قبائلی لوگوں کے حقوق کی پامالی کے خلاف جدوجہد کی ہے۔ ان کی پیدائش امریکہ کے اندر ماہرین معیشت خاندان میں ہوئی ۔ ان کی والدہ کرشنابھاردواج نے جے این یو میں معاشیات اور منصوبہ بندی کا شعبہ قائم کیا ۔ ان کا بچپن پہلے کیمبرج اور پھر دہلی میں گزرا۔ آئی آئی ٹی کانپور سےگریجویشن کرنے کے بعد انہوں دہلی پبلک اسکول میں چند سال معلم کی ذمہ داری نبھائی۔
1986 میں قبائلی مزدوروں کے حقوق کی خاطر لڑنے کے لیے وہ چھتیس گڑھ منتقل ہوگئیں اور ٹریڈ یونین کے کام میں اپنی زندگی وقف کردی ۔ 1992 میں بھیلائی کے اندر جب پولس کی گولی سے 17 ؍محنت کش ہلاک ہوگئے تو انہیں انصاف دلانے کی خاطر سدھا بھاردواج نے 1997 میں وکالت کی تعلیم شروع کی اور 2000 میں ڈگری لینے کے بعد 2015 تک ان غریبوں کا مقدمہ لڑتی رہیں۔ اس دوران انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی مؤقر تنظیموں مثلاً پی یو سی ایل اور آئی اے پی ایل کے ساتھ منسلک ہوگئیں۔ ایسی بے لوث اور جانباز خاتون جہدکار کو مودی سرکار نے یلغار پریشد کے بعد پھوٹنے والے تشدد کی آڑ میں جیل بھیج دیا۔ ان کی گرفتاری کے 9 ؍ماہ بعد 2019 میں سدھا بھاردواج کو ہارورڈ لاء اسکول نے یوم خواتین کے موقع پر انہیں اعزاز و اکرام سے نوازہ۔ مہاراشٹر کی ادھو ٹھاکرے سرکار نے اس وقت سدھا بھاردواج کی رہائی پر غور کرنا شروع کیا تو مرکزی حکومت نے معاملہ این آئی اے کے حوالے کرکے رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔ ان ظالموں نےسدھا والد کی کورونا سے موت پر بھی پیرول دینے سے انکار کرکے کمال سفاکی کا مظاہرہ کیا ۔

وطن عزیز کی یہ حالت ہے کہ تیس سال تک انسانی حقوق کے لیے بے غرض جدوجہد کرنے وا لی جہد کار جیل میں ہے اور جسٹس ارون مشرا جیسے متنازع جج کو انسانی حقوق کےکمیشن کا سربراہ بنادیا گیا ہے۔ سدھا بھاردواج کے برعکس جسٹس ارون مشرا کو یہ عہدہ اس لیے ملاکیونکہ انہوں نے مودی اور شاہ کے علاوہ ان کی چہیتے سرمایہ دار گوتم اڈانی کی بھی خوب خدمت کی۔ سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کے سابق صدر اوربیباک وکیل دشینت دوے نے سابق چیف جسٹس شرد بوبڑے کو خط لکھ کر پوچھا تھا کہ اڈانی گروپ کے سارے مقدمات ارون مشرا کی بنچ کو کیوں سونپے جاتے ہیں؟ یکے بعددیگرے 6 مقدمات کا فیصلے اڈانی گروپ کے حق میں کرکےارون مشرا اپنی وفاداری کا لوہا منوا چکے ہیں۔ان کی مقدمات کی تفصیل بھی خاصی دلچسپ ہے۔ جنوری 2019کے پہلے مقدمہ میں سپریم کورٹ نے کسی فرد واحد یا نجی ادارے کے نہیں بلکہ حکومت راجستھان کے خلاف یہ فیصلہ سنایا تھا۔ اس میں بدعہدی کے سبب اڈانی گیس کے اودے پور اور جے پور کے ٹھیکے منسوخ کردیئے گئے تھے اور اس کی دو کروڈ کی ضمانتی رقم ضبط کرلی گئی تھی ۔ ارون مشرا کی بنچ نے وہ رقم واپس دلواکر ٹھیکہ بحال کردیا۔ یعنی عام لوگوں کے خلاف سرکار کی حمایت کرنے والے جج نے خاص سرمایہ دار کے لیے حکومت کی مخالفت میں فیصلہ کیا۔

دوسرا تنازع اسی سال مئی کے مہینے میں سامنے آیا جس میں پہلے ٹاٹا پاور اور ریلاینس آنے سامنے تھے مگر پھر اڈانی گروپ درمیان میں آگیا اور ارون مشرا کی موجودگی میں فیصلہ ٹاٹا کے خلاف ہوا۔ایک ماہ بعد تیسرا مقدمہ چھتیس گڑھ کے اندر پارسا کولریج اور راجستھان بجلی بورڈ کے درمیان تھا ۔ اس پروجکٹ میں راجستھان حکومت کے ساتھ اڈانی گروپ کی شراکت داری تھی ۔ مقامی قبائلی آبادی اس کے خلاف تھی مگر فیصلہ راجستھان سرکار کے حق میں آیا۔ اس مقدمہ کی سماعت جسٹس نریمان اور جسٹس ملہوترا کررہے تھے لیکن گرمیوں کی تعطیلات کے سبب اسے عارضی طور پر ارون مشرا کے حوالے کیا گیا بس پھر کیا تھا اڈانی جی کے وارے نیارے ہوگئے۔ مشرا جی نے آو دیکھا نہ تاو فیصلہ سنا دیا۔ یہ دلچسپ صورتحال ہے کہ اگر اڈانی راجستھان سرکار کے ساتھ ہو تو مشرا جی سرکار کے ساتھ اور خلاف ہو تو وہ حکومت کے خلاف۔ مزید ایک ماہ بعد چوتھا معاملہ اڈانی گروپ اور گجرات ریگولیٹری کمیشن کے بیچ تھا ۔ اس میں ایک ہی سماعت کے اندر جسٹس شاہ کے ساتھ مشرا جی نے اڈانی کا بھلا کردیا۔

2019کے بعد 2020میں پھر یہ سلسلہ چل پڑا ۔ ماہ مارچ میں پاور گرِڈ کمپنی نے کوربا میں اڈانی پر سرکاری خزانے کےکروڈوں روپئے ہضم کرنے کا الزام لگایا لیکن مشرا جی کی بنچ نے اڈانی کا ساتھ دیا اور سرکاری کمپنی کو چونا لگ گیا۔ مشرا جی نے جاتے جاتے اگست 2020 میں بھی جسٹس شاہ اور جسٹس سرن کے ساتھ راجستھان کی بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کے گروہ کی شکایت خارج کرکے اڈانی گروپ کو 5 ہزار کروڈ کا فائدہ پہنچا دیا ۔ پرشانت بھوشن کے مطابق جسٹس ارون مشرا نے اپنے مختلف فیصلوں سے اڈانی گروپ کو تقریباً 20ہزار کروڈ کا فائدہ پہنچایا ۔ اس سے پتہ چلتا ہے ارون مشرا نے پرشانت بھوشن پر ہتک عزت کا دعویٰ کیوں کیا اور اڈانی نے اتنی تیزی کے ساتھ ترقی کیسے کی۔ یہ سارے معاملات مودی جی کی مدت کار میں ہوئے۔ اس کے باوجود کہا جاتا ہےکہ مودی جی بدعنوان نہیں ہیں ۔ ویسے اڈانی اور مشرا جی کے ہوتے انہیں کوئلے کی دلالی میں اپنے ہاتھ کالے کرنے کی کیا ضرورت؟ اپنے دلالوں کو نوازو یعنی کھاو اور کھانے دو کے اصول پر عمل کرتے رہو۔ اب یہی کھیل حقوق انسانی کمیشن میں کھیلا جائے گا۔

ہندوستانی عدلیہ کی تاریخ میں یکم جنوری 2018 کے دن ایک غیر معمولی واقعہ پیش آیا تھا جبکہ عدالت عظمیٰ کے چار سب سے معمر ججوں جسٹس چلمیشور، جسٹس رنجن گوگوئی، جسٹس مدن لوکر اور جسٹس جوزف کورین نے سابق چیف جسٹس دیپک مشرا پر اپنے عہدے کے غلط استعمال کا الزام لگادیا۔ وہ غلط استعمال دراصل سیاسی طور پر حساس مقدمات کا حکومت کے تئیں نرم گوشہ رکھنے والی بنچ کے حوالے کرنے کا تھا ۔ ان ساری بنچوں میں جسٹس ارون مشرا موجود ہوتے تھے ۔ ایسے میں جب معترض ججوں سے پوچھا گیا تھا کہ کیا ان کا اشارہ برج موہن لویا کے کیس کی جانب ہے جس میں امیت شاہ ملوث تھے اور اسے نسبتاً جونیر جج ارون مشرا کے حوالے کیا گیا تھا تو جسٹس رنجن گوگوئی نے اس پر ہاں کہا تھا ۔ یہ معاملہ اتنا بڑھا کہ احتجاج کے اگلے دن جسٹس ارون مشرا نے جذباتی ہوکر اس مقدمہ سے خود الگ کرنے کی درخواست دے دی تھی۔ اس قدر بزدل جج بھلا سدھا بھاردواج جیسے لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرنے میں کیا کردار ادا کرسکتا ہے؟

عدالت عظمیٰ کے جسٹس حضرات کو اپنی سبکدوشی کے بعد کی زندگی بہت زیادہ متفکر کرتی ہے ۔ اس دورانیہ میں رنجن گوگوئی جیسے چیف جسٹس پر کوئی خاتون دست درازی کا الزام لگا دے تو معاملہ اور بھی سنگین ہوجاتا ہے کیونکہ جج صاحب کوعدالت کی کرسی سے جیل کی سلاخیں صاف نظر آنے لگتی ہیں ۔ اس کے بعد یہ ہوتا ہے کہ اچانک چوکیدار چور سے ساہوکار بن جاتا ۔ بابری مسجد کا فیصلہ تو نہیں مگر نتیجہ بدل جاتا ہے اور ایوان ِ بالا کی نشست بونس میں مل جاتی ہے ۔ اس طرح ساری عمر کے لیے ایک چھوڑ دودو پنشن کا بندو بست ہوجاتا ہے۔ ارون مشرا پر موجودہ سرکار اس قدر خوش ہے کہ انہیں 9 مہینوں سے گھر خالی کرنے کے لیے نہیں کہا گیا حالانکہ عام ججوں کو تو ایک ماہ کے اندر کہیں اور منتقل ہوجانا پڑتا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ مشرا جی کی چاپلوسی سرکار کا دل جیت چکی تھی اور ان کےلیے یہ عہدہ مختص کیا جاچکا تھا ۔ اب وہ آگے اس حقِ نمک خوب ادا کریں گے ۔اس دوران سرکار یا اس کے حواری کی بے دھڑک یلغار پریشد اور دہلی فساد کے بعد سرکار کے ذریعہ گرفتار کیے جانے والے بے قصور لوگوں کے انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائیں گے کیونکہ انہیں قومی حقوقِ انسانی کمیشن کا کوئی خوف نہیں ہوگا ۔ ملت میں سرکاری ملازمتوں کا رحجان بڑھ رہا ہے لیکن جیالے نوجوانوں کے سامنے سدھا بھاردواج اور ارون مشرا دونوں کا کردار ہے۔ اب انہیں طے کرنا ہے کہ وہ کس راستے پر چلنا چاہتے ہیں؟ بقول حکیم الامت علامہ اقبال ؎
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے، شاہیں کا جہاں اور

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1451919 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.