مغربی بنگال میں بی جے پی کی کراری شکست کے بعد اچانک آر
ایس ایس بہت زیادہ فعال ہوگیا۔ اس کی وجہ یہ ہے مودی اور یوگی وقت کے ساتھ
خود کفیل ہوچکے ہیں اور انہیں آر ایس ایس کی ضرورت نہیں ہے ۔ ایک زمانے
میں آر ایس ایس کی ذہانت کا غلغلہ تھا لیکن وقت کے ساتھ یہ بات ثابت ہوچکی
ہے موہن بھاگوت جب بھی اپنی چونچ کھولتے ہیں کوئی نہ کوئی احمقانہ تنازع
کھڑا کرکے بی جے پی کا نقصان کردیتے ہیں مثلاً کبھی کہہ دیا کہ ریزرویشن پر
ازسرِنوغور ہونا چاہیے یا سنگھ کے سویم سیوک فوج سے بہتر ہیں وغیرہ۔سنگھ کا
دوسرا سب سے بڑا سرمایہ اس کے کارکن ہیں لیکن پیشہ ورانہ سیاست میں اس کی
بھی ضرورت نہیں رہی جلسوں کے پوسٹر اور بینر بنانے کا کام ایڈورٹائزنگ
ایجنسیاں کرتی ہیں اور نہیں بانٹنے و لگانے تک ٹھیکہ لے لیتی ہیں۔ عوام کو
لانے کے لیے بھی ٹھیکے دار موجود ہیں جو گاڑیوں میں بھر بھر کر ان کو لاتے
ہیں ۔ باقی کام میڈیا کردیتا ۔ وہ مودی اور شاہ کی تقریر کو ان لوگوں تک
پہنچا دیتا ہے جو وہاں موجود نہیں ہوتے۔
بی جے پی کے پاس چونکہ دولت کی فراوانی ہے اس لیے اس کا انحصار سنگھ پریوار
پر کم ہوتا جارہا ہے۔ اس بات کا احساس سنگھ کو بھی ہوتا رہا ہے لیکن مغربی
بنگال کی انتخابی شکست کے بعد اس نےاترپردیش کی ’مصیبت میں موقع‘ کا فائدہ
اٹھانے کا ارادہ کرلیا ہے۔ 9؍ جولائی سے 13؍ جولائی تک اس نے چترکوٹ میں
ایک اجتماع کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں موہن بھاگوت کے علاوہ ، دتاترے
ہوسا بلے، ڈاکٹر کرشن گوپال ، ارون کمار ، ڈاکٹر منموہن ویدیہ اور بھیا جی
جوشی شرکت کریں گے۔ اس نشست میں کورونا کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال اور
اسمبلی الیکشن کی حکمت عملی پر غور ہوگا۔ سنگھ کے جنرل سکریٹری ہوسابلے نے
یکم جون سے 4جون تک یوپی کا دورہ کیا تھالیکن یوگی نے ان سے ملنے کی زحمت
ہی نہیں کی۔ اس سے بڑی توہین کیا ہوسکتی ہے۔ اس کے بعد دہلی لوٹ کر موہن
بھاگوت سے بات چیت کرکے وزیر اعظم کی شبیہ سدھارنے اور یوگی و مودی کی
مقبولیت بڑھانے کا منصوبہ بنا۔
سنگھ کی جانب سے اس طرح کی منفی باتیں اگر ذرائع ابلاغ میں آئیں تو ظاہرہے
مودی اور یوگی ناراض ہوں گے کیونکہ وہ تو اس بات کو تسلیم ہی نہیں کرتے ۔
اس لیے سنگھ کی حالت مان نہ مان میں تیرا مہمان کی سی ہوگئی ہے کیونکہ وہ
تو بی جے پی کی مدد کرنا چاہتا ہے مگر پارٹی تعاون لینا نہیں چاہتی ۔ سنگھ
کی گراونڈ رپورٹ کس قدر غیر حقیقت پسندانہ ہے اس کا اندازہ لگانے کے لیے یہ
جاننا کافی ہے کہ اس کے مطابق اترپردیش کا مسلمان مودی کی بہ نسبت یوگی سے
زیادہ خوش ہے۔آر ایس ایس کے گراونڈ رپورٹ اس لیے بھی بے معنیٰ ہے کہ شاہ
جی اور یوگی جی کے پاس فی الحال سارے خفیہ ادارے ہیں جو ان کو زیادہ بہتر
انداز میں زمینی صورتحال سے آگاہ کرسکتے ہیں ۔ آر ایس ایس کی حکمت میں اب
بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ وہی گھساپٹا فارمولا کہ عوام کے اندر عدم تحفظ
کا جعلی احساس پیدا کرکے انہیں یہ سمجھایا جائے کہ وہ مودی اور یوگی کے سبب
محفوظ ہیں۔ سنگھ نے عام لوگوں کو جتنا احمق سمجھ رکھا ہے وہ اس سے کہیں
زیادہ ذہین ہیں اس لیےعوام کا اس بار جھانسے میں آنا مشکل ہے۔
سنگھ پریوار لوگوں کو یہ بتانے کے لیے کہ اگر یوگی نہیں ہوتے تو ان کی حالت
اور بھی بری ہوتی پہلے اپنے کارکنان کو میدان میں بھیجنا چاہتا ہے۔ اس کے
بعد پھر ارکان اسمبلی عوام کے بیچ جائیں گے لیکن یہ طے ہے کہ جو بھائی جائے
گا وہ پبلک سے مار کھائےگا۔ سنگھ عوام کو یہ بھی سمجھانا چاہتا ہے کہ خود
انحصاری کی وجہ مودی نے ملک کے اندرویکسین بنا ڈالی لیکن عالمی برادری ہنوز
اس کوتسلیم نہیں کرتی یعنی وہ لگا کر بیرون ملک جانے والوں کو قرنطینہ میں
رہنا پڑتاہے۔ دوسرا مسئلہ اس کی فراہمی کا ہے جو بری طرح متاثر ہے۔ سنگھ
لوگوں کو یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ لاک ڈاون مفید تھا آکسیجن کی سپلائی خوب
ہوئی اس پر تو اسے ایسے جوتے پڑیں گے کہ عقل ٹھکانے آجائےگی۔ بی جے پی
رہنماوں سے سنگھ کہہ رہا ہے عوام کے غم و غصے کا جواب نہ دیں ۔ سوال یہ ہے
کہ یہ غم وغصہ کیوں ہے؟ سنگھ بی جے پی والوں کو دودھ پیتا بچہ سمجھ کر یہ
مشورہ دے رہا ہے کہ وہ مشتعل ہوکر الٹا سیدھا بیان نہ دیں اور حزب اختلاف
کے اکسوائے میں نہ آئیں ۔ یہ تو سیدھے سیدھے غصہ دلانے والی بات ہے کیونکہ
اتنا کامن سینس تو سب میں ہے۔
آر ایس ایس کو بھی احساس ہوگیا ہے کہ موجودہ حالات میں صرف ہندوتوا کی
بنیاد پر اترپردیش کا انتخاب جتینا ممکن نہیں ہے لیکن یوگی اس خیال سے
اتفاق نہیں کرتے ان کو لگتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلاکر وہ انتخاب
جیت سکتے ہیں ۔ بی جے پی کے خلاف منفی جذبات کو ختم کرنے کے لیے آر ایس
ایس نے ٹیلی ویژن پر بے انتہامثبتیت نامی مہم چلائی لیکن وہ بے اثر رہی۔
سنگھ نے وزیر اعظم کو یہ احمقانہ مشورہ بھی دے دیا کہ صوبائی انتخاب میں
مہم نہ چلائیں ۔ یہ تو ناممکن ہے اس لیے مودی جی سے تو ویسے بھی صبر نہیں
ہوگا دوسرے اتر پردیش میں مودی جی حلقۂ انتخاب ہے اس لیے ان کا اس سے دور
رہنا ناممکن ہے۔ مودی اور یوگی درمیان لگی آگ میں سب سے زیادہ تیل ڈالنے
کا کام خود امیت شاہ کررہے ہیں کیونکہ اپنے آپ کو مودی کا جانشین سمجھنے
والے کو سب سے زیادہ خطرہ یوگی سے ہے۔
مودی اور یوگی کا اختلاف اب ناک ناک کی لڑائی بن گیا ہے۔ ایسے میں اپنی
برتری ثابت کرنے کا سب سے آسان طریقہ مخالف کی ناک نیچی کرنا ہوتا ہے اور
فی الحال یہی ہورہا ہے کبھی شاہ جی اپنی چالبازی سے یوگی کے پر کتر دیتے
ہیں اور کبھی یوگی ان کو دھوبی پچھاڑ ماردیتے ہیں۔ ایک دوسرے کی ناک کاٹنے
کا یہ سلسلہ اگر جاری رہا تو بہت جلد ان دونوں کے چہرے سپاٹ ہوجائیں گے
یعنی نہ رہے گی ناک اور نہ ہوگی نیچے ۔ جلد یا بہ دیر یہ ہو کر رہے گا مگر
اس سے پہلے موہن بھاگوت کی زبان کٹ جائے گی اور بے بال و پر سنگھ پریوار
ہوا میں اڑنے کے بجائے زمین پر رینگنے پر مجبور ہوجائے گا۔ تاریخ انسانی
ظالموں کے اسی انجام سے باخبر کرتی ہے۔ سنگھ کی یہ حالت کب ہوگی یہ کوئی
نہیں جانتا مگر ملک کے ہر مظلوم کے دل کی یہ آواز ہے کہ ایک نہ ایک دن اس
باز نما گدھ کا یہی عبرتناک حشر ہو۔
آر ایس ایس اور بی جے پی کے درمیان باپ بیٹے کا رشتہ ہے ۔ یہ باپ بیٹے کا
رشتہ بھی بہت دلچسپ ہے کہ اس میں وقت کے ساتھ تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے۔
ایک خاص عمر تک بچے کا انحصار اپنے والدین پر بہت زیادہ ہوتا ہے اس لیے وہ
اپنے باپ کی تابعداری پر مجبور ہوتا ہے۔ اس دوران اس سے سرزد ہونے ولی
نافرمانی کو نادانی قرار دے کرنظر انداز کردیا جاتا ہے۔ اس کے بعد جب بچہ
اپنے پیروں پر کھڑا ہوجاتا ہے تو اپنی مرضی سے بہت کچھ کرنے لگتا ہے اور
اپنے والد کے احکامات کو خاطر میں نہیں لاتا ۔ ایسی صورت میں سمجھدار
والدین اولاد کی اس کیفیت کو محسوس کرکے جانتے بھوجتے اسے نظر انداز کردیتے
ہیں تاکہ تعلقات میں بدمزگی نہ آئے اور بات بنی رہے۔ ناسمجھ والدین اس پر
اپنی مرضی چلانے کی کوشش کرتے ہیں اور تعلقات کشیدہ بھی ہوجاتے ہیں ۔
آر ایس ایس نے بھی ایک خاص وقت تک بحالتِ مجبوری یہی رویہ اختیار کیا مگر
مغربی بنگال میں انتخاب کے بعد سنگھ نے سوچا یہ اپنی اہمیت بڑھانے کا اچھا
موقع ہے اور وہ اس کام میں لگ گیا۔ اب جیسا باپ ویسا بیٹا بی جے پی نے جب
دیکھا کہ وہ موقع کا فائدہ اٹھا کر مجھے زیر کرنا چاہتا ہے تو اس نے بھی
سنگھ کی نافرمانی میں اضافہ کردیا اور یوگی نے دتا ترے ہوسابلے سے ملاقات
کرنے کا انکار کرکے اپنی بغاوت کا اعلان کردیا ۔ اب سنگھ کی یہ مجبوری ہے
کہ وہ اسے عاق بھی نہیں کرسکتا اس لیے کہ اگر یہ خطرہ مول لیا گیا تو اس کے
کیڈر میں بغاوت ہوجائے گی اس لیے اپنی رسوائی کو خاموشی سے برداشت کرنے کے
سوا کوئی چارۂ کار نہیں ہے۔پچھلے سات سالوں میں سنگھ کو یہ اچھی طرح معلوم
ہوگیا ہے اس کے نظریہ ناکام ہوچکا ہے۔ اس کے عادت اطوار نے یہ ثابت کردیا
ہے کہ اس وفادار ی ملک و قوم کے بجائے حکومت سے ہے۔ دیش بھکتی کے کھوکھلے
دعوے جھوٹے ہیں۔ سنگھ کی ایسی حالت کبھی نہیں تھی۔ بی جے پی پوری طرح نااہل
ثابت ہوچکی ہے لیکن پھر بھی اس کا معاملہ ’ کہا بھی نہ جائے اور سہا بھی نہ
جائے‘ جیسا ہے ۔ سنگھ کے ذریعہ نقصان بھرپائی( damage control) کی جدوجہد
اس بات کا ثبوت ہے کہ نقصان ہوچکا اور اس کی بھرپائی کس قدر ہوسکے گی یہ تو
وقت ہی بتائے گا۔
|