مودی اور بھارت نواز کشمیری آمنے سامنے۔

 پانچ اگست 2019ء کے بھارتی اقدام کے بعد کشمیر میں ایک نئی تحریک نے جنم لیا، جس میں وہ لوگ بھی شامل ہوگئے ، جو ہمیشہ دہلی کے پیروکار رہے ہیں، انتخابات میں حصہ لیتے رہے اور فوائد بھی حاصل کرتے رہے، پانچ اگست کے بعد مودی حکومت، امیت شاہ اور بی جے پی کے بڑے ارادے تھے، جس کے لیے وہ آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے سے کشمیر کی ہیئت ہی تبدیل کرنا چاہتے تھے، بڑے پیمانے پر غیر کشمیریوں کی آبادکاری ، ڈومیسائل کا اجراء اور کشمیری عوام کے دلوں سے آزادی کا جذبہ مٹانے کی کوشش شامل تھی، ان سب منصوبوں کا نتیجہ ریسورس شکل میں برآمد ہوا، تحریک کشمیر بچوں کی ایک نئی نسل میں منتقل ہوگئی، وہ کشمیری جو دہلی کے پیروکار تھے، اپنی سوچ تبدیل کرنے پر مجبور ہوئے، محبوبہ مفتی سابق کٹھ پُتلی وزیر اعلیٰ نے یہاں تک کہا کہ جناح صاحب کی سوچ اور نظریہ درست تھا، اسی طرح کے ملتے جلتے بیانات فاروق عبداللہ، اور عمر عبداللہ کے بھی رہے ،غلام نبی آزاد بھی پیچھے نہیں رہے، یہ تمام لوگ کشمیر کے کٹھ پُتلی وزیر اعلیٰ رہے ہیں،

مودی حکومت پر عالمی سطح اور حکومت پاکستان کا دباؤ آیا تو گزشتہ دنوں کشمیری رہنماؤں کی اے پی سی بلائی گئی، جس میں مودی نے ایک نیا منصوبہ پیش کرنے کی کوشش کی، اور کہاکہ کشمیر میں حلقہ بندیاں اور انتخابات کے راستے ہموار کیے جائیں، جس کے جواب میں 16 کشمیر رہنماؤں نے مشترکہ طور پر موقف اپنایا کہ جب تک پانچ اگست کے اقدامات واپس نہیں لئے جاتے، نظر بند رہنماؤں کو رہا نہیں کیا جاتا اور کشمیری پنڈتوں کی بے دخلی ختم نہیں کی جاتی کوئی بات نہیں ہوگی، فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ نے پانچ اگست کے اقدام کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا، مودی نے اس کانفرنس میں حریت کانفرنس کو نظر انداز کیا اور وہ بھی ھاتھ سے گیا جو پاس تھا، حریت رہنما شبیر احمد شاہ، یسین ملک، بزرگ رہنما سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق اور کئی حریت رہنماؤں کی زندگی جیل میں گزر گئی انہی کی قربانیوں کی بدولت مسئلہ کشمیر دنیا میں زندہ اور نسل در نسل پھیل چکا ہے ایک طرف اطلاعات ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بیک ڈور مذاکرات چل رہے ہیں جس کے نتیجے میں بارڈرز ہر جنگ بندی ہوئی، دوسری طرف عالمی میڈیا، اور کئی ممالک کا دباؤ بڑھا ھے جس کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ پانچ اگست کے اقدام کو واپس لینے کی آواز بلند ہوئی خود گانگریسی رہنما اس کا عندیہ دے چکے ہیں اب کشمیری قیادت کے پاس ایک سیاسی موقع ھے کہ وہ یک نکاتی ایجنڈے پر متفق ہو جائیں "وہ سنگل پوائنٹ ایجنڈہ پانچ اگست کے اقدام کی واپسی اور ہندو آباد کاری کا گھناؤنا فعل واپس لینے کے لیے دباؤ بڑھایا جائے آزاد کشمیر کی قیادت بھی اس کا حصہ بن جائے تو معمالات آگے بڑھ سکتے ہیں دوسرا ایجنڈا آزادی سے فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے پھر بات آگے بڑھ سکتی ہے لیکن بھارت افغانستان میں بھی قدم جمانے کی کوشش کرتا رہا ھو

 

Prof Khursheed Akhtar
About the Author: Prof Khursheed Akhtar Read More Articles by Prof Khursheed Akhtar: 89 Articles with 68697 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.