پاکستانی پاسپورٹ پر واضح درج ہے کہ یہ پاسپورٹ سوائے
اسرائیل کے پوری دنیا میں جانے کے لئے کار آمدہے یہ تحریر اس نظرئیے کی
وضاحت ہے کہ پاکستان اسرائیل کو ایک ناجائز ریاست سمجھتاہے کیونکہ یہ ملک
جہاں قائم ہے وہ علاقے فلسطینی مسلمانوں کے ہیں جن پر یہودی دھونس، لالچ
اور جبر سے قابض ہوگئے ہیں پاکستان نے ہمیشہ بانگِ دہل فلسطینیوں کی حمایت
کی ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان یہودیوں کا خاص ہدف ہے جب سے پاکستان ایٹمی
قوت بناہے پاکستان کا وجود اسے کانٹے کی طرح کھٹک رہاہے لیکن اس ماحول میں
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ایک دھماکے دار انکشاف
کرکے پورے پاکستان کو حیران کرکے رکھ دیا انہوں نے کہا ہے کہ میڈیا بھی
تحقیقاتی صحافت کرتا ہے اور اسے بھی تحقیقات کرنی چاہیے کہ عمران خان کا
ایک قریبی دوست پاکستان سے اسرائیل گیا اور دس گھٹنے اسرائیل میں ٹھہرا۔ ہم
بھی یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ اگر اس جہاز نے کسی اور ملک سے پرواز کی تھی
تو اس کی بھی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بہت سارے
صحافتی اداروں نے یہ رپورٹ کیا ہے کہ عمران خان کے قریبی دوست اس جہاز میں
سوار تھے۔ اب یہ ساری معلومات عوام کے سامنے آنی چاہئیں۔ ہمیں اس بات پر
تشویش ہے کہ یہ دورہ رات کی تاریکی میں کیا گیا ہے؟۔ اگر اس جہاز میں زلفی
بخاری نہیں تھے تو پھر کون تھا؟۔ امریکہ کو ہوائی اڈے دینے کے بارے میں ایک
سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ عمران خان کے کسی بھی بیان کو
سنجیدہ نہیں لیتے کیونکہ عمران خان ہر معاملے پر یو ٹرن لے لیتے ہیں۔
وزیراعظم کے قریبی دوست اور سابق معاون خصوصی برائے اوورسیز پاکستانی زلفی
بخاری نے ایک مرتبہ پھر اسرائیل کا خفیہ دورہ کرنے کی خبروں کو جعلی قرار
دیدیا۔ سابق معاون خصوصی برائے اوورسیز پاکستانی کی طرف سے یہ دوسرا موقع
ہے جب انہوں نے اسرائیل کا دورہ کرنے کے متعلق رپورٹس کی تردید کی ہے۔
گزشتہ سال دسمبر 2020ء میں بھی انہوں نے رپورٹس مسترد کی تھیں۔ ترجمان دفتر
خارجہ نے زلفی بخاری کے مبینہ دورہ اسرائیل پر ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ زلفی بخاری کے دورہ اسرائیل کی خبریں بے
بنیاد اور گمراہ کن ہیں۔ اسرائیل کا ایسا کوئی دورہ نہیں کیا گیا ہے۔ زلفی
بخاری کی طرف سے دوٹوک بیان بھی جاری کیا گیا ہے۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ
اسرائیل کے معاملے پر پاکستان کے اصولی مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی
ہے۔وزیر اعظم کے سابق معاون خصوصی زلفی بخاری نے گزشتہ برس نومبر میں
اسرائیل کے خفیہ دورے سے متعلق اپنے حوالے سے سوشل میڈیا پر گردش کرتی
افواہوں کی تردید کرتے ہوئے ایسی تمام رپورٹس کو بے بنیاد اور احمقانہ قرار
دیا ہے۔ ایک بیان میں زلفی بخاری کا کہنا ہے کہ وہ اپنی ساری زندگی میں
کبھی اسرائیل نہیں گئے دعوے جھوٹ کا پلندہ ہیں ان میں کوئی صداقت نہیں۔اسی
تناظرمیں خرم دستگیر خان نے کہا کہ زلفی بخاری کے دورہ اسرائیل کی جو تاریخ
بتائی گئی ہے اس وقت وہ معاونِ خصوصی تھے، لہٰذا ضروری ہے کہ حکومت اس کی
تردید کرے۔ اسرائیلی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے سابق
معاون خصوصی برائے اوورسیز پاکستانیز ذلفی بخاری نے نومبر 2020 میں موساد
چیف سے ملاقات کیلئے اسرائیل کا مختصر خفیہ دورہ کیا رپورٹ میں دعویٰ کیا
گیا کہ پاکستانی عہدیدار جو برطانیہ کے شہری ہیں، انہوں نے اپنے برطانوی
پاسپورٹ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلام آباد سے لندن سفر کیا اور اس کے بعد
اسرئیل کے بن گوریان ائیرپورٹ پہنچے جہاں انہوں نے اسرائیلی دفتر خارجہ کے
سینیئر حکام سے ملاقات کی۔رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ ذلفی بخاری نے
وزیراعظم عمران خان کا پیغام پہنچایا جبکہ سابق موساد چیف یوسی کوہن سے
ملاقات میں ایک اہم پاکستانی شخصیت کا پیغام پہنچایا۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا
گیا کہ یہ دورہ اور ملاقاتیں متحدہ عرب امارات کے دباؤ پر کی گئیں۔ رپورٹ
میں کہا گیا کہ دونوں ممالک کا بحیرہ اسود میں امریکی نیوی کے ساتھ مشترکہ
بحری مشقوں میں حصہ لینے کا امکان ہے۔ ایک نجی ٹی وی کے مطابق اس خبر کو
ایک اور اسرائیلی اخبار کے ایڈیٹر نے بھی سوشل میڈیا پر شیئر کیا۔ دوسری
جانب وزیراعظم کے سابق معاون خصوصی ذلفی بخاری نے گزشتہ برس نومبر میں
اسرائیل کے خفیہ دورے سے متعلق سوشل میڈیا پر گردش کرتی افواہوں کی تردید
کی ہے اور ایسی تمام رپورٹس کو بے بنیاد اور احمقانہ قرار دیتے ہوئے زلفی
بخاری کا کہنا ہے کہ اپنی ساری زندگی میں کبھی اسرائیل نہیں گیا، رپورٹ میں
کیے گئے دعوے جھوٹ کا پلندہ ہیں، ان میں کوئی صداقت نہیں۔ اسرائیلی اخبار
نے جو لکھا بلاول بھٹو زرداری نے جو کہا اس بارے مکمل تحقیقات ہونی چاہیے
پاکستانی عوام کو حقائق سے باخبررکھنا حکومت کا فرض ہے ایسے وزیروں کو
پاکستان کی نمائندگی کا کوئی حق نہیں جو قومی امنگوں کے ترجمانی نہیں کرتے
یہ پاکستان کے خلاف کوئی سازش ہے یا زلفی بخاری یا مبینہ خفیہ دورہ اس کے
بارے حکومت کو فوری وضاحت کرنی چاہیے۔
|