شہروں میں بسنے والے غریب لوگوں کو بسانے کے لیے جب
ریاستوں کے پاس کوئی باضابطہ زمین کا تعین نہیں کیا گیا ہوتا توا س صورت
میں کچی آبادیاں بننا شروع ہوجاتی ہیں ،اور ان کچی آبادیوں کے تیزی سے
بڑھنے کا سبب وہاں کی مقامی حکومت کی ناکامی ہی ہوسکتی ہے کہ حکومت ان غریب
لوگوں کو بسانے کے لیے سنجیدہ نہیں ہوتی، ایسے غریب لوگ اپنے لیے چھت
ڈھونڈنے کے لیے اکثر ندی نالوں کے اردگرد ہی اپنا ٹھکانہ تلاش کرتے ہیں،جو
اس بات کی جانب واضح اشارہ ہے کہ شہر صرف امیراور صاحب حیثیت لوگوں کے لیے
ہی بسائے جاتے ہیں، اور غریب کے ہاتھ سوائے رسوائی اور زلت کے کچھ نہیں
آتااور نہ ہی انصاف کے ایوانوں میں ان کی کوئی سنوائی ہوتی ہے کراچی میں اس
وقت محکمہ انسداد تجاوازات کی اپنی رپورٹ کے مطابق 26کلومیٹر طویل گجر نالے
کے ارد گرد اور ان مکانات کے پیچھے تک کے مکانات کو مسمار کرنے کے پلان پر
تیزی سے کام ہورھاہے ،گجر نالہ نئی کراچی سے لیکر ایف سی ایریا تک پھیلا
ہوا ہے ،جس میں کوثر نیازی کالونی ،موسیٰ کالونی ،گلبرک ٹاؤن ،لیاقت آباد
،بفرزون اورگودھراجیسے علاقے شامل ہیں،ایک رپورٹ کے مطابق صرف گجر نالے کے
اطراف میں ایک لاکھ سے زائد لو گ بے گھر ہونے خدشہ ہے جن میں 21ہزار چھوٹے
بچے بتائے جاتے ہیں،صرف گجر نالے پر 6ہزار سے زیادہ گھر بتائے جاتے ہیں ،یہ
فیگرز کنفرم نہیں ہیں مگر جب ہم نظر دوڈائیں تو تاحد نگاہ مکان ہی مکان
دکھائی دینگے جو اس وقت ٹوٹ پھوٹ کے بعد زلزلہ زدہ مقامات کی شکل اختیار
کرچکے ہیں ان بے گھر ہزاروں افراد کی اپنی اپنی ایک دکھ بھری کہانی
ہے،آپکوان میں سے بے شمار ایسے لوگ ملے گئے جو مکانات ٹوٹنے کے بعد اپنی
چند چارپیوں اور کچھ برتنوں کو لیکر سڑک کے کنارے پر آبیٹھے ہیں اگر کوئی
جاکر ان لوگوں کو قریب سے دیکھے تو ان بے گھروں کے ٹوٹے گھروں کے باھر جوان
بچیوں کے جہیز تک کسی نہ کسی پیٹی یا صندوق پر رکھے دکھائی دینگے ایسا
لگتاہے کہ یہ چالیس چالیس سال سے رہنے والے لوگ کسی اور ملک کے باشندے
ہو،ان میں سے کئی ہزار لوگ ایسے ہیں جنھوں نے قانونی طورپر اپنی عمر بھر کی
کمائی لٹا کر یہ زمین یا مکانات خریدے تھے جن پر لیز تھی اور باقائدہ بجلی
اور گیس کے میٹر کئی دہائیوں سے لگے ہوئے تھے یہاں تک سرکار نے ان کو ان
گھروں کے ایڈریس پر شناختی کارڈ بناکر بھی دے رکھے تھے ،ایسے بہت سے لوگوں
کو ان کے گھروں کو گرانے کے نوٹس تک بھی نہ دیے گئے ہیں بس جھٹ سے گرادیئے
گئے اور معصوم بچے مائیں بہنیں اپنی حسرتوں اور تمناؤں کا محل کرینوں اور
مشینوں کے زریعے گرتے ہوئے دیکھتے رہے ، اس کے علاوہ محمود آباد نالے کی
کہانی یہ ہے کہ کے ایم سی حکام کے مطابق ابتدائی طورپر دو سو کے قریب
دکانیں اور56گھر مکمل گراگر 20فٹ کا نالہ اور دونوں طرف 12فٹ کی سڑک بنائی
جائے گی،کچھ یہ ہی حال کراچی کے تیسرے بڑے اورنگی نالے کا بھی ہے یہاں بھی
2ہزار کے قریب مکانات گرائے جارہے ہیں،جن غریب لوگوں نے عمر بھر ایک ایک
پائی جمع کرکے اپنے مکانات کو بنایالیزنگ کروائی اور ان گھروں کے باہر ایک
چھوٹی سی کریانے کی دکان کو بنایاتاکہ وہ اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے اس
دکان سے کچھ کما سکیں ،آج کراچی میں ایسے ہی غریبوں کی جھونپڑیوں کو زمین
بوس کرکے نئے نئے آشیانے بنانے کی اسکیموں پر کام ہورہاہے ۔سوال یہ پیدا
ہوتا ہے کہ اگر یہ سب کالونیاں واقعی ناجائز تجاوازات پر مشتعمل تھی تو کیا
اتنے سالوں تک سندھ حکومت سوتی رہی ہے،؟ اس وقت سندھ حکومت کہاں تھی جب ان
نالوں کے ارد گر د مافیا زطاقتور لوگ زمینوں پر قبضے کرکے لوگوں کو بیچ
دیتے تھے جس سے یہ بستیاں آباد ہوتی رہی ان غریبوں نے تو اپنی زندگی بھر کی
کمائی سے یہ مکانات خریدے تھے اور یہ سوچ کر خریدے تھے کہ کراچی میونسپل
کارپوریشن اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے کارندے ان بستیوں کی زمینوں کا
سودا کررہے ہیں جب ان کے گھروں کے باہر سندھ سرکار کی جانب سے بجلی اور گیس
کے میٹر نصب کیئے جاتے رہے تب کیا یہ غیر قانونی مکانات نہیں تھے ، جن
میٹرزکی مد میں ہزاروں کابل بھی لیا جاتارہا ہے ایسے میں بھلا ان کے یہ
مکان کس طرح سے غیرقانونی ہوسکتے ہیں؟۔بس ایسے ہی لاچار اور کمزور لوگوں کے
گھروں کو مسمار ہوتا ہوا دیکھ کر دل خون کے آنسو روتاہے ،اور جن مافیاز کے
کارندوں نے ان غریبوں کو لیزنگ اور جھوٹے وعدے کرکے لوٹا وہ کروڑوں اور
اربوں روپے سمیٹ کر دندناتے ہوئے پروٹوکول کے ساتھ سرعام پھررہے ہوتے ہیں
ایسے ظالم اور جابر حکمرانوں اور ان کے شاہی نوکروں پر ہاتھ ڈالنے کی کسی
میں ہمت نہیں ہوتی ،سندھ حکومت جو روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لیکر یہ تمام
چیزیں عوام سے چھین رہی ہے ، اسی سندھ حکومت کے آشیر باد سے پلنے والے
طاقتور مافیاز نے کراچی میونسپل کارپوریشن اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی
کے تعاون سے کراچی کی مہنگی ترین زمینوں اور ریلوئے کی اراضی پر قبضے کرکے
ان مقامات پر بڑے بڑے پلازے،شاپنگ مالز اور ریسٹورنٹ لاکر کھڑے کردیے ،جن
کا نیٹ ورک کبھی کینڈا تو کبھی دبئی میں بیٹھ کر چلایا جارھاہے ،یہاں تک کہ
قبضہ مافیا کے کارندوں نے قبرستانوں کو بھی نہیں چھوڑایہ بااثر لوگوں کے
آشیر باد سے چلنے والا مافیامکمل منصوبہ بندی کے ساتھ تجاوزات کا یہ
گھناؤنا کھیل سرانجام دیتارہاہے اور ماہانہ کروڑوں روپے سندھ حکومت کے
وزیروں کے بینکوں میں ٹرانسفر کردیا جاتاہے ،میرا سوال یہ ہے کہ آخر ان
لوگوں کو کب پکڑ اجائے گاآخر ان لوگوں کے خزانوں پر ہاتھ ڈال کر ان غریبوں
کے گھروں کو کیوں نہیں بنایا جاسکتا۔ جن خزانوں میں اربوں روپے موجود ہیں
جو ان غریبوں سے ہی لوٹ مار کا پیسہ ہے ،ان طاقتور مافیاز اور سرکاری
نوکروں نے اپنی منشا کے مطابق سرکاری زمینوں کی بندر بانٹ کی یہ سب کوئی کس
طرح سے آسانی کے ساتھ کرسکتاہے یقینی طور پر اس کے پیچھے ایک بڑی اور منعظم
سازش ہی کارفرما ہوسکتی ہے اور یہ بھی نہ دیکھا کہ یہ عام لوگوں کے چلنے کی
جگہ ہے یہ سروس روڑ ہے یہ پارک یا کھیل کے گراؤنڈ کی جگہ ہے جس کی بڑی مثال
کراچی کا وہ نسلہ ٹاور بھی ہے جسے گرانا کا حکم بھی صادر ہوچکاہے میں اس
بات پر اتفاق کرتاہوں کہ اگر کوئی چیز غیر قانونی ہے تو اس کے خلاف
کارروائی ضرور ہونی چاہے مگر جن لوگوں نے اپنی عمر بھر کی کمائی سے نسلہ
ٹاور کے فلیٹوں کو خریدا وہاں پر دکانیں بنوائی لیز کروایا ان بے بس اور
بدقسمت لوگوں کا کیا قصور ہے آخر ان ناجائز عمارتوں کو بنانے والوں کو کیوں
نہیں پکڑاجاتاہے ان بلڈنگوں کے نقشے کس طرح پاس ہوتے ر ہے کون ہے جو ان سب
معاملات کے پیچھے کھڑا رہا،ان طاقتور مافیاز پرہاتھ کیوں نہیں ڈالا
جاتا؟،یہ بات آسانی سے سمجھ آجاتی ہے کہ برسوں سے لگاتار تجاوزات سے آخر کس
کو فائدہ ہواہے ،میں سمجھتاہوں کہ سندھ حکومت کی بے حسی تو اب سب کے سامنے
ہے لہذاوفاقی حکومت کو ہی اس مسئلے کی جانب پہل کرنی چاہیے،جہاں ہم امیر
اور تاجر طبقوں کے لیے مختلف قرضوں کی اسکیموں پر کام کرتے ہیں وہاں ان
غریب لوگوں کی رہائش کے لیے بھی قرضوں کے پروگرام شروع کیئے جاسکتے ہیں ان
لوگوں کے لیے بھی سستے گھروں کی تعمیر کی جاسکتی ہے لگثری گھروں کی بجائے
ان غریب لوگوں کی ضروریات اور استطاعت کے مطابق گھربنائے جاسکتے ہیں کیونکہ
جب کوئی غریب آدمی اپنے لیے سر ڈھانپنے کے لیے کسی چھت کی خواہش کرتاہے تو
اس کا مقصد اس گھر کے ساتھ ایک بڑا سالان بڑے بڑے کمرے اورکام کاج کرتے
ہوئے نوکر چاکر نہیں ہوتا بلکہ اس غریب کا خواب صرف ایک کمرے کی چھت ہی
ہوتا ہے جس میں دن بھر کی مزدوری کے بعد ان بچوں کا پیٹ پال سکے۔میں آخر
میں سندھ سرکار اور ان کے وزیروں سے صرف یہ ہی پوچھنا چاہونگا کہ آپ میں سے
کوئی مجھے یہ بتا سکتاہے کہ ان غریبوں کو کوئی متبادل جگہ مل پائے گی یا
پھر ان کو سندھ حکومت نے سمندر برد کرنے کی ٹھان رکھی ہے ۔ختم شد
آرٹیکل : حنید لاکھانی
|