کچھ روز قبل جولائی کی پانچ تاریخ گزری ہے .اس تاریخ کے
پاکستان پر ایسے گہرے اور دردناک نقوش ہیں کہ شاید ہی کوئی پاکستآنی ہو جو
اسکے اثرات سے بچا ہو یہ سن ستتر کی پانچ جولائی تھی جس نے ملک خدا داد کے
چہرے پر آمریت کی نحوست کے انمٹ داغ لگا دیے گو کہ اس نحوست سے پاکستان
پہلے بھی دو بار گزر چکا تھا مگر پانچ جولائی سن ستتر کی فوجی آمریت نے
گیارہ سال میں جو زہر کے بیج بوۓ وہ آئیندہ آنے والی تین نسلوں نے کاٹے اور
نہ جانے ابھی یہ سلسلہ کہاں تک جانا ہے
اس بلاگ کو لکھنے کا مقصد ضیا آمریت کے نازل ہونے کی وجوہات یا اس پھر اسکے
پاکستانی عوام پر بد اثرات کو اجاگر کرنا نہیں حالنکہ یہ کام ان تمام لوگوں
کا فرض تھا جو قلم کارہیں، تاریخ کو بیان کرنا جانتے ہیں اورپھر ان گیارہ
برسوں کے عینی گواہ بھی رہے ہیں ، اسکے ساتھ ساتھ اسکرینوں پر بیٹھے ان
تمام "سینئیر تجزیہ کار" بمعہ اپنی صحافت کے جھنڈے ہمارے لاؤنجز میں گاڑتے
سب کے سب صحافیوں کو بھی ضیا فوجی آمریت کا حال دہرانا ہی چاہیے مگر فالحال
ایسا نہیں ہورہا . میرے اس بلاگ کا موضو ع ضیا آمریت کے بد اثرات نہیں بلکہ
ان اثرات کو نظر انداز کرنے کا خمیازہ ہے جو نئی نسل بھگت رہی ہے
اس سال پانچ جولائی کو پاکستان کے ایک جانے مانے صحافی جنکو" صحافی" کہتے
کم از کم مجھے کبھی سوچنا نہیں پڑتا انہوں نے ایک بہت ہی دلچسپ پروگرام
تیار کیا ویسے تو پبلک سے آراء لینے والا ہر شو ہی بہت دلچسپ ہوتا ہے مگر
مطیع اللہ جان کا یہ شو "دلچسپ" تو تھاہی مگر قومی شرمندگی کا با عث بھی
تھا
مطیع اللہ جان نے فیصل مسجد اسلام آباد کے احاطے سے یہ شو کیا اور وہاں
موجود عوام سے ایک سادہ سا سوال پوچھا کہ احاطے میں یہ "کس کی قبر ہے" ؟
اورپھرضیا الحق کے نام بتانے کے ساتھ ہی مزید سوال و جواب. مزید سوالات بہت
ہی برجستہ تھےاور جوابات سے ہی منسلک تھے
قارئین یقینن جانتے ہونگے کہ شہر اقتدار کی آبادی کی اکثریت شہری اور
خواندگی کا تناسب پاکستان میں سب سے زیادہ ہے مگر کیوں کہ فیصل مسجد ایک
سیر کی جگہ تصور کی جاتی ہے اس لیے ہم فرض کر لیتے ہیں کہ شو کے دوران عوام
کا کم پڑھا لکھا طبقہ بھی یھاں سیر کے لیے موجود تھا
مطیع اللہ جان کے سوال " احاطے میں کس کی قبر ہے "کا جواب تو اکثریت نے
درست بتا دیا کہ قبر ضیاالحق کی ہے مگر جس چیز کی کمی تھی وہ پاکستان کی
سیاست اور تاریخ سے جڑی عام معلومات تھی اور اس قسم کی عام معلومات کو حاصل
کرنے کا زریعہ یقینن ان پچپن ساٹھ نیوز چینلز کو ہونا چاہیے تھا جو سن ٢٠٠٢
سے مسلسل چوبیس گھنٹے چلتے ہیں ، ہر گھنٹے پر خبریں قومی زبان اردو میں
ہوتی ہیں ہر چینل پر کم از کم تین اور زیادہ سے زیادہ پانچ ٹاک شوز کیے
جاتے ہیں اور سب کے سب ان چوبیس گھنٹوں میں نشر مکرر پیش کیے جاتے ہیں ان
پر بیٹھے سقراط ، بقراط اور افلاطون اپنے کو ایسی اعلی مخلوق سمجھتے ہیں کہ
سوشل میڈیا پر انکی شان میں ہلکی پھلکی گستاخی بھی ہوجاۓ تو یہ ایسے "
گستاخ " کو دوسرا موقع نہیں دیتے اور بلاک کر کے بھول جاتے ہیں اور تو اور
اسکرینوں سے اٹھ کر سیدھا اپنے یوٹیوب چینلز پر پہنچتے ہیں تاکہ روپے میں
ملتی لاکھوں کی تنخواہ میں ڈالرز بھی شامل کر سکیں یہ انکی لالچ کی انتہا
ہے مگر انکی ان سب " آنیوں جانیوں " کا حاصل وصول یہ ہے کہ وہ طبقہ
جومکانوں ، دکانوں سے جھونپڑیوں تک اور ٹی وی اسکرینوں سے اپنے موبائلوں تک
انکو دیکھتا اور سنتا ہے وہ ضیا کے بارے میں یہی جانتا ہے کہ " جرنیل ضیا
کو پھانسی دی گئی تھی"
اس بلاگ کے ذریعے میرا سوال ان تمام تجزیہ کاروں، صحافیوں اور اینکرز سے یہ
ہے کہ سن ٢٠٠٢ سے سن ٢٠٢١ تک آپ نے کیا کیا ؟؟ مطیع اللہ جان کے شو میں
اکثریت نوجوانوں کی تھی جن کا علم اپنے ہی ملک کی تاریخ کے بارے میں اگر
صفر نہیں تھا تو منفی ایک ضرور تھا سو اسکرینوں میں جلوہ افروز یہ خواتین و
حضرات پچھلے انیس ، بیس برسوں میں نئی نسل کے علم میں کیا اضافہ کر سکے ؟
نوجوان افراد نہ صرف پاکستان تاریخ سے انجان تھے بلکہ نظریاتی طور پر
تقریبا بے سمت تھے انکو نہ جمہورت اور آمریت کا فرق پتہ تھا نہ ہی غاصب اور
منتخب کا! ضیا کو ایک ساتھ آمر اور ملک کا وزیراعظم بتا رہے تھےاور کبھی
بغیر داڑھی کا اسلام نافذ کرنے والا مجاہد اسپرسوال کیا جاتا کہ ایسا کیسے
ہوسکتا ہے تو جواب ندارد. اس پروگرام میں کچھ استاد بھی فیصل مسجد میں سیر
کی غرض سے موجود تھے انکے جوابات سے یہ تو پتہ چل رہا تھا کہ انکا نالج کچھ
بہتر ہے مگر جس طرح وہ مطیع کے سوالات کو ٹال رہے تھے صاف اندازہ ہورہا تھا
کہ ایک خوف ہے جو انکو بہت کچھ بتانے سے روک رہا ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ
جہالت اور کم علمی پھیلانے میں خوف کو بھی ھتیار کے طور پر استعمال کیا
جاتا رہا ہے اور اس " خوف " کے تدارک کے لیے بھی علم ، آگہی اور سیاسی شعور
چاہیے ہوتا ہے مگر چوبیس گھنٹے اپنے کو معاشرے کا خود ساختہ جج سمجھنے والے
بھی اس خوف کے سامنے ویسے ہی ڈھیر ہیں جیسے وہ سیاستدان جن پر یہ " خود
ساختہ جج " انگلیاں اٹھاتے ہیں
کسی استاد کی مضمون میں دسترس اسکے شاگرد کو جانچ کر پتہ چلتی ہے اسی طرح
عوام کی اپنے ہی ملک کی تاریخ سے لاعلمی ہمارے نیوز میڈیا پر بیٹھے صحافیوں
اور تجزیہ کاروں کی نالائقی اور نااہلی کا قصّہ سنا رہی ہے انکو لاکھوں کی
تنخواہ اگر میڈیا ہاؤس کے مالک کو خوش کرنے کی ملتی ہے تو انکے لیے بہت
بہتر ہوگا کہ میڈیا مالک کے گھریلو ملازم بن جائیں نہ کہ عوام میں جہالت
اور جھوٹ پھیلائیں. آج کے پاکستان میں چلتے ان سینکڑوں چینلز سے تو بہت
بہتروہ "سرکاری چینل " تھا جو ایک تھا مگر کم از کم اتنا نیک ضرور تھا کہ
ہم بچے اسکو حکومت کا چمچہ سمجھ کر بی بی سی ، وایس آف امریکہ ، سی این این
،انٹرنیشنل اور نیشل اخبارات سے خبریں کھوجتے تھے اور اپنے علم میں اضافہ
کرتے تھے جبکہ یہ " نجی " اور "آزاد " کہلانے والے چینلز چلانے والے میڈیا
ہاوسز خود تو "حرام " کھآتے ہی ہیں عوام کو بھی اتنا "ھڈ حرام " بنا دیا ہے
کہ جو جھوٹی خبریں ، مصالحے بھرے واقعات، مرغے لڑانے کی ترکیبیں اوریوٹیوب
چینلزپرگھٹیا ہیڈنگز کی بھرمار دیکھ کرمطمین ہوجاتے ہیں کہ ہم نے اپنےتئیں
ملکی سیاست اور اسمیں استعمال مہروں کو جان بھی لیا اور پہچان بھی لیا مگر
حقیقت یہ ہے کہ نیوز چینلز کہلانے والی یہ" دکانیں" عوام کو پاکستان کی
سیاسی اور قومی تاریخ بتانے میں مکمل ناکام ہیں یہاں سواۓ "کتے ، ریچھ اور
مرغے" لڑانے اور سیاسی تاریخ کو مسخ کرنے والوں کے بوٹ چمکانے کے کوئی کام
نہیں ہوتا یقینن تاریخ لکھنے والے پاکستان کے اس دور کو قومی زندگی کا
المیہ لکھیں گے کہ جب چوبیس گھنٹے چلتے سینکڑوں نیوز چینلز کی موجودگی میں
کوئی با ہوش وحواس شخص مائیک اورکیمرے کےسامنےکھڑا ہو کرکہےکہ جرنیل ضیا
کوغدارکہا گیا تھا اور یہ کہ "جرنیل ضیا کو پھانسی پرلٹکا دیا گیا تھا" ۔
|