وزیر اعظم کا دورہ ڈھاکہ٬ علاقائی تعاون کی جانب پیش قدمی

نئی دہلی اور ڈھاکہ میں کل (4جولائی) یہ اعلان کیا گیا کہ وزیرا عظم ہندڈاکٹر من موہن سنگھ 6، 7ستمبرکو بنگلہ دیش کا دورہ کریں گے۔ایک دوسری خبر یہ ہے کہ یو پی اے چیرپرسن سونیا گاندھی 25 جولائی کو ڈھاکہ جارہی ہیں۔ شیخ حسینہ واجد کی دختر صائمہ واجد نے پرینکا وڈھیرا گاندھی کوبھی دعوت دی ہے کہ وہ اپنی والدہ کے ساتھ ڈھاکہ آئیں۔ وزیر اعظم کے دورے کی تیاری کےلئے وزیرخارجہ ایس ایم کرشنا 6، 7 جولائی کو وہاںجارہے ہیں۔ پانچ منتخب صحافیوں سے اپنی حالیہ ملاقات کے دوران وزیر اعظم نے ہند بنگلہ دیش تعلقات پر اظہار خیال کرتے ہوئے ایک نجی تبصرے میں، جو شائع نہیں کیا جانا تھا، یہ کہا تھا کہ ایک چوتھائی بنگلہ دیشی ہند مخالف ہیں۔ انہوں نے خاص طور سے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کا نام لیا تھا، جس نے متحدہ پاکستان کے حق میں قربانیاں دی تھیں اور قومیت کی بنیاد پر ایک اور ملک (بنگلہ دیش )کے قیام کے خلاف تھی۔ انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ جماعت کے آئی ایس آئی سے روابط ہیں۔ ان کے اس بیان کو خود انکے آفس نے ویب سائٹ پر ڈال دیا جس کے بعد خاصی فضیحت ہوئی اور ایک نئی تلخی کا سبب بنی۔ وزیر اعظم اور یوپی اے چیرپرسن کے دورہ بنگلہ دیش کے اعلان کے بعد میڈیا میں یہ قیاس لگایا جانے لگا کہ مجوزہ دوروں کامقصد اسی تلخی کو ختم کرنا ہے۔ لیکن وزیر خارجہ نے بجا طور پراس نظریہ کی تردید کردی اور کہا کہ وزیر اعظم کے دورہ عرصہ سے زیر غور تھا۔ظاہر ہے دورے کے تاریخ ایک دو دن میںطے نہیں ہوگئی۔شیخ حسینہ واجد جنوری 2009 میں جب ہند آئی تھیں تب وزیراعظم کو اس دورے کی دعوت دے گئی تھیں۔ دس سال کی طویل وقفہ کے بعد ہند کے وزیر اعظم کایہ دورہ خاص اہمیت کا حامل ہے۔

ہند بنگلہ دیش تعلقات میں بعض وجوہ سے ویسی گرم جوشی نہیں رہی جیسی ہونی چاہئے تھی،حالانکہ اس کے قیام میں ہند نے کلیدی رول ادا کیا تھا ۔اس کے کچھ تاریخی اسباب ہیں۔ 16دسمبر1971 کو سقوط ڈھاکہ کے وقت شیخ مجیب الرحمٰن پاکستان میںقید تھے۔ جنرل یحیٰ کی حکومت نے ان کو لندن میں لیجا کر رہا کیا ۔ رہائی کے بعد سیدھا ڈھاکہ جانے کے بجائے وہ دہلی رکے تاکہ بنگلہ دیش تحریک میں اندرا گاندھی حکومت کے سرگرم تعاون کےلئے اپنی ممنونیت کے اظہار کرسکیں۔لیکن اس سفر کےلئے طیارہ فراہم کرنے کی ہند کو پیش کش کونا منظورکرکے انہوں پہلے ہی دن یہ پیغام دیدیا تھا کہ نوزائدہ بنگلہ دیش ہند کی دوستی اور مدد کی تو قدر کرتا ہے، لیکن اقوام عالم میں ایک آزاد اور خود مختار مملکت کی حیثیت سے سر اٹھاکر چلنا چاہتاہے۔شاید ان کا یہ انداز فکر ساﺅتھ بلاک میں افسران کے گلے نہیں اترا۔ چنانچہ شیخ مجیب الرحمٰن کے دور میں ہی تعلقات میں شکر رنجی در آنے لگی۔ حتٰی کہ انہوںنے ہند کے خفیہ ذرائع کی اس رپورٹ کو بھی مذاق جانا کہ فوج میں ان کے قتل کی سازش رچی جارہی ہے۔خوشی کی بات یہ ہے ڈاکٹر من موہن سنگھ کے دورحکومت میں ساﺅتھ بلاک میں نظریہ بدل رہا ہے اورپڑوسی ممالک کے ساتھ پالیسی ترجیحات میں مثبت تبدیلی آرہی ہے ۔ یوپی اے چیرپرسن اور خود وزیر اعظم کا دورہ ڈھاکہ اسی مثبت تبدیلی کا نتیجہ ہے۔

ہمارے پالیسی سازوں کے انداز فکر کی وجہ سے ہی بشمول نیپال، سری لنکا، بنگلہ دیش اور پاکستان کسی بھی پڑوسی ملک کے ساتھ ہمارے رشتے پُراعتماد نہیں رہے۔پاکستان کے ساتھ تلخیوں کے توکچھ تاریخی اسباب بھی ہیں، مگر بنگلہ دیش کا معاملہ قطعاً متضاد اور مختلف ہے۔ ایک نوزائدہ اور کمزور پڑوسی ہونے کے ناطے شاید بنگلہ دیش کی ہند سے توقعات کچھ زیادہ تھیں، اسی طرح بنگلہ دیش کے قیام میں اپنے رول کے عوض ہماری توقعات بنگلہ دیش کی اس فکر سے ہم آہنگ نہیں ہوسکیں جس کا اظہار شیخ مجیب نے اول دن ہی کردیا تھا، جس کا ذکر اوپر آیا۔ہمارے حکمرانوں کو غور کرنا چاہئے کہ 1948میں ہمارے جو کشمیری بھائی پاکستانی دراندازوں کے مقابلے میں ہندستانی افواج ساتھ آہنی دیوار کی طرح کھڑے ہوگئے تھے وہ رفتہ رفتہ ہم سے دور کیوں ہوتے چلے گئے؟وہ نیپالی جو الگ ملک ہونے کے باجودمذہبی ، قومی،ثقافتی ، سماجی ،معاشی اعتبار سے عملاً ہندستانی قوم کا حصّہ رہے ہیں، ہم پر شک کیوں کرنے لگے؟ شاید اس لئے کہ نارتھ بلاک ہو چائے ساﺅتھ بلاک، داخلی معاملہ ہو، چاہے خارجی، ہمارے پالیسی ساز وں کے ذہن برطانوی سامراجی سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں ۔ وہ بالادستی اوربرتری قائم کرنے کے فکر مند تو رہتے ہیں،لیکن رعایت ، برابری اور اعتمادکے رشتے قائم کرنے کی ضرورت کو نہیں سمجھتے۔رہی لیپا پوتی تو وہ ناپائدار ہوتی ہے۔

بنگلہ دیش کے ساتھ ہمارے کئی تنازعات مفروضہ ہیں اورکئی اپنی اصل حقیقت سے بڑھا چڑھاکر پیش کئے جاتے ہیں۔ مثلاً خالدہ ضیاءکے دورمیں ہماری ’خفیہ ایجنسیوں‘ کا اس الزام پربڑا اصرار رہا ہے کہ بنگلہ دیش سے ’اسلامی دہشت گردی‘ ہند میںپھیلائی جارہی ہے یا شمال مشرقی ریاستوں میں شورش اورسرکشی کے خطاکار بنگلہ دیش میں پناہ لئے ہوئے ہیں ۔ ایک مدت تک ’حوجی‘ کا نام پولیس اور ’خفیہ ایجنسیوں‘ کی زبان پر ایسا چڑھا رہا کہ جہاں کوئی دھماکہ ہوا فوراً ’حوجی ‘ کا ہاتھ نظرآنے لگا۔ مثال کے طورمکہ مسجد حیدرآباد میںدھماکے کے دوسرے ہی دن(19 مئی 2007) کو حیدرآباد پولیس کے حوالہ سے ایسی تفصیل کے ساتھ، جیسے کوئی آنکھوں دیکھی سنارہا ہو، بنگلہ دیش سے ’حوجی‘ کے’سرغنہ‘ بلال کا ہاتھ ہونے کی خبرآئی، جس میں وثوق سے دعوا کیا گیا تھا کہ بلال وہیں سے اس کاروائی کوکنڑول کررہا تھا ۔ اسی طرح سمجھوتہ ایکسپریس ، ممبئی دھماکوں اور دیگر کئی گھناﺅنی دہشت گردانہ حرکتوں کےلئے بڑی قطعیت کے ساتھ ’حوجی‘ کا نام لیا جاتا رہا، اور بنگلہ دیش کو کٹ گھرے میں کھڑا کیا جاتا رہے مگر بعد کی تفتیش سے پتہ چلا کہ یہ ساری حرکتیں سنگھی دہشت گردوں کی تھیں۔ جن ’خفیہ ایجنسیوں‘ نے فرضی کہانیاں گھڑیں ان کی ترجیحات میں خارجہ تعلقات میں خوشگواری نہیں ، پڑوسی کو دباﺅ میں رکھنا شامل تھا۔

ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ غیر قانونی طور سے بنگلہ دیشی ہند آجاتے ہیں اور پورے ملک میںپائے جاتے ہیں۔ آسام میں آباد ہر بنگلہ بولنے والے مسلمان کو بنگلہ دیشی قرار دیدیا جاتا ہے۔ جہاں تک دراندازی کا سوال ہے، ہندبنگلہ دیش سرحد تقریبا 4ہزارکلومیٹر لمبی ہے اور بہت سے مقامات پراس طرح کھلی ہے کہ کوئی بھی ادھر سے ادھر پیدل آجا سکتا ہے۔ سرحدوں پر تعینات حفاظتی دستے اسمگلروں اور دراندازوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ اگر ہم خود سرحدوں کی مکمل چوکسی کرنے سے قاصر ہیں اور خود اپنے ملک میں روپوش ہزاروں مطلوبہ افراد کو ہماری اپنی پولیس تلاش کرنے میںناکام ہے تو کسی پڑوسی سے یہ مطالبہ حق بجانب نہیںہوسکتا کہ وہ ہمارے مطلوبہ افراد کو پکڑ کر ہمارے حوالے کردے، خصوصاً ایسی صورت میں جب کہ خود ہماری اپنی ’مطلوبہ افراد ‘ کی فہرست مشکوک ثابت ہوچکی ہے۔اس طرح کے پروپگنڈے سے بد اعتمادی اورعوام میںناراضگی فطری ہے۔ وزیر اعظم کا یہ بیان حقیقت کا عکاس ہے بنگلہ عوام میں ہند کے خلاف جذبات پائے جاتے ہیں۔دیکھنا یہ چاہئے کہ اس کےلئے قصوروار کون ہے؟ بنگلہ دیش یا خود ہماری افسر شاہی؟

ڈاکٹرمن موہن سنگھ کی رہنمائی میں اب نئی دہلی میںجو نیا انداز فکر ابھر رہا ہے اس میں محاذ آرائی ترک کرکے مفاہمت، تعاون اور خیرسگالی کے امکانات کو برتری حاصل ہے۔ اس کی اساس دوطرفہ اورعلاقائی اقتصادی و معاشی تعاون پر قائم ہے۔بنگلہ دیش میں گزشتہ چند برسوں میں جمہوری نظام مستحکم ہوا ہے ۔اس کے نتیجے میں ملک کی اقتصادی نمو کی شرح 6% تک پہنچ گئی ہے ۔ دوسر ی طرف ہند کی معیشت بھی ترقی پذیری کے دور سے آگے نکل چکی ہے ۔ اس لئے دونوں کے درمیان تعاون کے امکانات بہت روشن ہیں اور دونوں ایک دوسرے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ عالمی صورت حال میں بھی حالیہ چند برسوں میں بڑی تبدیلی آئی ہے۔عالمی اور علاقائی سطح پر سرد جنگوں کا دور ختم ہوگیا ہے اور تنازعات کو پس پشت ڈال کر باہم تعاون کارجحان بڑھ رہا ہے۔ ایک زمانہ تھاجب ہند روس کے زیادہ قریب تھا، پاکستان خود کو امریکا سے قریب تصور کرتا تھا اور چین سے بھی اس کے روابط گہرے تھے۔ہند کے ساتھ رشتوں میں گھٹاس سے فائدہ اٹھاکر چین بنگلہ دیش او رنیپال کے قریب آگیا۔اب یہ رشتے بدل رہے ہیں۔ ہند پاکستان کے مقابلے امریکا کا زیادہ بڑا شریک بن گیا ہے۔سرحدی تنازعہ کے باوجود چین سے ہند کے اقتصادی اور تجارتی رشتے مستحکم ہورہے ہیں۔اسی طرح ہندپاکستان کے ساتھ رشتے مضبوط کرنے کےلئے کوشاں ہے۔گزشتہ چند برسوں میں چین نے جنوب مشرقی ممالک کے ساتھ تجارتی ، صنعتی تعلقات کو مضبوط کرلیا ہے اور ریل رابطے بھی قائم کرلئے ہیں۔ اب ہندستان کوفکر ہے کہ بنگلہ دیش کے راستے اس کو ایسی راہداری مل جائے جس سے برما ، تھائی لینڈ وغیرہ جنوب مشرقی ممالک تک اسے بھی رسائی حاصل ہوجائے اور اس خطے میں اس کی تجارت بڑھے۔

اسی نئی فکر کے تحت ہند نے سارک ممالک کے درمیان تعاون میںفروغ کی ایک نئی پہل کی ہے،جس کا اعلان وزیر اعظم نے خود تھمپوکانفرنس میں کیا تھا۔ اسی پہل کے تحت بنگلہ دیش سمیت چار کم ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ اس نے سامان تجارت کو ایک طرفہ طور پرڈیوٹی فری کردیا ہے۔ ساتھ ہی سارک ترقیاتی فنڈ کو بھی حتمی شکل دیدی ہے، جس سے ان ممالک کے پروجیکٹوں میں سرمایہ کاری آسان ہوگی۔اس پس منظر میں سونیا گاندھی کا مجوزہ دورہ اس اعتبار سے اہم ہے کہ اس سے شیخ حسینہ واجد اور گاندھی خاندان کے رشتوں میںتازگی آئے گی اور وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کے دورے سے امید ہے کہ مشرق کی جانب پیش رفت کا ایک نیادروازہ کھلے گا۔ اگر جنوب مشرقی ممالک کے ساتھ راہ داری کا مسئلہ حل ہوگیا تو اس کے دوررس اثرات ان کوششوں پر بھی پڑیں گے جو ہند اپنے مغربی پڑوسی ملک پاکستان کے ساتھ تعلقات کی استواری کےلئے کررہا ہے۔(ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 180667 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.