پاکستان میں جون بجٹ کے مہینے کے طور پر جانا جاتا ہے جس
میں حکومت اپنے آئندہ مالی سال کیلئے کی جانیوالی معاشی پلاننگ کیساتھ ساتھ
معاشی ترقی کے اہداف مقرر کرتی ہے۔بجٹ کی اہمیت سے کسی بھی طور پر انکار
ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ ایک ایسی دستاویز ہے جو حکومت کی جانب سے عوامی
فلاح و بہبود کیلئے کیے جانیوالے فیصلوں کی عکاس ہوتی ہے۔کسی بھی حکومت کے
بجٹ کو دیکھ کر یہ تجزیہ کیا جاسکتا ہے کہ آنیوالے مالی سال کے دوران معیشت
کس رفتار سے ترقی کریگی اور ایک عام شہری کی زندگی پر اسکے کس حد تک مثبت
یا منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔بجٹ عمومی طور پر تکنیکی زبان پر مشتمل ایک
ایسی دستاویز ہوتی ہے جسے افسر شاہی خفیہ دستاویز گردانتی ہے کہ جیسے اس کے
اعدادوشمارکا عام شہریوں تک پہنچنا شاید غداری کے مترادف ہوگا اور اس پر
مستزاد یہ کہ بجٹ کو انتہائی مشکل اور تکنیکی زبان میں تیار کیا جاتا
ہے۔اعدادوشمار کے اس گورکھ دھندے کو سمجھنا عام پاکستانی کے بس کی بات نہیں
ہے شاید یہی وجہ ہے کہ شہری اس اہم ترین دستاویز کے حصول میں کسی قسم کی
کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کرتے اورنہ ہی افسر شاہی نے کبھی یہ کوشش کی ہے کہ
اس مشکل دستاویز کو آسان اور عام فہم انداز میں لوگوں تک پہنچایا جائے تاکہ
بجٹ جیسی اہم دستاویز میں دلچسپی رکھنے والا شہری نہ صرف اس کو سمجھ سکے
بلکہ اس پر اپنی رائے قائم کر سکے۔
موجودہ وفاقی حکومت کی جانب سے گذشتہ ماہ تیسرا بجٹ پیش کیا گیا جس پر
مختلف حلقوں کی جانب سے مثبت اور منفی تبصرے جاری ہیں۔دلچسپ پہلو یہ ہے کہ
حکومتی نمائندے اور کچھ معاشی ماہرین اس بجٹ کو عوام دوست اور ملکی معیشت
کیلئے بہترین بجٹ جبکہ اپوزیشن سمیت کچھ معیشت دان اسے ملک کیلئے زہر قاتل
قراردیتے نظر آتے ہیں۔مختلف چینلز پر جس قسم کی بحث کی جاتی ہے اور اس قدر
اعدادوشمار پیش کیے جاتے ہیں وہ کسی بھی عام شہری کی سمجھ سے بالاتر ہوتے
ہیں جس کامطمع نظر صرف اورصرف اپنے خاندان کیلئے دووقت کی روٹی اور دیگر
بنیادی ضرورت کو پورا کرنا ہوتا ہے۔آپ تصور کریں کہ جب ایک عام پاکستانی
اپنے وزیر وں،مشیر،اپوزیشن رہنماوں سمیت مختلف معاشی ماہرین کو اپنی ائر
کنڈیشنڈ گھروں اورگاڑیوں سے آرام دہ سٹوڈیوز میں مشکل ترین اعدادوشمار پر
بحث و مباحثہ کرتے دیکھتا ہوگا تو اسے کیا محسوس ہوتا ہوگا۔یہ وہ سوال ہے
جو ہمیشہ میرے دماغ میں گھومتا رہتا ہے کہ ایک پر تعیش زندگی گذارنے
والاشخص اس عام آدمی کو درپیش مسائل بارے آخر کس حد باخبر ہوسکتا ہے ۔
موجودہ حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے بجٹ میں شامل چند اہم ترین شعبہ جات
کا تجزیہ کیا جائے توحکومتی ترجیحات اور سمت بارے جاننا کسی حد تک ممکن ہو
سکے گا۔شعبہ صحت کیلئے21,723ملین روپے مختص کیے گیے جو سابقہ مالی سال میں
مختص14,508ملین روپے کے مقابلے میں7,215ملین روپے زیادہ ہیں جو متاثر کن
اضافہ ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سابقہ مالی سال کے دوران صحت
کیلئے مختص رقم100فیصد خرچ کی گئی ہے جبکہ سال 2017-18میں 51,051ملین روپے
کی مختص شدہ رقم میں سے صرف28,728ملین روپے، مالی سال2018-19 میں29,999ملین
روپے مختص کردہ رقم میں سے صرف4,257ملین روپے اورمالی سال2019-20کے دوران
مختص کردہ12,671ملین روپوں میں سے صرف8,134ملین روپے خرچ کیے گئے۔ سابقہ
مالی سال2020-21 میں شاید کوویڈ- 19کی وبا نے حکومت کو 100فیصد بجٹ خرچ
کرنے پر مجبور کیا ہے۔مندرجہ بالا رحجان یہ بتاتا ہے کہ حکومت اس اہم ترین
شعبہ کو کس حد تک اہمیت دیتی ہے اور صرف ایمرجنسی یا کسی بھی وبا یاآفت کی
صورت میں ہی بجٹ خرچ کیا جاتا ہے حالانکہ صحت جیسے اہم شعبہ میں بتدریج
بہتری لائی جانی چاہیے نہ کہ کسی آفت یا وبا کا انتظارکیا جائے تاکہ شہریوں
کو علاج معالجہ کی بہترین سہولیات میسر آسکیں۔
شعبہ تعلیم میں حالیہ پیش کیے گئے بجٹ میں سابقہ مالی سال کی نسبت زیادہ
رقم رکھی گئی ہے ۔ترقیاتی بجٹ میں شعبہ تعلیم کیلئے47,570ملین روپے مختص
کیے گئے جو سابقہ سال کی نسبت13,335ملین روپے زیادہ ہیں۔موجودہ حکومت نے
اپنے تین سالہ دور حکومت میں شعبہ تعلیم کیلئے مختص ترقیاتی بجٹ کا بیشتر
حصہ خرچ کیا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ رواں مالی سال میں اس شعبہ کوسابقہ
سال کی نسبت 39فیصد زیادہ بجٹ دیا گیا ہے۔سابقہ تین سالوں کے اعدادوشمار پر
نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ سال2018-19میں ترقیاتی بجٹ کا صرف56فیصد خرچ
کیا گیا لیکن مالی سال2019-20 میں 91فیصداورمالی سال2020-21میں97فیصد خرچ
ہوا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت تعلیم کے فروغ کیلئے کس حد تک سنجیدہ
ہے۔
موجودہ حکومت کی جانب سے ہائر ایجوکیشن کمیشن کو خاطر خواہ فنڈز فراہم کیے
جارہے ہیں مالی سال 2021-22میں اس شعبہ کیلئے42,450ملین روپے مختص کیے گئے
ہیں جو سابقہ مالی سال کیلئے مختص شدہ رقم29,470ملین روپے کے مقابلے میں
54فیصد زائد ہیں۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ مالی سال2019-20میں اس شعبہ پر مختص
شدہ رقم کا92فیصدجبکہ سال2020-21میں 100فیصد ترقیاتی بجٹ خرچ کیا گیا جوکہ
خوش آئند ہے اور اس رحجان کو دیکھتے ہوئے بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ
مالی سال کے دوران بھی یہ سلسلہ جاری رہیگا۔
جب سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی ہے اس نے شعبہ موسمیاتی
تبدیلی کو نہ صرف اہمیت دی ہے بلکہ گذشتہ تین سالوں سے اس اہم شعبہ کیلئے
خطیر رقم مختص کی جارہی ہے اگرچہ سابقہ حکومتوں کی جانب سے اس اہم ترین
شعبہ کو ہمیشہ ہی نظر انداز کیا گیا اورسال 2013-14سے 2018-19تک کل ترقیاتی
بجٹ کاصرف 0.1فیصد سے بھی کم حصہ اس شعبہ کیلئے مختص کیا جاتا رہا ہے جس
میں سے بیشتر خرچ بھی نہیں کیا گیا لیکن موجودہ حکومت نے اس شعبہ کی اہمیت
کو سمجھتے ہوئے نہ صرف مالی سال2019-20 میں اس شعبہ کیلئے 7,579ملین روپے
مختص کیے بلکہ اس کا99.92فیصد حصہ خرچ بھی کر دیا اسی طرح مالی
سال2020-21میں اس شعبہ پر5000ملین روپے خرچ کیے گئے اور موجودہ مالی
سال2021-22میں اس شعبہ کیلئے14,327ملین روپے مختص کیے گئے ہیں جو سابقہ سال
کی نسبت186فیصد زائد بنتے ہیں۔یہ اقدامات حکومت کی جانب سے موسمیاتی تبدیلی
جیسے شعبہ کی اہمیت کو سمجھنے کا واضح ثبوت ہے سابقہ دو سالوں میں ترقیاتی
بجٹ کا خرچ کیا جانا بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس مالی سال کے دوران بھی یہ
مختص رقم خرچ کر دی جائیگی جو کہ ایک خوش آئند اقدام ہوگا۔
گذشتہ دو سالوں کے دوران آبی ذرائع جیسے اہم شعبہ پر ترقیاتی بجٹ کے
اخراجات سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت ملک میں پانی کے ذخائر میں اضافہ
کیلئے سنجیدگی سے کوشاں ہے اور اگر بجٹ کے اعدادوشمار کو دیکھا جائے تو
سال2019-20میں اس شعبہ کیلئے85,021ملیں روپے مختص کردہ رقم کا88فیصد
یعنی74,087ملین روپے خرچ کیے گئے جبکہ مالی سال2020-21میں اس شعبہ
کو81,250ملین روپے فراہم کیے گئے جو 100فیصد خرچ کر دیے گئے اسی طرح رواں
مالی سال2021-22میں اس شعبہ کو103,473ملین روپے دیے گئے ہیں جوکہ سابقہ سال
کی نسبت27فیصد زیادہ ہیں۔سابقہ سالوں میں ترقیاتی فنڈز کا بھرپور استعمال
اور مختلف ڈیمز پرجاری کام کی رفتار حکومت کی اس اہم ترین شعبہ سے متعلق
ترجیحات نمایاں کرتی ہے اور اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت آبی ذرائع
کی تعمیر میں کس حد تک سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
رواں مالی سال2021-22میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی کیلئے مختص113,750ملین روپے
کی رقم کے علاوہ شعبہ مواصلات کیلئے 451ملین روپے مختص کیے گئے ہیں جوکل
وفاقی ترقیاتی بجٹ کا 0.04فیصد بنتے ہیں اور یہ رقم سابقہ مالی سال کیلئے
مختص شدہ بجٹ سے 76فیصد زیادہ ہے جو سال2020-21 کے دوران100فیصد خر چ کردی
گئی۔ اس شعبہ کے ترقیاتی بجٹ میں اضافہ سے ملک بھر میں ہائی ویز کی صورتحال
بہتر ہوتی نظر آرہی ہے جس سے لوگوں کو سفر کی بہتر سہولیات میسر آئیں گی۔
اسکے ساتھ ساتھ وفاقی ترقیاتی بجٹ کا کل حجم900ارب روپے ہے جو سابقہ مالی
سال کی نسبت38فیصد زائد ہے جس سے ملک بھر میں ترقیاتی منصوبوں کے آغاز اور
تکمیل میں تیزی آنے کیساتھ ساتھ غریب اور مزدور طبقہ کیلئے روزی روٹی کا
سامان مہیا ہو سکے گا۔
ٹیکس وصولی کے حوالہ سے اگر سابقہ سالوں کے اعدادوشمار کا جائزہ لیا جائے
تو یہ بات دیکھی جاسکتی ہے کہ اس میں بلواسطہ ٹیکسز کی وصولی کی شرح سب سے
زیادہ ہے سال 2018-19 میں ایف بی آر کی جانب سے وصول شدہ4150ارب روپے میں
بلواسطہ ٹیکسز کی رقم2491ارب روپے تھی ،سال2019-20میں وصول شدہ 3908ارب
روپے میں یہ رقم2285ارب روپے رہی جبکہ مالی سال 2020-21میں کل وصول شدہ
4690ارب روپے میں سے2902ارب روپے بلواسطہ ٹیکس کی شکل میں حاصل کیے گئے۔ جو
کل ٹیکس وصولی کا بالترتیب60فیصد،58فیصد اور61فیصد بنتاہے۔یہ اعدادوشمار
بھی یہ ظاہر کررہے ہیں کہ حکومت کی جانب سے ڈائریکٹ ٹیکس کی بجائے ان
ڈائریکٹ ٹیکس وصولی کو ہمیشہ ترجیح دی گئی ہے۔حیران کن بات یہ ہے کہ رواں
سال2021-22کیلئے ٹیکس وصولی کے5829ارب روپے کے ہدف میں ایک بار پھر بلواسطہ
ٹیکس کی شرح62.56فیصد رکھی گئی ہے جو3647ارب روپے بنتے ہیں۔تاہم اگر ٹیکس
دہندگان کی تعداد کو بڑھا یا جائے اور ٹیکس چوروں کیخلاف سخت ترین
کاروائیاں کی جائیں تو نہ صرف ان ڈائریکٹ ٹیکس کی شرح کم ہو سکتی ہے بلکہ
ٹیکس وصولی کا یہ ہدف بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے ایک بار پھر ٹیکس وصولی کا بہت بڑا ہدف
مقرر کرنا بظاہر غیر حقیقی نظر آرہا ہے ۔حکومت کی جانب سے ایف بی آر میں
اصلاحات لانے کے وعدوں اور دعوں کی حقیقت تو رواں مالی سال کے اختتام پر ہی
عیاں ہوگی تاہم وزیر خزانہ شوکت ترین کی جانب سے بجٹ سیشن کے دوران اس بات
کا اعادہ کرنا کہ اب ٹیکس چور بچ نہیں سکیں گے اور انہیں ہتھکڑیاں لگائی
جائیں گی اور پھر وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے بجٹ سیشن کے دوران اس
فیصلہ کی بھرپور حمایت یہ ظاہر کرتی ہے کہ اب حکومت ٹیکس نیٹ کو بڑھانے میں
سنجیدہ ہے لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ حکومت ان اصلاحات کے راستہ میں آنیوالی
رکاوٹوں کو کیسے عبور کرتی ہے اور ٹیکس چوروں کی جانب سے کی جانیوالی
مخالفت کیخلاف کس حد تک مزاحمت کر پاتی ہے ۔یاد رہے کہ تحریک انصاف کی
حکومت نے پہلے دن سے ہی ڈاکومینٹڈاکانومی(دستاویزی معیشت) پر زور دیا ہے
سابق وزیر خزانہ اسد عمر اور سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی ہمیشہ سے ہی
ٹیکس نیٹ کو بڑھانے پر زور دیتے رہے ہیں تاہم حکومت ابھی تک اس میں خاطر
خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ ٹیکس دہندگان
پر ٹیکس کا بوجھ کم کیا جائے ،ٹیکس چوروں کیخلاف سخت ترین کاروائیاں کرکے
انہیں ٹیکس نیٹ میں لایا جائے،براہ راست ٹیکسز کی وصولی کیلئے اصلاحات کی
جائیں اور ڈاکومنٹڈ اکانومی (Documented Economy)کے فروغ کیلئے فوری
اقدامات کیے جائیں۔تاہم حکومت ٹیکس وصولی کے ہدف کے حصول اورٹیکس اصلاحات
کے ایجنڈے کو لاگو کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہے یہ آنیوالا وقت بتائے
گاتاہم بحیثیت شہری ہمیں اپنے ملک کے بہتر مستقبل اور خوشحالی کیلئے حب
الوطنی کے احساس کو اجاگر کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرنا چاہیے۔
|