امریکہ کی افغانستان سے طویل جنگ میں ناکامی کے باوجود کامیاب واپسی ۰۰۰

ہاں! امریکہ ایک طویل افغان جنگ میں شکست خوردہ کی حیثیت سے عالمی سطح پر شہرت پائی ہے لیکن اس نے جس طرح افغان شہریوں کے درمیان دشمنی پیدا کرکے راتوں رات بگرام ایئر بیس سے کامیاب راہِ فرار اختیار کی یہ اس کے لئے ایک طرف کامیابی ہے تو دوسری جانب مزید رسوائی کا باعث بنا ہے ۔بگرام ایئربیس جوگذشتہ دو دہائیوں سے القاعدہ اور طالبان کے خلاف امریکی اور اتحادی افواج کا مرکز رہا ہے۔ یہ ساتواں اور آخری اڈہ تھا جسے امریکہ نے افغان سکیورٹی فورسز کے حوالے کیا ہے۔امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا تھا کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کا عمل ستمبر میں مکمل ہوجائے گا۔لیکن اس سے قبل ہی امریکی اور اتحادی نیٹو فوج افغانستان سے نکل چکی ہے۔ افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان امریکہ اور دیگر اتحادی نیٹو ممالک مفاہمت کرانے یا کسی قسم کا معاہدہ کرانے میں ناکام رہے۔واضح رہے کہ قطر میں طالبان سیاسی دفتر کے ترجمانسہیل شاہین نے کہا ہے کہ تمام غیر ملکی فوجیوں کو مقررہ تاریخ تک افغانستان چھوڑ کر جانا ہوگا ورنہ طالبان اس کابھرپور ردعمل دینگے۔ انہوں نے کہا کہ انخلا کے بعد فوجی کنٹریکٹر سمیت غیر ملکی افواج کو افغانستان میں نہیں رہنا چاہیے ، ورنہ یہ دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی ۔ذرائع ابلاغ کے مطابق افغانستان میں موجود سفارت خانے اور قونصل خانوں کی سیکیوریٹی کے لئے افغانستان کی سیکیوریٹی فورسز یا طالبان کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ ان ممالک کے تمام سفارت خانوں ، قونصل خانوں اور دیگر سیاحتی مراکز و اداروں اور غیر ملکیوں کی حفاظت کریں اور طالبان نے اس حفاظت کی یقین دہانی کروائی ہے۔ قطر میں کئی مرتبہ مذاکرات کا سلسلہ جاری رہا لیکن اس سے کوئی خاطر خواہ نتیجہ افغان شہریوں کے لئے نہیں نکل پایا۔ افغان شہری طالبان کے بڑھتے ہوئے کنٹرول سے خوش ہیں یا پریشان اس سلسلہ میں کوئی مصدقہ رپورٹس نہیں ہیں۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ ملک میں دہشت گردی کا ماحول پھر ایک مرتبہ خطرناک طریقہ سے سر ابھارنے لگا ہے ، طالبان کئی علاقوں سے افغان فورسز کو ہتھیار ڈالنے یا انہیں راہِ فرار اختیار کرانے میں کامیاب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ طالبان کے ڈر و خوف سے افغان شہری اپنے گھر بار چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں پناہ لینے کے لئے بے آسرا ہو رہے ہیں ۔اب افغانستان میں اشرف غنی حکومت کب تک اور کیسے قائم رہے گی اس سلسلہ میں کچھ کہا نہیں جاسکتا ۔ صدرافغان اشرف غنی نے اعلان کیا ہے کہ وہ کسی بھی صورت طالبان کے آگے ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ کابینہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغانستان میں خونریزی اور تباہی کے ذمہ دار طالبان ہیں۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی کوئی خوفیہ ڈیل نہیں ہے۔ امریکہ نے انخلا کا پروگرام بنایا تو کہا پاکستان اور طالبان اپنا فیصلہ لیں، خونریزی کی ساری ذمہ داری طالبان اور کے پشت پناہوں کی ہے ، صدر افغان نے مزید کہا کہ ہم عزت سے رہتے ہیں یہ عزت اور آبرو دکھانے کا وقت ہے۔بے شک امریکی اور نیٹو افواج کا افغانستان سے مکمل تخلیہ افغان حکومت کیلئے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق طالبان لگاتار افغان فورسز پر حملے کرتے ہوئے کئی اضلاع میں اپنا کنٹرول حاصل کررہے ہیں،جو خبریں منظرعام پر آرہی ہیں اس سے محسوس ہوتا ہیکہ دیہی اور سرحدی علاقوں میں افغان فوج کہیں پر ہتھیار ڈال رہی ہے تو کہیں سے فرار ہورہی ہے۔طالبان پہلے تاجکستان کے ساتھ موجود سرحدی علاقوں اور چوکیوں پر قبضہ کیا اور اب وہ جنوب کی طرف بڑھتے پاکستانی سرحدی علاقوں سے افغان فورسز کی چوکیوں پر قبضہ کر رہے ہیں ۔ اس طرح افغانستان کے حالات پڑوسی ممالک پر بُر ی طرح پڑسکتے ہیں۔ پاکستان اور تاجکستان حالات کے پیشِ نظر اپنے سرحدی علاقوں پر سیکیوریٹی بڑھادیئے ہیں ۔

امریکی اور نیٹو افواج کا خاموشی کے ساتھ بگرام ایئر بیس سے راتوں رات تخلیہ کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان افواج کے تخلیہ کے بعد بگرام ایئربیس پر افغان فورسز کے کنٹرول کو برقرار رکھنا، کابل کے گردونواح میں امن و امان کے قیام اور طالبان پر دباؤ برقرار رکھنے میں کتنا معاون ثابت ہو سکتا ہے؟ بتایا جاتا ہے کہ گذشتہ کئی برسوں میں بگرام ایئربیس کی شکل ایک چھوٹے شہر کی سی رہی ہے اور یہاں لاکھوں کی تعداد میں امریکی اور نیٹو افواج اور کنٹریکٹرز کی آمد و رفت رہی ہے۔یہاں تفریحی سہولیات بھی مہیا تھیں اور یہ بیس طالبان اور جہادیوں کیلئے جیل کی صورت میں بھی استعمال ہوتی رہی ہے۔بتایا جاتا ہے کہ بگرام ایئربیس کا قیام سرد جنگ کے دوران 1950 کی دہائی میں عمل میں لایا گیا تھا۔ یہ امریکہ نے اپنے افغان اتحادی کیلئے شمال میں سویت یونین کے خلاف ایک دفاعی مورچے کے طور پر تعمیر کیا تھا۔ 1979 میں افغانستان میں سویت محاذ آرائی کے دوران بھی اس کی اہمیت برقرار رہی، اور روسی افواج نے افغانستان میں اپنے دس سالہ قبضے کے دوران اس کو مزید وسعت دی۔افغانستان کے روسی انخلا کے بعد یہ خانہ جنگی کا مرکز بھی رہا۔ ایک وقت تھا جب اس کے تین کلومیٹر طویل رن وے کا ایک حصہ طالبان اور دوسرا حصہ شمالی اتحاد کے قبضے میں تھا۔اس ایئر بیس پر داعش کی جانب سے راکٹ حملے بھی ہوتے رہے ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق فبروری 2021تک افغانستان میں 9500غیر ملکی فوجی موجود تھے جن میں سب سے بڑی تعداد یعنی 2500امریکی فوجیوں کی تھی۔ لیکن گذشتہ چند روزکے دوران امریکی اور نیٹو افواج خاموشی کے ساتھ بگرام ایئر بیس سے تخلیہ کرچکی ہے ۔افغان فورسز اس پر کتنے عرصے تک کنٹرول برقرار رکھ سکتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کیونکہ افغانستان کے کم و بیش چار سو اضلاع میں سے طالبان نے تقریباً100اضلاع میں کنٹرول حاصل کرلیا ہے جس کی رپورٹس میڈیاکے ذریعہ منظرعام پر آرہی ہیں۔ذرائع ابلاغ کے مطابق گذشتہ دو ماہ سے افغان طالبان کی جانب سے ملک بھر میں افغان فورسز کے خلاف کارروائیوں میں تیزی آئی ہے جبکہ افغان سیکیوریٹی فورسز کا اثرو رسوخ ملک کے اہم شہری علاقو ں میں قائم ہے ۔ کہا جارہا ہے کہ طالبان منصوبہ بندی کے تحت ملک کے دیہی اور سرحدی علاقوں میں اپنا کنٹرول مضبوط کرنے کے بعد شہری علاقوں کی طرف کریں گے۔سابق لیفٹینٹ جنرل امجد شعیب نے بی بی سی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں بتایاکہ ’’ہوسکتا ہیکہ طالبان کابل کی طرف بڑھنے سے پہلے تمام سرحدی علاقے اپنے قبضے میں کرکے کابل کی موجودہ حکومت کو اپنی مرضی کی شرائط پر مذاکرات کی میز پر لانا چاہتے ہوں یا ان کی تمام مدد، کمک اور فرار کے راستے بند کرنا چاہتے ہوں‘‘۔ تاہم ان کا کہنا ہیکہ افغان طالبان کیلئے کابل اور افغانستان شہری علاقے آسان ثابت نہیں ہونگے۔ افغان فوج کابل سمیت دیگر شہری علاقوں میں بھر پور دفاع کرے گی جس سے انتشار کی صورتحال کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ امریکہ نے طالبان اور افغان حکومت کے ساتھ کس قسم کے معاہدے کئے ہیں اس سلسلہ میں کوئی رپورٹس نہیں ہے لیکن اتنا ضرور ہیکہ امریکہ طالبان اور افغان حکومت کی تائید یا مخالفت میں کچھ کہنے کے بجائے خاموشی سے دونوں کو لڑاکرافغان چھوڑ کر چلا گیا ۔ خیر امریکی اور نیٹو افواج کا افغانستان سے انخلا کے بعد ملک میں حالات کشیدہ ضرور ہوچکے ہیں اور نہیں معلوم مستقبل قریب میں افغان فورسز اور طالبان کے درمیان کتنی گھمسان لڑائی ہونگی۔ افغان عوام پھر ایک مرتبہ دہشت گردی کا شکار ہوگی اور ملک کی معیشت پر بھی اس کے خطرناک اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اب دیکھنا ہیکہ اشرف غنی حکومت اور افغان طالبان اگر مصلحت پسندی سے کام لیتے ہوئے افغان شہریوں کی سلامتی کیلئے اتحاد کرلیتے ہیں تو یہ عالمِ اسلام کے لئے خوش آئند اقدام ہوگا ۔ کاش ایسا ہوتا۰۰۰

ہندویو اے ای کے درمیان خوشگوار تعلقات کی نصف صدی مکمل
ہندوستان اورمتحدہ عرب امارات کے درمیان سفارتی تعلقات کے پچاس سال مکمل ہوچکے ہیں۔اس سلسلہ میں متحدہ عرب امارات کی جانب سے مختلف ورچول پروگرامس منعقد کئے جارہے ہیں۔1971ء میں UAE فیڈریشن کے قیام کے بعد ہندوستان اور دیگر ممالک سے ا س کے سفارتی تعلقات قائم ہوئے۔ دونوں ممالک کے درمیان ابتداء ہی سے خوشگوار اور مستحکم تعلقات ہیں۔چھ ریاستوں پر مشتمل متحدہ عرب امارات کے قیام کے بعد ہندوستانیوں کو روزگار کے مواقع فراہم ہوئے ہیں تو وہیں متحدہ عرب امارات کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی میں ہندوستانیوں نے بڑا اہم رول ادا کیا۔ متحدہ عرب امارات میں تقریباً دو ملین ہندوستانی این آرآئیز رہتے ہیں اس طرح یہ ہندوستانیوں کیلئے دوسرا وطن سمجھا جاتا ہے۔متحدہ عرب امارات میں 15تا 20فیصد ہندوستانی پروفیشنلس ہیں اور 20فیصد وائٹ کالر JOB یعنی کلیریکل اسٹاف،سیلس مین وغیرہ ہیں جبکہ 65فیصد بلوکالر ورکر یعنی محنت کش طبقہ ہے ہندوستانی تارکین وطن نے یو اے ای کی معاشی ترقی میں اہم رول ادا کیا۔ ہندوستان اور متحدہ عرب امارات کے سربراہان ایک دوسرے ممالک کا دورہ کرتے رہے ہیں۔ فخرالدین علی احمد، اے پی جے عبدالکلام، پرتیبھا پاٹل نے ہندوستانی صدور کی حیثیت سے دورے کئے جبکہ یو اے ای کے صدر شیخ زائد بن سلطان النیہان نے 1975ء اور 1992ء میں ہندوستان کا دورہ کیا تھا۔ ہندوستانی وزیراعظم اندرا گاندھی نے 1981ء میں یو اے ای کا دورہ کیا اور یواے ای کے نائب صدر شیخ محمد بن راشدالمختوم نے 2007ء میں ہندوستان کا دورہ کیا۔ مارچ 2010ء اور مئی 2011ء میں یو اے ای کے ڈپٹی پرائم منسٹراور وزیر سلامتی امور شیخ سیف بن زاید النیہان ہندوستان تشریف لائے تھے۔ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے قائدین کے وفود نے بھی باہمی دورے کئے۔ ہندوستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان مختلف شعبہ جات میں باہمی تعاون کے معاہدے ہوئے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعلق کا معاہدہ بھی ہے‘ جبکہ وقفہ وقفہ سے ہندوستانی بحری جہاز یو اے ای اور متحدہ عرب امارات کے بحری جہاز ایک دوسرے کی بندرگاہوں کو آتے جاتے ہیں۔ 2011ء میں دونوں ممالک نے پہلی مرتبہ مشترکہ طور پر فضائی طاقت کا مظاہرہ کیا تھا۔جبکہ ہر ہفتہ ہندوستان اور یو اے ای کے درمیان 484ڈائرکٹ فلائٹس مختلف شہروں سے پرواز کرتے ہوئے شہریوں کی خدمات کررہے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی اور تجارتی تعلقات مستحکم ہیں۔یقین ہیکہ مستقبل میں بھی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات خوشگوار ماحول میں مزید ترقیاتی منصوبوں کے تحت آگے بڑھیں گے۔

رابطہ عالم اسلامی کے سیکریٹری جنرل کیلئے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری
اقوام متحدہ نے رابطہ عالم اسلامی کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر محمد العیسی کو پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری دی ہے۔ تقریب جنیوا کی پیس یونیورسٹی میں منعقد ہوئی۔ یہ ڈگری اقوام متحدہ کی امن اکیڈمی یونیورسٹی کی طرف سے دی گئی ہے۔ ڈاکٹر محمد العیسی کو انسداد نفرت مہم میں موثر حصہ لینے، اقوام عالم کے درمیان تعاون اور دوستی کو فروغ دینے اور بین الاقوامی سفارتکاری کو عروج دینے کے سلسلے میں گراں قدر خدمات انجام دینے پر پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ڈاکٹر العیسی نے اس موقع پر اپنے خطاب میں کہا کہ ’ اس اعزاز کے لیے شکر گزار ہوں۔ اس سے قیام امن کے لیے مزید جدوجہد جاری رکھنے کا حوصلہ ملا ہے‘۔انہوں نے کہا کہ’ عالمی امن کے لیے کوشاں معتبر یونیورسٹی کی جانب سے یہ اعزاز اہمیت رکھتا ہے۔ یہ یونیورسٹی قیام امن کے حوالے سے بڑا کام کررہی ہے‘۔ اقوام متحدہ کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل نے کہا کہ ’ ڈاکٹر العیسی کو بڑی قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔ وہ اعتدال پسندی کے حوالے سے بین الاقوامی رہنما شخصیت کے مالک ہیں‘۔ اس تقریب میں اقوام متحدہ کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل، یورپی پارلیمنٹ کے ارکان، منتخب دانشور اور سیاست دان شریک ہوئے۔
***

 
Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 358 Articles with 256077 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.