اور اب چینی نظام

وزیراعظم پاکستان نے چین کی کیمونسٹ پارٹی کی سوویں سالگرہ پر نظام حکومت کیلئے چینی ماڈل اختیار کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ۔ ان کی جانب سے پاکستان میں نافذ کرنے کیلئے یہ دنیا کا چوتھا ماڈل ہے جو ریاست مدینہ سے شروع ہوا ،پھر مہاتیر کے ملائیشیا،ہٹلر کے جرمنی ، ترکی کے رجب طیب اردگان اور ایران سے ہوتا ہوا چین جا پہنچا ہے ۔ ان سب نظاموں میں پسندیدگی کی بات وہاں کے اقتصادی نظاموں کے ماڈل نہیں ہیں بلکہ وہاں کے حکمرانوں پر عوام کی جانب سے تنقید کے حقوق کم از کم ہونا قابل تقلید ہے ۔ وزیراعظم پاکستان نے جس چینی ماڈل کی بات کی ہے اس کی تاریخ اور جدوجہد سے متعلق جاننا بہت ضروری ہے ۔ چین کے اس نظام کی جڑیں 1921ء میں کیمونسٹ پارٹی کے چیئرمین ماوزے تنگ کی قیادت میں اس لانگ مارچ سے شروع ہوتی ہے جس نے اپنی کامیابی کیلئے 30ہزار میل کا سفر کیا ہزاروں انسانوں بشمول ماوزے کے بیٹے نے جانوں کی قربانی پیش کی ۔ اس لانگ مارچ میں لاکھوں مزدوروں ، کسانوں اور غربت کے مارے غریب و بے نوا لوگ اس زمانے میں وہاں پر رائج نظامِ جاگیرداری اور سرمایہ داری کے خلاف سربکفن اٹھ کھڑے ہوئے تھے ۔ 28سال کی طویل جدوجہد کے بعد 1949ء میں کیمونسٹ چین دنیا کے نقشے پر اُبھرا وہ تحریک جس کے بارے میں اقبال نے بھی کہا تھا کہ
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے اُبلنے لگے

اس تاریخی انقلاب نے عوام کے سر نہیں کاٹے نہ ہی لوگوں کی زبانیں گنگ کی بلکہ جاگیرداری اور نظام سرمایہ داری کی جڑیں کاٹیں جس نے چین کے کروڑوں انسانوں کو صدیوں سے غلامی میں جکڑا ہوا تھا اور وہ لوگ حقیقی معنوں میں آزاد ہوئے ۔ آج چین کی ترقی ان قربانیوں کا نتیجہ ہے جو نظام کی تبدیلی تھا خالی وعظ و نصیحت نہیں تھا ۔ آج چین میں کوئی بھی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی نہیں گزار رہا ہے ۔ گزشتہ تیس سال میں 70کروڑ افراد اس لکیر سے اوپر آئے ۔ بنیادی انسانی معاشی حقوق ، تعلیم ، صحت ، روزگار ہر ایک کو حاصل ہیں ۔ چھت کے بغیر کوئی نہیں ہے۔ حکومت سماجی انصاف مہیا کرنے کی ذمہ دارہے ۔ یہ چین کی اقتصادی ترقی اور اندرونی سماجی استحکام ہی ہے جس نے امریکہ اور یورپ جیسی بڑی طاقتوں کے سامنے اُسے ایک بڑی اقتصادی قوت کے طور پر لا کھڑا کیا ہے اور یہ طاقتیں چین سے خوفزدہ ہو رہی ہیں ۔ جناب وزیراعظم اگر آپ نے یہ ماڈل اختیار کرنا ہے تو بسم اﷲ کیجئے پاکستان کی 40فیصد آبادی کو نظام جاگیرداری سے نجات دلا کر ہاریوں اور مزارعین کو زمینوں کا مالک بنائیں اور ان جاگیرداروں جنہوں نے انگریزوں سے وفاداری اور برصغیر کے لوگوں سے غداری کے عوض جاگیریں لیں ان کی اولادوں سے پاکستانیوں کو آزاد کریں تا کہ چینی انقلاب کے ماڈل کا پہلا مرحلہ تو شروع ہو۔

لیکن یہ بات جو کہی جا رہی ہے کہ وہاں پر ترقی اس لئے ہے کہ وہاں پر جمہوریت نہیں ہے یہ بات درست نہیں ہے وہاں پر عوامی جمہوریت ہے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی لونڈی جمہوریت واقعی نہیں ہے ۔ آپ جس رہی سہی نام نہاد جمہوریت کا بھی گلا گھونٹنے کے چکروں میں ہیں اس سے لوگوں کو خوشحالی نہیں ملے گی بلکہ ان کی پہلے سے ہی دبائی ہوئی صدائیں اور ’’گل گھوٹو‘‘ کی بیماری کا شکار ہو جائیں گی ۔ پاکستانی جمہوریت کا تجزیہ کریں تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں حتیٰ کہ بلدیاتی انتخابات میں بھی ایک عام پاکستانی انتخابات میں حصہ لے کر منتخب نہیں ہو سکتا ۔ شہروں میں سرمایہ دار اپنے سرمائے کے زور پر اور دیہات میں جاگیردار اپنے مزارعین اور ہاریوں سے ڈنڈے کے زور پر ووٹ لے کر ان اداروں میں پہنچتے ہیں ۔ یہ اشرافیائی جمہوریت 2فیصد بالا دست طبقات کی لونڈی ہے اور 98فیصد عوام ان کے غلام ہیں ۔ یہی اشرافیائی جمہوریت کا چکر انہی بالا دست طبقوں کے درمیان گردش کرتا رہتا ہے یا ان کی اولادوں کو منتقل ہوتا رہتا ہے ۔ پھر یہاں پر ایک سُپر مقتدر اشرافیہ بھی ہے جو ان سیاستدانوں کو اپنی انگلیوں پر نچاتی ہے ، استعمال کرتی ہے پھر پھینک دیتی ہے اور پھر نئے کٹھ پتلی میدان میں اُتار دئیے جاتے ہیں۔ لہذا اگر حقیقی جمہوریت یہاں پرلانی ہے تو نظام جاگیرداری اور نظام سرمایہ داری کو ختم کرتے ہوئے معاشی طبقات ختم کیجئے تاکہ یہاں پر حقیقی معنوں میں غیر طبقاتی جمہوریت قائم ہو سکے۔

چین میں اگر عوام پر جبر کا نظام نافذ ہوتا تو کسی بھی صورت میں دنیا کے مقابلے میں ایک طاقتور ملک کے طور پر سامنے نہ آتا ۔ وہاں پر جمہوریت کا مطلب ملک کے اقتدار اور وسائل پر اشرافیہ کا قبضہ نہیں ہے ۔ وہاں کے قدرتی وسائل حکومت کے پاس ہیں جن کا حقِ استفادہ ہر شخص تک پہنچتا ہے ۔ ہائیڈل جنریشن اور معدنیات قومی ملکیت میں ہیں ۔ پانی سے پیدا ہونے والی بجلی صنعتوں کو فری مہیا کر کے اشیاء کی قیمتوں میں کمی رکھی گئی ہے جس سے چینی مصنوعات ساری دنیا کی مارکیٹوں پر چھائی ہوئی ہیں۔ وہاں پر کوئی مقتدر اشرافیہ ایسی نہیں پائی جاتی جو لوگوں کو غلام بنا کر ان کے معاشی حقوق کو ہڑپ کر لے ۔ وہاں پر ایک پارٹی نظام تو ہے اگر یہ جابرانہ نظام ہوتا تو جو لوگ1921ء میں بغاوت اور لانگ مارچ کر سکتے تھے وہ آج بغاوت کیوں نہ کرتے ۔ وہاں پر ریاست ، حکومت اور عوام کا ایک ہی منشور ہے کہ لوگوں کو غربت سے باہر نکال کر انہیں با عزت زندگی گزارنے کا موقع دو جب حکومت سماجی ، معاشی انصاف کی گارنٹی دے اور اس پر عمل بھی کرے تو پھر بغاوت کس نظام کے خلاف؟ معاشی محرومیاں لوگوں کو بغاوت پر آمادہ کرتی ہیں ۔ وہاں پر پارٹی سسٹم محلے اور گاؤں سے لے کر مرحلہ وار شہروں ، صوبوں اور پھر مرکزی حکومت تک جاتا ہے ۔ محلہ و گاؤں میں تنظیم سازی کا باقاعدہ طریقہ کار مقرر ہے ۔ مخالف رائے کو باقاعدہ علم و شعور کے ساتھ زیر بحث لایا جاتا ہے جو مرکز تک جاتا ہے ۔ پارٹی کارکنوں کو پارٹی کارکن بننے کیلئے نظریاتی تربیت سے گزرنا پڑتا ہے ۔ ان کارکنوں کی شعوری تربیت انہیں کیمونسٹ نظام کے تحفظ اور نظام سرمایہ داری اور جاگیرداری کے خلاف آہنی دیوار کی طرح تحفظ مہیا کرتی ہے اور ان کی اقتصادی خوشحالی انہیں اس نظام کے ساتھ وفاداری سکھاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی سامراجی نظام تمام تر چالاکیوں کے باوجود چین کے نظام میں گھسنے اور اسے متزلزل کرنے میں ناکام رہا ہے وہ اس لئے کہ وہاں کا سیاسی و معاشی نظامِ حکومت میں عوام ہی ساری ترقی کا محور ہیں، خواص نہیں اور اﷲ تعالیٰ بھی سورۃ قریش میں انہیں انعام یافتہ قوموں کی مثال دیتے ہوئے دو نشانیاں بتاتا ہے ۔ ’’پرُ امن معاشرہ اور بھوک کے خوف سے نجات‘‘ اور ایسی قوموں اور تہذیبوں کی قدرت خود محافظ ہوتی ہے جہاں ظلم نہیں ہوتا ۔ عدالتی انصاف کے ساتھ ساتھ معاشرتی ، سماجی ، سیاسی اور معاشی انصاف کا نظام نافذ ہوتا ہے۔
 
Akram Sohail
About the Author: Akram Sohail Read More Articles by Akram Sohail: 15 Articles with 13293 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.