فاٹا کی تباہی،اشرفیہ کی عیاشی

پاکستان کا قبائلی علاقہ فاٹا اور اس کی لگ بھگ سات ملین آباد ی جو بغیر معاوضے کے اس ملک کے سپاہیوں کا کردار ادا کرتی ہے،اپنی جغرافیائی خدوخال اوربین القوامی سٹرٹیجک اہمیت کے پیش نظر مسلسل امتحانات و مصائب کا شکار ہیں۔ ایک طرف اگر فاٹا سے متصل افغانستان میں بین الاقوامی قابض قوتوں چاہے روس ہو یا امریکہ سے اس علاقے کے حالات پراثر پڑتا رہا ہے، تو دوسری طرف اپنے اپنے مفادات کے حصول کی خاطر بین القوامی قوتوں کو نکالنے کے لئے بنائے جانے والے مختلف تنظیموں اور نام نہاد جہادی لشکروں کے ظلم و جبر کا نشانہ بھی فاٹا کے عوام ہی بنتے ہیں۔چاہے وہ80 ء کی دہائی میں افغانستان پر قابض روس کے خلاف امریکی سی آئی اے اور ضیاء حکومت کے گٹھ جوڑ والے نام نہاد مجاہدین و عرب جنگجؤ ہو یا پھر افغانستان سے روس کے انخلاء کے بعد سٹرٹیجک گیپ یا خلا پر کرنے کے بہانے نصیر اللہ بابر کے بنائے جانے والے طالبان یا پھر نائن الیون اور دہشت گردی کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ کے بہانے سے انہی مجاہدین اور طالبان کا اکٹھ القاعدہ و طالبان کی نئی یلغار ہو،بیچارے فاٹا کے عوام ہی ظلم و جبر کا نشانہ اور قربانی کا بکرا بنے ہوئے ہیں۔

فاٹا کی تباہی،اشرفیہ کی عیاشیی، کا عنوان دیکھ کر شاید کچھ لوگ حیرت میں پڑ جائے،لیکن اگر زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو یہ عنوان فاٹا کے ناگفتہ بہہ حالات کے عین مطابق ہے۔جس طرح فاٹا سے متصل افغانستان میں امریکہ و نیٹو طالبان کے خاتمے اور دہشت گردی کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ کے بہانے کے نام پر وہاں کئی سالوں سے براجمان ہے، اسی طرح کا کھیل عسکریت پسندی اور طالبان کے نام پر فاٹا میں بھی جاری و ساری ہے،اور ان دونوں ڈراموں کا آپس میں گہرا ربط ہے۔ افغانستان میں حقائق پر مبنی بعض رپورٹوں کے مطابق اگر امریکہ و نیٹو افواج کسی ایک علاقے یا شہر میں طالبان کو مار کر یا طالبان کے خلاف آپریشن کرکے بین القوامی سطح پر میڈیا میں اور امریکی عوام کو طالبان دشمنی دکھاتی ہے، تو دوسری طرف دوسرے علاقے یا شہر میں یہی امریکہ و نیٹو طالبان کو اسلحہ گولہ بارود و ڈالرز دے کر شورش و دہشت گردی شروع کرواتی ہے،تاکہ طالبان دہشت گروں کے خاتمے کے بہانے افغانستان پر قبضے کا جواز موجود رہے۔ اگر امریکہ و نیٹو حقیقی معنوں میں دہشت گردی کا خاتمہ چاہتے تو یہ چند ہفتوں یا مہینوں کا کام تھا، لیکن ایک لمحہ کے لئے آپ سوچ لیں ،کہ اگر افغانستان سے طالبان کا خاتمہ ہو جاتا تو افغان عوام امریکہ و نیٹو کو افغانستان سے نکلنے کا کہتے،لیکن امریکہ کب یہ چاہتاہے۔بالکل اسی طرح افغانستان سے متصل فاٹا میں بھی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ کی پارٹنر اشرفیہ بالخصوص سول و ملٹری بیوروکریسی یہی کھیل کھیل کر فاٹا کے عوام کے مصائب و مشکلات میں اضافہ کر رہی ہے۔ دہشت گرد طالبان کا خاتمہ کرنے کی بجائے افغانستان کی طرح انہیں ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں منتقل کرکے فاٹا کے تمام علاقوں کو یکے بعد دیگرے متاثر کر رہی ہے۔یقین جانیئے اگر سنجیدگی و خلوص سے فاٹا سے دہشت گردی و طالبانائزیشن کا خاتمہ مقصود ہو تو یہ ہمارے ملکی سلامتی کے اداروں کے لئے چند مہینوں بلکہ چند ہفتوں کا کام ہے،لیکن اگر فاٹا سے عسکریت پسندی دہشت گردی و طالبانائزیشن کا خاتمہ ہو جائے تو پھر دہشت گردی کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ کی پارٹنر اشرفیہ بالخصوص سول و ملٹری بیوروکریسی کی عیاشیوں اور مراعات کا کیا ہوگا۔جو دہشت گردی کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ کے نام پر کروڑوں ڈالرز کی شکل میں مل کر اشرفیہ کی جیبیں بھرنے کا سبب بن رہی ہے۔

یوں تو د دہشت گردی کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ کی وجہ سے پورا فاٹا متاثر ہوا لیکن سب سے زیادہ متاثر ہونے والا علاقہ ارض پاکستان کا جنت نظیر اور انتہائی اہم سٹرٹیجک و جغرافیائی اہمیت کا حامل پاراچنار جو افغانستان کے چار صوبوں (ننگرہار، خوست، پکتیا و پکتیکا) کے علاوہ دیگر تین قبائل علاقوں خیبراورکزئی اور وزیرستان کے ساتھ ساتھ ضلع ہنگو سے بھی متصل ہے۔ کئی دہائیوں سے یہ علاقہ اپنی جغرافیائی اہمیت و سٹرٹیجک خدوخال کی وجہ سے بین الاقوامی اور مقامی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کشمکش کی وجہ سے میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ افغانستان کی مشہور تورا بورا پہاڑی سلسلے جس کا ایک حصہ صوبہ ننگر ہار اور دوسرا حصہ پاراچنار کے مضافاتی گاؤں شلوزان، زیڑان و کڑمان میں واقع مشہور سین غر پہاڑی سلسلے کوہ سفید سے ملنے کے علاوہ افغانستان کا دارالحکومت کابل تمام قبائلی علاقوں میں پاراچنار کرم ایجنسی سے نزدیک ترین و کم فاصلے پر واقع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی سٹرٹیجک اہمیت کے اصطلاحات میں کرم ایجنسی کے صدر مقام پاراچنار کو طوطے کی چونچ "Parrots Beak"کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ دراصل کرم ایجنسی کے عوام پرظلم و جبر اور ریاستی سرپرستی میں سوتیلی ماں جیسا سلوک جنرل ضیاء کے دور میں شروع ہوا۔ جب 80 ء کی دہائی میں امریکی سی آئی اے اور ضیاء حکومت کے گٹھ جوڑ سے دنیا بھر بالخصوص عرب ممالک و وسطیٰ ایشیائی ممالک سے شدت پسندوں کو مجاہدین کے عنوان سے اس علاقے میں لایا گیا۔ اس لیے امریکی سی آئی اے اور ضیاء کے گٹھ جوڑ پر مبنی منصوبے کے تحت افغانستان سے روس کی شکست کے لیے کرم ایجنسی کو مرکز (Base Camp) کے طور پر استعمال کر کے ایک تیر سے دو شکار کیے گئے۔ ایک طرف کرم ایجنسی کے علاقے صدہ (Sadda) جو کہ طوری و بنگش قبائل کی ملکیت تھا اور اب تک کاغذات مال(Reveneu Record)میں صدہ کی اکثر مارکیٹیں اور زمینیں طوری و بنگش قبائل کی ملکیت ہیں۔ امریکی سی آئی اے کے جہادیوں عبدالرسول سیاف اور اسامہ بن لادن و گلبدین کو صدہ میں بسا کر جنوبی افغانستان سے آنے والے افغان مہاجرین کی مدد سے طوری و بنگش قبائل کا قتل عام (Genocide)کر کے ان کی املاک حتی کہ مساجد کو ڈائنا مائیٹ سے شہید کر کے باقی ماندہ طوری و بنگش قبائل کو صدہ سے جبری بے دخل کر دیا۔ جو آج تک اپنے ہی ملک میں مہاجر بن کر پاراچنار اور دیگر شہروں میں کسمپرسی کی ذندگی گزار رہے ہیں۔علاوہ ازیں ستم بالائے ستم یہ کہ اس دور میں ایک بہت بڑے رقبے و آبادی کا حامل نیم قبائلی علاقہ علاقہ غیر ’’ایف آر اورکزئی‘‘ علاقے کو کرم ایجنسی میں اس لیے شامل کیا گیا تاکہ کرم ایجنسی میں آباد کا تناسب (Demographic)تبدیل کیا جا سکے۔حالانکہ فاٹا میں دیگر چھ علاقہ غیر یا ایف آر علاقے خودمختار حثیت میں کام رہے ہیں،لیکن صرف کرم ایجنسی کے ساتھ ایف آر کا الحاق کرنا کیا معنی رکھتا ہے۔۔۔ ساتھ ہی ساتھ افغانستان سے آنے والے افغان مہاجرین کو سرکاری سرپرستی میں شناختی کارڈ و پاسپورٹ جاری کیے گئے اور یوں ایف آر علاقے کے غیرقانونی شامل ہونے کے ساتھ ساتھ افغان مہاجرین کو پاکستانی شہریت دینے سے کرم ایجنسی کے وسائل ترقیاتی کاموں اور تعلیمی اداروں میں کوٹے و مخصوص نشستوں کی بندربانٹ کی گئی۔

قائداعظم نے کرم ایجنسی کے قبائل طوری و بنگش قبائل کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ کرم ایجنسی کی حفاظت کے لیے انہی قبائل پر مشتمل کرم ملیشیاء ایف سی فورس یہاں مقیم ہو گی۔ ضیاء نے قائداعظم کے وعدے کو توڑتے ہوئے طوری یا کرم ملیشیاء کو وزیرستان و باجوڑ بھیجوا دیا اور وہاں سے القاعدہ و طالبان نواز اقوام پر مشتمل ایف سی کو کرم ایجنسی میں تعینات کر کے ریاستی دہشت گردی کی راہ ہموار کر دی۔ 80ء کی دہائی بالخصوص 1984ء اور 1987ء میں امریکی سی آئی اے کے پارٹنر ضیاء نے صدہ کی طرح پاراچنار کو بھی طوری بنگش قبائل سے خالی کر کے امریکی سی آئی اے کے جہادیوں کے حوالے کرنے کے لیے کئی بار جہادیوں اور افغان مہاجرین کی مدد سے لشکر کشیاں کیں لیکن یہاں کے غیور و بہادرطوری بنگش قبائل نے سینکڑوں جانوں کے نذرانے دے کر ضیاء حکومت اور امریکی سی آئی اے کے ان ناپاک عزائم کو ناکام بنا دیا۔ حتیٰ کہ 1987ء کی جنگ میں ضیاء نے پاراچنار کے ممکنہ بے دخل لوگوں طوری بنگش قبائل کے لیے میانوالی و بھکر میں مہاجر کیمپ تک بنائے تھے لیکن واقعی ’’جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے‘‘ خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے کہ مصداق پاراچنار کے طوری بنگش قبائل تو مہاجر نہیں بنے لیکن ضیاء اپنے جرنیلوں اور امریکی ساتھیوں سمیت 17 اگست 1988ء کو اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ بعد میں ضیاء کی باقیات اسٹیبلیشمنٹ نے پاراچنار دشمنی جاری رکھی اور ستمبر 1996ء میں پاراچنار میں فساد شروع کرکے جنگ روکنے کے بہانے سینکڑوں گاڑیوں میں سیکورٹی فورسز کو اسلحہ سمیت پہلے پاراچنار اور پھر پاراچنار کے راستے افغانستان بھیج کر ایک ہفتے بعد پورے افغانستان بشمول کابل پر طالبان حکومت قائم کرنے کا اعلان کر کے ایک بار پھر پاراچنار کو اپنے مفادات کا ایندھن بنایا گیا۔ نائن الیون اور دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے بعد افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد ایک بار پھر پاراچنار کو اپنے مقاصد اور یہاں کے عوام کو قربانی کا بکرا بنانے کا منصوبہ بنایا گیا اور ضیاء دور کی طرح ایک تیر سے دو شکار کہ ایک طرف تو اپنے مفادات حاصل ہو جائیں اور دوسری طرف پاراچنار سے صدہ کی طرح طوری بنگش قبائل کا صفایا کر کے یہ علاقہ القاعدہ و طالبان اور دہشت گرد کالعدم تنظیموں کے حوالے کر کے افغانستان میں طالبان کے خود ساختہ نظام کی طرح فاٹا میں اور پھر پورے ملک میں نام نہاد ’’امارات اسلامی‘‘یا امریکی اسلام قائم کیا جائے۔ اپریل 2007ء میں ملک بھر بالخصوص فاٹا و جنوبی پنجاب سے کالعدم تنظیموں اورالقاعدہ نواز طالبان کے ذریعے پاراچنار پر یلغار و لشکر کشی کر کے حملے ہوئے لیکن جب پاراچنار کے غیور و بہادر عوام نے مزاحمت و دفاع کر کے میدان جنگ میں دہشت گردوں کو شکست دی تو پھر 2007ء میں اسرائیل کی طرف سے غزہ پر مسلط محاصرے کی طرح اسرائیل و بلیک واٹر کے ایجنٹ طالبان نے ٹل پاراچنار روڈ کی بندش و ناکہ بندی کی صورت میں محاصرہ و اقتصادی ناکہ بندی جیسے غیر انسانی و غیر اخلاقی ہتھکنڈے شروع کیے۔ بچوں و خواتیں حتیٰ کہ ایمبولینس تک کو نشانہ بنایا۔طالبان نواز ایف سی کی موجودگی میں پاراچنار کے نہتے مسافروں کو بارہا سرکاری سرپرستی میں چلنے والے کانوائیوں سے اتار کر تکڑے تکڑے کرکے لاشوں کی بے حرمتی کرکے آگ لگا کر رقص ابلیس کرکے شیطانی شاباش حاصل کی گئی۔ جب بھی طالبان یہ ظلم و جبر کر رہے تھے تو اس وقت حفاظت پر مامور ایف سی اور ان کے اعلیٰ افسران نہ صرف خاموش تماشائی کی طرح نظارہ کر رہے تھے بلکہ دہشت گردوں کی طرف سے لگائے جانے والے نعرہ تکبیر کے جواب بھی دے رہے تھے۔جس کی ویڈیوز تک منظر عام پر آچکی ہیں۔تمام قبائلی علاقوں ،جنوبی پنجاب اور افغانستان کے طالبان لشکروں کے حملے اور لشکر کشیوں کے باوجود طالبان جب پاراچنار کے بہادر و دفاع کرنے والے طوری بنگش قبائل کا میدان جنگ میں مقابلہ نہ کر سکیں،تو پھر بزدلوں کی طرح غیر انسانی اقدامات جیسے پاراچنار سے باہر نہتے مسافروں حتیٰ کہ عورتوں و بچوں تک کو بے دردی سے شہید کرنا جیسے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے،جو نہ صرف اسلام اور دنیا بھر میں رائج جنگی اصولوں بلکہ صدیوں سے رائج قبائلی روایات کے بھی خلاف ہیں۔ اپریل 2007 ء سے تادم تحریراب تک 1500 سے زائد طوری بنگش قبائل افراد قتل اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں،طالبان کی مظالم کی وجہ سے اپر کرم و لوئر کرم سے ہزاروں لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں۔ لیکن پاراچنار کے عوام کے حوصلے اب بھی بلند ہیں۔ پاراچنار کے محب وطن طوری بنگش قبائل کا حکام سے یہ سوال ہے، کہ ٹل پاراچنارروڈ طوری بنگش قبائل کے لیے بند جبکہ طالبان، فوج و ایف سی کے لیے کھلی کیوں؟؟؟

فاٹا کی تباہی اشرفیہ کی عیاشی کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوگا کہ ٹل پاراچنار روڈ بندش کے بہانے اشرفیہ سول و ملٹری بیوروکریسی نے اپنے لئے کمائی کا ایک ذریعہ بنایا ہواہے، روڈ کھلنے کی صورت میں پشاور تا پاراچنار آرام دہ ہائی ایس گاڑی میں فی مسافر جو ڈیڑھ سو کرایہ لیا جاتا تھا۔اب سرکاری کانوائی میں پشاور تا پاراچنار ایف سی کی بڑی بڑی کھلی ٹرکوں میں مسافروں کو جانوروں کی طرح بٹھا کر فی مسافر پندرہ سو روپے کرایہ اور اسی طرح عوام کے لئے اشیائے خوردونوش پہنچانے والے ٹرالر سے لوئر کرم چھپری چیک پوسٹ کے مقام پر فی ٹرالر چالیس ہزار روپے بھتہ وصول کرکے یہ رقم سول و ملٹری بیوروکریسی اور لوئر کرم میں موجود طالبان کمانڈر آپسمیں بانٹ دیتے ہیں۔یہ فاٹا کی تباہی اشرفیہ کی عیاشی نہیں تو اور کیا ہے، کوئی ہے جو اس ظلم پر بھی آواز اٹھائے۔۔۔چار ماہ پہلے بگن لوئر کرم میں طالبان کے ہاتھوں اغواء افراد میں سے سات مسافر اب تک لاپتہ ہیں؟؟جن کے حوالے سے نہ صرف حکومتی حکام خاموش ہیں،بلکہ سول سوسائٹی نے بھی مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔صومالیہ میں بحری قزاقوں کے ہاتھوں اغوا چند پاکستانیوں کی رہائی کے لیئے دن رات ایک کرکے گھنٹوں کوریج دینے والی سول سوسائٹی اور شہر شہر گھومنے والے انسانی حقوق کی تنظیمیں طالبان کے ہاتھوں اغواء افراد میں سے سات پاراچناری مسافروں کے حوالے سے زبانوں پر تالے لگائے ہوئے ہیں۔۔۔شاید پاراچنار کے محب وطن طوری و بنگش قبائل کا جرم یہی ہے کہ پاکستان بننے سے پہلے ان طوری و بنگش قبائلی عمائدین نے دہلی جاکر قائد اعظم کو پاکستان بنانے کے لئیے ہر ممکن تعاون کے علاوہ قیام پاکستان سے لے کر استحکام پاکستان سن ء71, 65 ، کارگل اور آج تک قربانیاں دے کر خون کے نذرانے دئیے ہیں۔۔پاراچنار کے محب وطن طوری و بنگش قبائل پاکستان سے محبت کرکے آج تک پاراچنار کے سرکاری و غیر سرکاری سکولوں میں پاکستان کے ترانے پڑھتے ہیں۔آج تک پاراچنار شہر میں فوج و ایف سی ، پاراچنار کے محب وطن طوری و بنگش قبائل کی وجہ سے محفوظ ہے جن پر کوئی خودکش حملہ تو دور کی بات حتی کہ فوج و ایف سی اور پولیٹکل انتظامیہ پاراچنار بازار میں بغیر ہتھیار کے گھوم پھر سکتی ہے۔۔شاید یہی وجہ ہے کہ پاراچنار کے محب وطن طوری و بنگش قبائل کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک اور ریاستی ظلم و جبر روا رکھ کر دیوار سے لگایا جارہاہے،کہ انہوں نے ملک میں خودکش حملے ،جی ایچ کیو اور پی این ایس مہران پر حملوں میں حصہ نہیں لیا۔۔جب کہ ملک کے دیگر علاقوں اور بعض قبائلی علاقوں جہاں پر افواج پاکستان کے ساتھ لڑائی کو جہاد قرار دے کر خودکش حملے کئیے جاتے ہیں،بغاوت پر مبنی آزادی کے ترانے گائے جاتے ہیں،ان علاقوں کے لئیے ارباب اختیار نہ صر ف ترقیاتی پیکج کا اعلان کر رہے ہیں۔بلکہ دہشت گردوں کو عبرت ناک سزا دینے کی بجائے VIP پروٹوکول دے رہے ہیں۔۔۔۔ اس سے ملک میں دہشت گردی خاک ختم ہوگی۔۔۔

اب بھی وقت ہے اسلام آباد اور روالپنڈی کے ایوان اقتدار میں بیٹھنے والے حکمرانوں کے ساتھ کہ وہ پاراچنار کے محب وطن طوری و بنگش قبائل کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک اور دیوار سے لگانے کی پالیسی ترک کرکے چارسالہ غیر انسانی محاصرہ ختم کرکے ٹل پاراچنار روڈ کھول کر متعصب ایف سی کی بجائے پاک فوج یا کرم ملیشیاء کی نگرانی میں حقیقی معنوں میں روڈ محفوظ بناکر پاراچنار پر لشکر کشی کرنے والے طالبان اور ایک درجن سے ذیادہ مرتبہ مری معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والے شرپسندوں کو سزا دی جائے ۔وگرنہ یاد رکھیں کہ مظلوموں کی آواز براہ راست عرش الہی تک پہنچتی ہے اور ’’خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں‘‘ ۔ پاراچنار کے چار سالہ غیر انسانی محاصرے کو سرفراز نے ایک شعر میں کیا خوب بیان کیا ہے
شعب ابی طالب، غزہ یا کربلا کہوں!
اے پاراچنار تو ہی بتا تجھے میں کیا کیا کہوں!

(ختم شد)


image
 

image
 

image
Sajid Hussain
About the Author: Sajid Hussain Read More Articles by Sajid Hussain: 14 Articles with 13794 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.