عائشہ یاسین(کراچی)
2019 کے آخر تک وقت کی رفتار اس قدر زیادہ تھی کہ ہم نے دنیا کے قدم سے قدم
ملانے کے لئے بھاگنا شروع کردیا تھا۔ کب دن چڑھتا تھا اور کب رات ہوجاتی
تھی خبر نہ ہوتی ۔ زندگی ایک ریس کی مانند بھاگ رہی تھی۔ وقت کی کمی کا شور
ہر طرف برپا تھا کہ 2020 کا سورج طلوع ہوتے ہی قدرت نے اپنے لائحہ عمل میں
تبدیلیاں کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ریل کی پٹری پر بھاگتی ہوئی بے ہنگم زندگی کو
کسی نے زنجیر کھینچ کر روک دیا۔ دنیا بھاگتے بھاگتے پتھر کے سل کی طرح جم
گئی۔ جہازوں نے آسمانوں پر کمند ڈالنا چھوڑ دیا۔ سڑکوں پر چار پہیوں کا شور
تھم گیا۔ انسان جو گلوبلائزیشن اور ون ولیج کی باتیں کیا کرتا تھا، اوردور
دراز دنیا کے نقشے پر اپنا نشان ثبت کر رہا تھا اچانک اپنی رفتار کو لگام
دے کر جمود میں آگیا۔ بھائی چارہ، مساوات، رنگ و نسل کے تنازع سے انکاری
لوگ دوبارہ اپنے مذہب، ذات پاک ،نسلی امتیاز اور تعصب کا شکار ہوگئے۔ ایک
نا ختم ہونے والی بحث شروع ہوئی۔ دنیا میں اپنی ڈھاک جمانے کی بحث، اس دنیا
پر حکمرانی کی بحث، جو لوگ انسان کی جسمانی اور نفسیاتی آزادی کے لئے کوشاں
تھے وہی لوگ لوگوں کی غلامی کے متمنی دکھائی دیے۔ 2020 سے لے کر اب تک تمام
حالات ایک ہی تناظر میں مبتلا ئے حال ہیں کہ اب دنیا کا کیا ہوگا؟ یہ وباء
جس نے بنا کسی تفریق کے پوری دنیا کو اپنا یرغمال بنا رکھا ہے کیا کوئی اس
کو لگام ڈال پائے گا۔
2020 کے شروع میں جب اس وباء نے اپنے پاؤں گاڑنے شروع کئے تو ساری دنیا ایک
دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہی تھی۔ خاص کر ترقی یافتہ ممالک اور ان کے
رہنے والے اس بات پر اٹل تھے کہ یہ انسان کا بنایا ہوا کوئی سازشی پھندا ہے
جو دنیا کے لوگوں کے لئے تیار کیا گیاہے اور یہ ففت جرنیریشن وار سے جڑی
کہانی ہے جو کہ سوچی سمجھی سازش کے تحت تیار کی گئی ہے۔ لوگ اس بات پر یقین
رکھتے رہے کہ یہ وباء کے بنانے والوں کے پاس اس وباء کا علاج بھی موجود ہے۔
اس سلسلے میں چائنہ، امریکہ اور بھارت میں بڑی بحث جاری رہی۔ الزام تراشیاں
اور ثبوت فراہم کئے گئے۔ اس سارے معاملے میں پاکستان اور ایران کا نام بھی
شامل رہا۔ برطانیہ اور روس بھی موضوع بنے۔ سب سے پہلے اس وباء نے چین اور
پھر اٹلی میں تباہی پھیلائی اور یہ انکشاف ہوا کہ یہ مرض عمر رسیدہ لوگوں
کو متاثر کرتا ہے۔ تمام تناظر سے ہٹ کر یہ بات بڑی حیران کن رہی کہ
دنیااتنی ترقی کرنے کے باوجود اس مرض کی ہیئت اور مزاج کو سمجھنے میں ناکام
نظر آرہی تھی۔ تمام ممالک کے لئے یہ ایک چیلینج کے طور پر سامنے آئی۔ یہ
وباء کیسے پھیلی اس کا حتمی جواب ابھی تک مل نہیں سکا۔ امریکہ اورچائنا کے
درمیان یہ بحث جاری رہی کہ یہ سازش ان کی خود ساختہ ہے۔ دونوں ایک دوسرے پر
الزام تراشیاں کرتے رہے۔ پہلا کیس چائنا کے شہر وہان سے بر آمد ہونے کے
شواہد ملے تو کچھ عرصے بعد پہلا کیس کا انکشاف برطانیہ سے ملنے کا بتایا
گیا۔ ان تمام مراحل میں دنیا کا نظام درہم برہم ہوگیا۔ کاروبار رک گئے،
گاڑیاں سڑکوں سے غائب ہوگئی، جہازوں نے اڑنا چھوڑ دیا اور دنیا ایک ویران
جگہ بن گئی۔ جہاں آدمی آدمی سے کترانے لگا اور خود کو گھروں محصور کرنے کا
پابند ہوگیا۔ ترقی کا پہیہ رک گیا۔ سائنس مجبور ہوگئی۔ انسان آسمان سے گر
کر زمین پر رینگنے لگا۔
یہ وار پراکسی وار سے کچھ الگ ثابت ہوئی۔ معیشت کے اعتبار سے اقتدار کا
خاکہ بدل رہا ہے۔ طاقت ور ممالک کی گرفت اب کمزور پڑ رہی ہے۔ لگتا ہے کہ
دنیا کی حکمرانی کی ڈور اب نئے ہاتھوں میں جانے والی ہے۔ بھارت جو کہ دنیا
کے سوپر پاور ممالک کے لیے کام کرتا رہا ہے اس کی اپنی سر زمین اس وباء کی
لپیٹ میں آچکی ہے۔ امریکہ، انگلینڈ، اٹلی، فرانس، جرمنی جیسے ترقی یافتہ
ممالک اس کے وار سے بدحال ہوچکے ہیں۔ جی سیون اب تنزل کا شکار ہے۔ چائنہ نے
اپنی ساخت بحال کرلی ہے۔ افغانستان سے امریکی فوجیوں کا انخلا جاری ہے۔
بارڈر سیل ہوچکے۔ پاکستان پر اﷲ کا کرم ہوا۔ اس وباء نے پاکستان پر وار کم
کیا اور ہم ان مشکلات میں مبتلا ہونے سے محفوظ رہے جیسے یہ بڑے ممالک ہوئے۔
اب دنیا کا نقشہ بدل گیاہے۔ جغرافیائی اور ماحولیاتی تبدیلیوں نے ایک نیا
رنگ اختیار کیا ہے۔ جہاں اس وباء نے انسانوں کو نفسیاتی مسائل سے دوچار کیا
وہیں ماحولیاتی تباہ کاریوں میں بھی خاطر خواں اضافہ ہوا۔ گلوبل وارمنگ نے
شدت اختیار کرلی اور سردی و گرمی کا تناسب قدرے مختلف ہوچکا۔ اس تبدیلی کے
باعث زراعت کے شعبے میں اہم تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ جغرافیائی اعتبار سے
فصلوں کی کاشت اور نشو ونما میں فرق آیا۔ بارشوں اور سیلاب نے دشواریاں
کھڑی کی۔ انڈیا میں آنے والے طوفان نے گجرات کو نقصان پہنچایا۔ دوسری جانب
چائنا میں بن موسم برسات اور برف باری نے موسم کے تفریق کا عندیہ دیا۔
لوگوں کے مزاج کے ساتھ ہی دنیا کے تمام عوامل میں تبدیلی آچکی ہے۔ دنیا کی
تاریخی اوراق میں یہ بات ضرور لکھی جائے گی کہ جب حضرت انسان نے حد سے
تجاوز کرنا شروع کیا اور ایسی ایجادات کا ارادہ کیا جس سے خود کو خدا
سمجھنے لگا تو کچھ ایسے معاملات اور غلطیاں کر بیٹھا جس سے دنیا کا چرکھا
رک گیا۔ اس بات سے قطع نظر کہ یہ ایک انسانی سازش ہے یا اﷲ کی طرف سے سجایا
گیا ایک سبق، دنیا نے ایک ایسا وقت ضرور دیکھا جس میں تمام تر سائنسدان بے
بس دکھائی دیے۔ چاہے یہ امریکہ کی چال ہو یا بل گیٹس کا ڈرامہ، پر تیسری
دنیا کے رہنے والوں کے لیے بڑا کڑا وقت ثابت ہوا۔ روزگار اور صحت کے مسائل
اور تعلیمی نظام برباد ہوگئے۔ ہماری نوجوان نسل نفسیاتی دباؤ کا شکار رہی۔
آگے بڑھنے اور تعلیمی سرگرمیوں کی معطلی نے ہمارے نوجوانوں کو ایک بڑے
چیلینج میں مبتلا کر رکھا ہے۔ مستقبل میں کیا ہونے والا ہے اس کا ادراک کسی
کو بھی نہیں۔ سائنسدانوں، محققین اور تاریخ سازوں کے ہاتھ کچھ بھی رقم کرنے
سے قاصر نظر آتے ہیں۔ دنیا کی ترقی و تنزلی کے کون سے مدارج مستقبل قریب
میں رائج ہوں گے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
یہ بات واضع ہے کہ جینے کے تمام اصول و ضوابط کو بدلنے کا وقت آ چکا ہے۔
اپنے مقاصد کو ترتیب دینے اور تابناک مستقبل کی جانب قدم اٹھانا کے لیے ایک
مربوط نظام کو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ ہمارا قیمتی وقت ضائع ہوچکا ہے۔ اب
ہمیں پچھلے سال اور موجودہ سال کے نقصانات کا تخمینہ لگانا چاہیے اور بدلتے
دنیاوی رویوں کا سامنا کرنے کی تیاری کرنی چاہیے۔ تاکہ ہم ملکی بدحالی کو
خوش حالی میں بدل سکیں۔ منظم منصوبہ بندی اور تمام سیاسی و غیر سیاسی
تنظیموں کو ایک ساتھ ملکی استحکام کے لئے کام کرنا ہوگا۔ ایک دوسرے کی
مخالفت میں وقت برباد کرنے کے بجائے ملکی سلامتی پر کام کرنا ہوگا۔ تعلیمی
اداروں کو مضبوط اور مستحکم لائحہ عمل دینا ہوگی۔ جو نقصان اس وباء نے
ہماری معیشت کو پہنچایا ہے اس کو دور کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ملک کے تمام
صاحب اقتدار لوگ اپنا کردار ادا کرے۔ جو ایوانوں میں موجود ہیں وہ اپنا حق
رائے دہی کا استعمال کرتے ہوئے عوام دوست پالیسیوں کو منظور کرائیں۔ خاص کر
ہمارا نوجوان طبقہ جو اس مدت میں سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے اس کی فلاح اور
بہبود کے لیے ہنگامی بنیادوں پر ادارہ قائم کیا جائے جہاں تعلیم کے اخراجات
کو کم کرنے کی کوشش کی جائے وہیں تدریسی نظام کو رشوت اور شارٹ کٹ جیسی
عوامل سے پاک کیا جائے۔
ہمیں ملکی اور انفرادی طور پر ہر ممکن حالات کا سامنا کرنے کے لئے تیار
رہنا ہے کیونکہ آنے والے وقت میں کیا ہونے والا ہے؟ اس کا جواب ملنا ابھی
بھی باقی ہے۔ سوال بہت سے ہیں جن میں اہم سوال ہماری آنے والی نسل سے متعلق
سب سے اہم ہیں۔ ہمارے بچے جو اپنی آزادی کھو چکے ہیں کیا وہ اس شک و وسوسے
والے ماحول میں پروان چڑھ پائیں گے؟ اگر ہاں تو وہ کونسے محرکات ہوں گے جن
سے گزر کر ان کی ذہنی و نفسیاتی اصلاح ممکن ہوسکے گی؟ کیا نوع انسانی
دوبارہ آزاد فضا میں سانس لے پائی گی؟ اپنوں اور پرایوں کو گلے لگا کر اپنی
موجودگی کا احساس دلا پائے گی یا ایک ہی چھت کے نیچے رہتے ہوئے بھی ایک
دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتی رہے گی کہ کہیں یہ وباء ان کو بھی نہ دبوچ
لے۔
شاید دنیا واقعی بدل گئی ہے۔ انسان سے جینے کا حق لے لیا گیا ہے۔ کیا دنیا
کی تعطلی کی وجہ یہ دنیاوی نا خدا ہیں؟کیا وہ طاقت کے حصول کے لیے انسانی
جانوں کو استعمال کر رہے ہیں؟ کیا یہ ویکسین انسانوں کو کنٹرول کرنے کا آلہ
کار ثابت ہوگی؟ کیا ویکسین ہمارے مستقبل کی بقاء کا ضامن ہوگا؟ کیا یہ
ویکسین ہمارے دماغ پر قابو کرنے کی سازش ہے؟ یہ وہ سوال ہیں جو ہر ذہن میں
گردش کر رہے ہیں۔ دنیا میں موجود ہر ایک شخص اس تکلیف میں مبتلا ہے کہ کب
دنیا سے وباو ختم ہو اور وہ اسی طرز پر زندگی گزار سکے جب دنیا آزاد ، بے
فکر اور ہر شبہے سے پاک تھی۔ ہماری سوچ اور ہمارا عمل محدودیت کا شکار
ہوچکا ہے۔ ہم مستقبل کے منصوبہ بندی کرنے سے قاصر ہیں۔ ہم وہ انسان ہیں جو
دو سال پہلے تک ترقی کے میدان میں معرکہ سر کر رہے تھے پر آج ایک ویکسین کا
محتاج ہوچکے ہیں اور ہر شخص ایک سوال کر رہا ہے کہ کیا واقعی دنیا بدل گئی
ہے؟
|