اس وقت یورپ اور اسلام ایک دوسرے کے مدِ مقابل کھڑے
ہیں۔امریکہ، اسرائیل، بھارت اور یورپ اسلام فوبیا کی وجہ سے اسلام کی راہ
میں دیوار بن کر کھڑے ہو گے ہیں ۔ اسلام فی الوقت کمزورو ناتوانی کا
استعارہ بنا ہوا ہے جبکہ مغربی طاقتیں غلبہ اور جا ہ و جلال کا استعارہ ہیں
لہذا مختلف حیلے بہانوں سے شجرِ اسلام کی بیخ کنی کی مذموم سازشیں پورے
عروج پر ہیں لیکن اس کے باوجود بھی مسلمان اپنا وجود قائم و دائم رکھے ہوئے
ہیں ۔ سارے اسلامی ممالک میں اضطراب،بد امنی اور شکست و ریخت کا راج ہے جسے
حیلے بہانوں سے مزید ہوا دی جا رہی ہے۔تیل کی آمدنی کی وجہ سے دنیا کے زرِ
کثیر کا مالک ہونے کے باوجوداسلامی دنیا کے عوام میں غربت،جہالت ، اور بد
حالی کا دور دورہ ہے ۔افغانستان، شام لیبیا ، یمن ، عراق عدو کے نشانے پر
ہیں۔تمام سازشوں کا رخ پاکستان کی جانب ہے کیونکہ پاکستان واحد ایٹمی قوت
ہے اور اس قوت سے اسلام کے سارے عدو لرزاں ہیں۔بھارت، امریکہ اور اسرائیل
یک مشت ہو کر پاکستان کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں کیونکہ انھیں اسی ایک ملک
سے خطرہ ہے کیونکہ اس ملک میں عاشقانِ رسول ﷺ بستے ہیں جو ناموسِ رسالت کی
خاطر اپنی جان کا نذرانہ دینے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔اقبال نے انہی لمحوں
کے لئے عشق و مستی میں ڈوبی آواز سے کہا تھا ( وہ فاقہ مست جو موت سے ڈرتا
نہیں ۔،۔ روحِ محمد اس کے بدن سے نکال دو ) سچ تو یہ ہے کہ نہ یہ روح جدا
ہو سکتی ہے، نہ عشق مدھم پڑ سکتا ہے اور نہ ہی مغرب کے عزائم پورے ہوسکتے
ہیں کیونکہ عاشقانِ رسول ﷺاپنے عشق پر ڈٹے ہوئے ہیں ۔ شوقِ شہادت میں
سرکارِ دو عالم کی نظر میں اپنی محبت کی سر خرو ئی کا پروانہ حاصل کرنے کی
بیتابی انھیں چین سے رہنے نہیں دیتی۔جو ہمہ وقت جان لٹانے کیلئے تیار ہوں
انھیں کوئی کیسے ڈرا سکتا ہے؟
افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلاء کے بعد ایک بڑی جنگ ہمارے دروازے پر
دستک دے رہی ہے۔آزمائش کی گھڑی سر پر کھڑی ہے لیکن حکمران حسبِ معمول باہمی
سر پھٹول میں مشغول ہیں۔ دشمن خوش ہیں کہ مسلمانوں کی یکجہتی اور اتحاد
پارہ پارہ ہے ۔انتشارکی شکار کوئی بھی قوم سینہ تان کر دشمن کا مقابلہ کرنے
کی سکت نہیں رکھتی لہذ مسلم امہ کو سب سے پہلے اپنی صفوں میں اتحاد پیدا
کرنا ہو گا تا کہ دشمن کو شکست سے ہمکنار کیا جا سکے۔مسلم دنیا میں کوئی
ایک لیڈر بھی ایسا نظر نہیں آ رہا جس کی بات کو سارے من و عن قبول کر
لیں۔ایک زمانہ تھا کہ ذولفقار علی بھٹو شہید پوری اسلامی دنیا میں قدر کی
نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ۔ شاہ فیصل شہید،کرنل قضافی ،حافظ الاسد،یاسر عرفات
اور شیخ زائد بن النہیان ان کی فہم و فراست کے دل سے قائل تھے لہذا ان کی
سوچ،فکر ،فراست اور منصوبے پر عمل کرتے تھے۔ ایٹمی قوت کے حصول کا کارنامہ
بھی ان راہنماؤں کی سر پرستی کے بغیر نا ممکن تھا۔ تیل کا ہتھیار بھٹو کی
ذہانت کاشاہکار تھا ۔یہ بات امریکہ بہادر کو ناگوار گزرتی تھی کہ ذولفقار
علی بھٹو اسلامی دنیا کی آنکھ کا تارا بن جائے اور ایٹمی قوت کے حصول سے
امریکہ کیلئے خطرہ بن جائے لہذا اسے ہٹانا ناگزیرتھا ۔امریکہ محض اس لئے
ذولفقار علی بھٹو کی جان کے درپہ تھا کہ ایسا کرنا مغربی دنیا کو کسی ان
دیکھے خطرہ سے محفوظ رکھنا تھا۔اسے سرِ دارکھینچ دیا گیا تو اسلامی دنیا
دیدہ و بینا قائدکی عدم موجودگی میں تقسیم در تقسیم ہوتی چلی گئی۔اس کے بعد
کوئی ایسا بڑا لیڈر منظرِ عام پر نہیں آ سکا جو اپنی عقل و دانش اور معاملہ
فہمی کی وجہ سے سب کو قائل کر سکے۔اعتماد کا رشتہ بار بار تھوڑا قائم ہو تا
ہے۔اسے ایک دفعہ زک پہنچ جائے تو پھر شکوک و شبہات کبھی دور نہیں ہوتے۔بعد
کے زمانوں میں رونما ہو نے والے واقعات نے اسلامی دنیا کو مزید تقسیم کرنے
میں جلتی پر تیل کا کام کیا۔،۔
افغانستان میں روسی فوجوں کی یلغار سے اسلامی دنیا ایک نکتہ پر مجتمع ہو ئی
تھی لیکن روسی فوجوں کے انخلاء کے بعد یہ اتحاد تاش کے پتوں کی طرح بکھر
گیا۔خود مجا ہدینِ افغا نستان ایک دوسرے پر پل پڑے اور خانہ جنگی کی لہر نے
پورے افغا نستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔بد امنی کے اس دور میں ۱۹۹۴ میں
طالبان کا ظہور ہوا اور یوں افغانستان امن و امان کی دولت سے بہرہ ور
ہوا۔ملا عمر کی سربراہی میں دولتِ اسلامیہ افغانستان کا قیام عمل میں آیا
جسے دوسرے اسلامی ممالک نے اپنے لئے خطرے کی گھنٹی سمجھا اور یوں افغانستان
کے خلاف ایک نئی سازش تیار ہوئی جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔امریکہ اور اس
کے حواری ایک دفعہ پھر میدان میں نکلے۔ نائن الیون کو ٹوین ٹاور پر حملے نے
پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ امریکہ نے اسے اپنی خود مختاری پر حملہ قرار
دے کر ساری دنیاکو افغانستان کے خلاف یکجا کر لیا۔اس سانحہ نے پوری دنیا کے
نظام کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا ۔القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی افغا
نستان میں موجودگی نے امریکہ کو جواز فراہم کیا کہ وہ افغا نستان پر چڑھائی
کر دے۔پاکستان نے اپنے اسلامی ملک کا ساتھ دینے کی بجائے امریکہ کا ساتھ
دیا۔جنرل پرویز مشرف نے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ بلند کر کے امریکہ کو
اپنی غیر مشروط حمائت کا یقین دلا یا تو امریکی حملہ کے نتیجہ میں ملا عمر
کی قائم کردہ طالبان حکومت کا خاتمہ ہوا اور احمد کرزئی افغانستان کے نئے
صدر نامزد ہو ئے۔امریکی حمائت کی وجہ سے ٹی پی ٹی نے پاکستان کے اندر دہشت
گردانہ کاروائیو ں کا آغازکیا جس کی وجہ سے پاکستان کو بھاری جانی اور مالی
نقصانات اٹھانے پڑے لیکن پاکستان امریکی حمائت سے دستبردار نہ ہوا۔پاکستان
کو اس غیر مشروط حمائت کے عوض اربوں ڈالر کی فوجی،معاشی،تجارتی اور سیاسی
امدادملی جس سے جنرل پرویز مشرف کا اقتدار مزید مضبوط ہو گیا اور اپوزیشن
کا مقدر جیلیں،جلا وطنیاں اور جیل کی تنگ و تاریک کوٹھریاں قرار پائیں ۔ نو
سالوں تک یہ ٹوپی ڈرامہ چلتا رہا اور جنرل پر ویز مشرف بلا شرکتِ غیرے
پاکستان پر حکومت کرتا رہا۔،۔
اس دور میں جنرل پرویز مشرف کی آن بان دیکھنے والی تھی کیونکہ صدرِ امریکہ
(جارج بش) کی بے پناہ حمائت اس کی پشت پر کھڑی تھی۔اب جسے امریکی صدر کی
اشیر واد حاصل ہو جائے اسے کون ہلا سکتا ہے ؟ جنرل پرویز مشرف امریکی حمائت
سے اقتدار کی مضبوطی کو ذاتی اوصاف پر معمول کرنے لگا ۔اسے اپنی مقبولیت کا
زعمِ باطل لا حق ہو گیا۔اب وہ خود کو ایک مقبول سیاسی لیڈر تصور کرنے لگا
اور امریکی پشت پناہی اس کی نظروں میں ثانوی حیثیت اختیار کر گئی۔یہی وہ
لمحہ تھا جب اس کے اقتدار کو پہلا دھچکہ لگا۔ ۲۰۰۷ کے انتخابات سر پر
آپہنچے اور جلا وطن قائدین نے وطن واپسی کا اعلان کر دیا۔محترمہ بے نظیر
بھٹوشہید کا ۱۸ اکتوبر ۰۰۷ ۲ کو وطن واپسی کا اعلان مشرف کے اقتدار کیلئے
بلیک وارنٹ تھا ۔میاں محمد نواز شریف کوششِ بسیار کے باوجود وطن لوٹنے میں
پس و پیش سے کام لے رہے تھے ۔ان کا جنرل پرویز مشرف سے کیا گیا دس سالہ
معاہدہ ان کے پاؤں کی زنجیر بنا ہوا تھا ۔اس معاہدہ میں سعودی عرب ضامن تھا
لہذا میاں محمد نواز شریف کیلئے واپسی کی راہیں مسدود تھیں۔یہ تو بی بی
شہید کی فراست کاکمال تھا کہ انھوں نے میاں محمد نواز شریف کی وطن واپسی کی
راہیں بھی کشادہ کیں۔ مقبول قیادت کی وطن واپسی نے جنرل پرویز مشرف کے
اوسان خطا کر دئے ۔ان کے سارے گھوڑے داغِ مفارقت دے کر دوسری جماعتوں میں
گھس گے اور یوں جنرل پرویز مشرف کا اقتدار ریت کی دیوار کی طرح رزقِ خاک
ہوا ۔امریکہ ،اسٹیبلشمنٹ اوراسلامی ممالک کی ضمانتوں نے اس سارے عمل میں
جنرل پر ویز مشرف کے ہاتھ پاؤں باندھ دئے اوروہ بے بسی کی تصویر بنا اپنی
شکست کا تماشہ دیکھتارہا ۔اس نے اپنے جس اقتدار کو بے نظیر بھٹو کے خون سے
توانا ئی دینے کی منصوبہ بندی کی اسی خون نے اس کے اقتدار کا محل زمین بوس
کر دیا ۔ اسے جس مقبولیت کا زعم لاحق تھا وہ پلک جھپکنے میں ہو ا ہو گئی۔نہ
کوئی ہمنو ارہا اور نہ کو ئی ہمدم۔اس کے سارے ساتھی اس کا ساتھ چھوڑگے۔
جنرل پرویز مشرف چٹیل میدان کی سخت دھوپ میں بالکل تنِ تنہا رہ گیا اور کسی
نے اس کے ساتھ کھڑا ہونے کی جرات نہ کی ۔آمریت ایک دن یونہی رسوا ہوا کرتی
ہے، جورو استبداد کا یہی حشر ہوا کرتا ہے اور ذاتی اقتدارکی خاطر قومی مفاد
کا سودا کرنے والوں کی سیاہ بختی نشانِ عبرت بن جاتی ہے ۔،۔
|