افغانستان میں امن وسلامتی کیلئے صدراشرف غنی اور طالبان کے درمیان مصالحت ناگزیر

افغانستان میں اشرف غنی حکومت کتنے دن یا ہفتوں کی مہمان ہے اس سلسلہ میں کچھ کہا نہیں جاسکتا اور یہ بھی ممکن ہیکہ اشرف غنی تین لاکھ افغان فوج کے ذریعہ ملک میں ایک مضبوط و مستحکم حکومت قائم رکھ سکتے ہیں۔ذرائع ابلاغ کے مطابق افغان طالبان کی بڑھتی ہوئی کامیابوں سے متعلق جو خبریں منظرِعام پر آرہی ہیں اس میں کتنی صداقت ہے اس سلسلہ میں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ لیکن میڈیا بشمول سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا وغیرہ کے ذریعہ یہ بتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ افغانستان میں طالبان نصف سے زائد علاقوں پر قابض ہوچکے ہیں۔افغان طالبان کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان میں کسی بھی حکومتی نظام کو کابل حکومت کے مقابلے میں چلانے کی زیادہ اہلیت رکھتے ہیں۔طالبان ترجمان سہیل شاہین کا کہنا ہیکہ روزانہ کی بنیاد پر دسیوں اضلاع طالبان کے سامنے سرنڈر کررہے ہیں اور ایسا افغان افواج کو دستیاب ہتھیاروں اور اسلحے کے باوجود ہورہا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق طالبان نے گذشتہ دو ہفتوں کے درمیان ایران، تاجکستان، ترکمانستان، چین اور پاکستان کی سرحد پر موجود علاقوں پر قبضہ کرلیا ہے۔ طالبان ترجما ن سے کئیے گئے اس سوال کہ کیا ان کے پاس اپنے زیر قبضہ علاقوں میں روز مرہ کے امور کو چلانے کیلئے وسائل موجود ہیں ؟ جس کے جواب میں انکا کہنا ہیکہ ہم افغانستان کے لوگ ہیں اور اپنے لوگوں کے درمیان رہ رہے ہیں ، ہمارے پاس صرف ایک سال کا نہیں بلکہ 25سال کا تجربہ ہے۔ ہمارے پاس تجربہ کار لوگ ہیں جو کابل حکومت میں موجود افراد سے زیادہ تجربہ رکھتے ہیں۔ شہیل شاہین کا کہنا ہے کہ طالبان کے قبضے میں جانے والی سرحدی کراسنگز میں لوگوں اور اشیاء کی آمد و رفت میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی اور تاجر معمول کے مطابق اپناکاروبار کررہے ہیں۔ ان ہی کے مطابق اسلامی امارت کے تحت اب ایسا بغیر بدعنوانی اور آسانی سے معمول کے مطابق ہورہا ہے اور یہ لوگ اس سے خوش ہیں۔ انہوں نے اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی اداروں اور ممالک سے طالبان کی مالی مدد کرنے کی درخواست کی ہے۔ انکا مزید کہنا ہے کہ ’’عوام کو سہولیات کی فراہمی اہم ہے، ہم تقریباً افغانستان کے 85فیصد علاقے کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اس لئے ان علاقوں میں دفاتر کو فعال رکھنے کے لئے ہمیں مالی مدد کی ضرورت ہے‘‘۔

افغانستان میں چاہے اشرف غنی کی حکومت ہو یا طالبان اس پر قبضہ کرلیں اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں ۔ لیکن اتنا ضرور ہو کہ جو بھی افغانستان میں حکومت کریں وہ افغان عوام کے ساتھ ساتھ پڑوسی و دیگر ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کے فروغ کیلئے اہم کردار ادا کریں۔ ملک میں امن و سلامتی کی فضا بحال کرنے کی کوشش کریں ۔ برسوں سے افغان عوام جن مصائب و آلام سے دوچار ہیں اور جتنی قربانیاں دے چکے ہیں اس سلسلہ اب بند ہونا چاہیے۔ طالبان جب اسلامی مملکت کے قیام کی بات کرتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ ملک میں دہشت گرد حملوں کا سلسلہ بند کریں۔ میڈیا کی جانب سے منظرعام پر آنے والی خبروں سے ایسا محسوس ہوتا ہیکہ اشرف غنی حکومت کے بجائے امریکہ اور روس ودیگر ممالک طالبان کی پیشرفت کو دیکھتے ہوئے اشرف غنی سے ناطہ توڑ لئے ہیں۔ ذرائع ابلاغ خصوصی طور پر پاکستان میڈیا کے بعض ادارے بشمول سوشل میڈیا افغان حکومت کی باگ ڈور طالبان کے کنٹرول میں آنے کے امکانات کو یقینی بتانے کی جستجو میں دکھائی دے رہی ہے۔ امریکی اور نیٹو افواج کا افغانستان سے تخلیہ جہاں تک انکی ناکامی یا طالبان کے اثرو رسوخ کو ظاہر کرتا ہے وہیں افغانستان میں طالبان کے سامنے حکومتی فورسزکے بعد اہلکار حالات کو دیکھتے ہوئے بغیر کسی خون خرابے کے ہتھیار ڈالنے کو بہتر محسوس کررہے ہونگے، ایسا نہیں ہے کہ طالبان کے سامنے افغان فورسز نااہل یا کمزورہیں ۔بعض سرحدی اود دیہی علاقوں میں طالبان کی بڑھتی ہوئی پیشرفت کو دیکھتے ہوئے افغان عوام فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں کہ وہ حکومت و افغان فوج کا ساتھ دیں یا طالبان کا۰۰۰ کیونکہ ماضی میں طالبان کی مخالفت کرکے عوام نے بہت بڑی قربانی دی ہے ، شاید یہی وجہ ہوسکتی ہے کہ اس مرتبہ طالبان بڑی آسانی کے ساتھ ملک کے کئی اضلاع میں قبضہ حاصل کرنے کے دعوے کررہے ہیں۔حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ہزاروں افغان عوام اپنے گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ بڑے شہروں خصوصاً دارالحکومت کابل میں عوام میں طالبان کا خوف و ہراس بڑھتا جارہا ہے، انہیں جو آزادی موجودہ حکومت میں حاصل ہے وہ طالبان کی حکمرانی میں ممکن دکھائی نہیں دے رہی ہے، طالبان شرعی قوانین کے مطابق زندگی گزارنے کی تلقین کرتے ہوئے سخت قوانین لاگو کرسکتے ہیں اسی کا ڈر بعض افغان شہریوں کو ستائے جارہا ہے۔

گذشتہ دنوں امریکی صدر جوبائیڈن نے افغانستان سے راتوں رات فوجی انخلا کے بعد کہا تھا کہ انہیں تین لاکھ مضبوط افغان افواج پر اعتماد ہے ۔ جس کے جواب میں طالبان وفد کے سربراہ شہاب الدین دلاور نے اپنے دورے ماسکو کے موقع پر کہا کہ اگر طالبان چاہیں تو دو ہفتوں میں افغانستان کا کنٹرول سنبھال سکتے ہیں۔ انکا کہنا تھاکہ طالبان کے پاس قریب 75ہزار جنگجو ہیں جن کا مقابلہ افغان سیکیوریٹی فورسز کے تین لاکھ جوانوں سے ممکن نہیں۔روس کی پالیسی سے بھی ایسا محسوس ہوتا ہیکہ افغانستان میں طالبان کی بڑھتی ہوئی کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے وہ افغانستان میں غیر جانبداری کی پالیسی کے بجائے طالبان کی حمایت پر آمادہ ہوچکا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہیکہ امریکہ اور اسکے اتحادی ممالک نیٹو کے چند ہزار افواج سے طالبان ڈرے ہوئے تھے یا پھر امریکہ اور نیٹو ممالک طالبان سے کسی خفیہ معاہدے کے تحت انہیں افغانستان میں حکومت کرنے کاموقع فراہم کررہے ہیں؟طالبان کو دہشت گرد قرار دینے والے بھی آج انہیں قبول کرنے پر آمادہ نظر آرہے ہیں۔ واضح رہے کہ امریکہ کی افغانستان سے راتوں رات واپسی نے ہی دیگر عالمی طاقتوں کو طالبان کی طاقت کو قبول کرنے پر مجبور کردیا ہے ۔ موجودہ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے افغان صدر اشرف غنیبھی مصلحت پسندی و دوراندیشی سے کام لیں تو انہیں اور انکے دیگر رفقائے کار یعنی حکومت میں موجود قائدین و عہدیداروں کو ملک میں امن و سلامتی کے ساتھ حکومت کرنے کے مواقع فراہم ہوسکتے ہیں۔ ایسا نہیں ہیکہ افغان افواج طالبان کا مقابلہ نہیں کرسکتی ، امریکہ نے افغان افواج کو خصوصی تربیت دے رکھی ہے اس حیثیت سے افغان افواج طالبان کا بہترین مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوگیلیکنتین لاکھ افواج کا مقابلہ 75ہزار طالبان سے ہوگا تو کتنا خون خرابہ ہوگا اس کا اندازہ لگانے سے روح کانپ اٹھتی ہے۔طالبان ، صدر اشرف غنی کی افغان افواج کے ساتھ مل کر ملک کی سلامتی و ترقی کے لئے اسلامی قوانین کے مطابق حکومت میں حصہ دار بنے تو ہر دو کے لئے بہتری کا باعث ہوگا۔ کاش ایسا ہوتا۰۰۰ لیکن اسلام دشمن طاقتیں ایسا ہونے نہیں دیں گی۔
طالبان نے افغانستان میں ترکی کی فوج رکھنے کے فیصلہ کے خلاف خبردار کرتے ہوئے کہا ہیکہ ترکی کا یہ فیصلہ ’’قابلِ نفرت‘‘ ہے۔ طالبان کا کہنا ہیکہ یہ فیصلہ غلط مشورے پر مشتمل ہے اور ہماری خود مختاری ، علاقائی سالمیت کے ساتھ ساتھ قومی مفادات کی خلاف ورزی ہے۔ بتایا جاتا ہیکہ ترک صدر رجب طیب اردغان نے 9؍ جولائی کو ایک بیان میں کہا تھاکہ ترکی اور امریکہ اس بات پر متفق ہوگئے ہیں کہ افغانستان سے امریکی افواج کے نکلنے کے بعد ترک فورسز کابل ایئر پورٹ کو محفوظ رکھنے کیلئے اپنی فوج رکھے گی۔طالبان ترجمان ذبیح اﷲ مجاہد نے کہا ہیکہ ترکی گذشتہ بیس سال سے نیٹو کے ساتھ افغانستان میں رہ رہا ہے اور اگر وہ اب بھی رہنا چاہتا ہے تو ہم بغیر کسی شک و شبے کے اسے ایک قابض تصور کرینگے اور اس کے خلاف کارروائی کرینگے۔ انکا کہنا ہے کہ ترکی نیٹو کا واحد مسلم رکن ملک ہونے کی وجہ سے افغانستان میں طالبان اور کسی دوسرے شدت پسند گروہ کی جانب سے شاذ و نادر ہی اس کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا ہو۔ترک صدر نے ابھی تک طالبان کی جانب سے دی گئی وارننگ کا کوئی جواب نہیں دیا ہے۔اب دیکھنا ہیکہ ترکی اشرف غنی حکومت کا ساتھ دیتا ہے یا طالبان کا۰۰۰ طالبان ترجمان سہیل شاہین نے ایک سوال کے جواب میں کہا ہیکہ طالبان کی نئی حکومت ملک میں کسی کو حریف یا حریفوں کیلئے میدان نہیں بننے دیں گی ۔ انکا کہنا ہیکہ جب افغانستان میں اسلامی حکومت ہوگی تو ہمیں ملک کی تعمیر نو کی ضرورت ہوگی اس لئے ہم دوسرے ممالک سے تعاون کریں گے ، جو ہمارے عوام کے لئے فائدہ مند ہوگی، لیکن ہم افغانستان کو کسی کے لئے میدان نہیں بنے دیں گے۔

اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کرنا غداری۰۰۰ تیونس کے صدر ڈاکٹر قیس سعید
تیونس کے 61سالہ نئے منتخبہ صدر ڈاکٹر قیس سعید قانون کے ریٹائرڈ پروفیسر ہیں ۔ انہوں نے آزاد حیثیت سے صدارتی انتخابات میں حصہ لے کر 77%فیصد حاصل کرکے دنیا کو حیرت زدہ کردیا۔انہیں کسی سیاسی پارٹی کی حمایت حاصل نہیں تھی ۔دوسرے نمبر پر آنے والے ارب پتی نبیل القروی اربوں روپے انتخابی مہم میں لگا کر بھی ہار گئے ۔بتایا جاتا ہے کہ ڈاکٹر قیس سعید نے چند ہزار روپے سے انتخابی مہم چلائی اور کامیابی حاصل کی ان کی انتخابی مہم میں نوجوان پیش پیش تھے اور انہیں پچیس صدارتی امیدواروں میں سے کامیابی دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔انتخاب سے پہلے ایک ٹی وی مذاکرہ ہوا جس میں ان سے کچھ سوال و جواب دیکھیں۔
سوال۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟
جواب۔۔ تعلقات بحالی کا لفظ ہی غلط ہے اس کے لیے صحیح لفظ غداری ہے جو بھی اس سے تعلقات رکھے گا وہ غدار ہو گا ۔
سوال۔ ہمارے ملک تیونس میں یہودیوں کی ایک عبادت گاہ ہے جس کو الغریبہ کہتے ہیں بہت سے یہودی اس کی زیارت کے لیے تیونس آتے ہیں ان کے بارے میں آپ کی پالیسی کیا ہو گی ؟
جواب۔ہم یہودیوں کے حقوق کی حفاظت کریں گے لیکن اسرائیلی شہریوں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہو گی۔
سوال۔ یعنی وہ اسرائیلی پاسپورٹ پر تیونس نہیں آ سکتے؟
جواب۔ ہرگز نہیں اسرائیلی پاسپورٹ کے ساتھ کوئی شخص تیونس میں داخل نہیں ہوسکتا۔
سوال۔حیرت سے۔۔۔ یعنی کوئی اسرائیلی تیونس نہیں آ سکے گا ؟
جواب۔بالکل نہیں۔ ہرگز نہیں جس ملک نے مسلمانوں کو ان کے وطن سے نکال کر در بدر کر دیا ہے میں ان کو اپنے ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دوں گا۔
سوال۔ پانچ سیکنڈ رہ گئے ہیں آپ کوئی خاص بات کہنا چاہتے ہیں؟
جواب۔ میں یہ ہی کہوں گا اسرائل سے تعلقات غداری ہے ۔ یہ یاد رہے اس وقت پوری عرب دنیا میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے اور یہ موقف اختیار کرنا معمولی بات نہیں ۔

بتایا جاتا ہے کہ انتخاب کے دوسرے مرحلے میں ان کا سب سے بڑا مخالف امیدوار نبیل القروی کرپشن کے الزام میں گرفتار تھا اس وجہ سے قیس سعید نے بھی اپنی انتخابی یہ کہہ کر روک دی کہ میرا مخالف مہم نہیں چلا سکتا تو مجھے بھی نہیں چلانی چاہیے۔ ووٹنگ سے چند روز قبل نبیل کے رہا ہونے پر انتخابی مہم شروع کر دی ۔یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہنو منتخب صدر کی اہلیہ ایک جج ہیں۔ صدر نے حلف لینے کے فورا" بعد اپنی اہلیہ کو بغیر تنخواہ کے پانچ سال کے لیے چھٹی دے دی ہے تا کہ ان کے فیصلوں سے جانبداری کا تاثر نہ ابھرے ۔

ماضی میں تیونس میں عجیب و غریب صدور رہے ہیں۔ سابق صدر حبیب ابو رقیبہ نے موسم گرما کے روزے ساقط کرنے کا اعلان کیا تھا ایک اور صدر نے قرآن کے قانون وراثت میں ترمیم کر کے عورت اور مرد کا حصہ برابر برابر کر دیا تھا ایک اور صدر داڑھی اور حجاب کے خلاف جنگ کرتے رہے ۔

موجودہ منتخبہ صدر نے اعلان کیا ہے کہ قرآن کے احکامات حتمی اور ابدی ہیں اور ان میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی جا سکتی ۔عرب دنیا میں اس قسم کا حکمران غنیمت ہے۔ صدر کی اپنی کوئی سیاسی پارٹی نہیں ہے لیکن ایک بڑی اسلامی پارٹی تحریک نہضت نے ان کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے اس پارٹی کو الیکشن میں سب سے زیادہ سیٹیں ملی ہیں اور امید ہے وہ حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ ویسے تیونس میں صدارتی نظام ہے۔اب دیکھنا ہیکہ نومنتخبہ صدر کتنے عرصے تک ملک میں اسلامی قوانین کے تحت حکومت چلاتے ہیں اور اسرائیل کے تعلق سے انہوں نے انتخابات سے قبل جو تقاریر کیں تھیں اس پر قائم رہتے ہیں یا نہیں۰۰۰
***
 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 209297 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.