سپہ سالار مجاہد اسلام جنرل حمید گل کا وہ قول تاریخ کے اوراق میں سنہری
حروف سے لکھا جائے گا: ’’ہم نے افغانستان کے اندر امریکہ کی مدد سے روس کو
شکست دی پھر لکھا جائے گاکہ افغانستان کے اندر امریکہ کی مدد سے امریکہ کو
شکست دی‘‘۔ آج سے 20 سال پہلے کسی کے خیال اور گمان میں بھی یہ بات امکانی
طور پر نہیں تھی کہ نہتے افغانی سپر طاقت امریکہ کی پیشانی پر ذلت و رسوائی
کا نشان ثبت کردیں گے۔ اس طویل جنگ میں امریکہ نے اپنی تمام تر جدید ایٹمی
ہتھیار سے لیس ہونے کے باوجود افغان قوم کے اعصاب پر سوار نہیں سکا۔اس کے
برعکس یہ فاقہ مست افغان قوم کسی حال میں اور کسی وقت امریکہ کو خاطر میں
نہیں لائی اور نہ ہی کسی مسئلے میں معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیا۔یہ حسن
اتفاق ہے کہ اس دوران طالبان کا تو نہ موقف بدلا اور اور نہ فرد تبدل ہوا
لیکن امریکہ کا سب کچھ بدل گیا۔ قوموں کی تقدیریں یوں ہی نہیں بدلتیں، بلکہ
قومیں اپنے فکرو عمل اور جدوجہد کی قوت سے اپنی تقدیریں بدلتی اور بناتی
ہیں۔اپنے دین اور تہذیب کی حفاظت وہی قوم کرسکتی ہے جو بیدار، فعال،متحرک
اور خطروں کا مقابلہ کرتی ہے۔ تاہم جو قومیں تعیش پسند اور کام سے جی چراتی
ہیں حلال اور حرام میں اپنی سستی اور غفلت کے سبب تمیز کرنا بند کردیتی
ہے۔مفاد پر ستی اور مفت خوری ان کی عادت کا حصہ بن جاتی ہے تو وہ قوم نہ
خود زندہ رہ سکتی ہے اور نہ وہ اپنے قیمتی سرمایہ حیات کا تحفظ اور دفاع
کرسکتی ہے۔بلکہ وقت اور حالات ان کے نام و نشاں کو حرف غلط کی طرح مٹا دیتا
ہے۔دنیا کی تاریخ میں آج یونان، روم اور خود مسلم حکومتیں اسی طرح تہذیب و
تمدن کے بڑے بڑے مراکز اور مینار قصہ پارینہ ہو چکے ہیں۔2001 ء میں طالبان
کو دہشت گرد قرار دے کر اس کے ہمنواوں تک کو غارت کرنے کا اعلان کردینے کی
دھمکی دینے والی سْپر پاور نے طالبان کو امن کی امید بتاکر امن معاہدہ
کرلیا۔مریکہ کو اپنی شکست کا احساس بہت پہلے ہوگیا تھا اس لیے اوبامہ نے
جنوری 2012ء میں امن مذاکرات کے لیسے دوحہ قطر میں طالبان کا دفتر
کھلوایاتھا۔ طالبان جسے امریکہ نے دہشت گرد کہا۔ اٹھارہ سالوں تک میزائل سے
حملہ کیا۔ آسمان سے بموں کی برسات کی۔ ہر ٹھکانے پر چھاپہ مارا۔ مسجدوں اور
مدرسوں کو بھی نشانہ بنایا۔ آج اسی طالبان کے سامنے امریکہ جھکنے پر مجبور
ہوا۔ ہر شرط ماننے کیلئے تیار ہوا اور رات کے اندھیرے میں بگرام ائیر بیس
سے بھی بھاگ نکلا ۔اس ضمن میں بیس کے مقامی کمانڈر تک کو آگاہ نہیں کیا گیا
جنہیں دو گھنٹے بعد امریکی اہلکاروں کے جانے کا علم ہوا۔ بگرام ایئر بیس کا
سائز ایک چھوٹے شہر جتنا ہے جہاں بڑی سڑکوں کے ساتھ بیرکس اور کشادہ
عمارتیں موجود ہیں۔اڈے پر دو رن وے ہیں اور لڑاکا طیاروں کے لیے ایک سو سے
زیادہ پارکنگ کے مقامات ہیں جہاں بم دھماکوں سے محفوظ رکھنے والی دیواریں
بھی بنی ہوئی ہیں۔ان دونوں رن ویز میں سے ایک 12 ہزار فٹ لمبا ہے اور اسے
2006 ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔ درحقیقت افغانستان میں امریکا کی بیس برس تک
موجودگی کے دوران بھارت سمیت کئی ممالک اور گروہوں نے افغان سرزمین کو اپنے
مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ اب امریکا کے جانے کے بعد یہ تمام عناصر
افغانستان میں ٹک نہیں پائیں گے کیونکہ جس تیزی سے طالبان کی پیش قدمی
جارہی ہے وہ جلد ہی کابل تک بھی پہنچ جائیں گے، اور دارالحکومت پر طالبان
کے قبضے کا مطلب یہ ہوگا کہ کوئی بھی ایسا عنصر جو افغان سرزمین کو اپنے
گھناونے عزائم کے لیے استعمال کررہا ہے وہ طالبان کے نشانے پر ہوگا۔ یہی
وجہ ہے کہ بھارت افغانستان سے اپنا بوریا بستر سمیٹ کر بھاگ رہا ہے لیکن
افغانستان سے جاتے ہوئے بھی وہ مسلسل سازشوں میں مصروف ہے اور طالبان اور
افغان انتظامیہ کے ساتھ ڈبل گیم کھیل رہا ہے۔طالبان اور افغان حکومت دونوں
ہی اس بات سے واقف ہیں کہ بھارت ان کے ساتھ ڈبل گیم کھیل رہا ہے اور وہ یہ
بھی جانتے ہیں کہ بھارت افغانستان میں کیوں رہنا چاہتا ہے۔ عالمی طاقتیں جو
افغان امن عمل میں براہ راست شامل ہیں وہ بھی بھارت کے مذموم عزائم سے بے
خبر نہیں ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام شراکت دار مل کر بھارت کی اس
سازش کو کامیاب ہونے سے روکیں کیونکہ بھارتی ڈبل گیم کی وجہ سے نہ صرف
افغان امن عمل خطرے میں پڑ سکتا ہے بلکہ اس سے پورے خطے کو نقصان پہنچنے کا
خدشہ ہے۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ سمیت تمام بڑے بین الاقوامی اداروں کو
بھی آگے بڑھ کر اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے ۔قندھار کے بھارتی قونصل
خانے کی بندش کو افغانستان کی صورتحال میں ایک بڑی پیش رفت کے طور پر دیکھا
جا رہا ہے۔ مشرقی اور جنوبی افغانستان کے علاقے میں بھارت کے سفارتی ٹھکانے
دراصل جاسوسی اور تخریب کاری کے اڈے تھے‘ جن کا بنیادی مقصد پاکستان مخالف
عناصر اور سرگرمیوں کی اعانت اور سرپرستی رہا ہے۔ پاکستان کی جانب سے تخریب
کاری کے ان اڈوں کی سرگرمیوں کے حوالے سے حامد کرزئی اور اشرف غنی کی
حکومتوں کو بروقت مطلع کیا جاتا رہا تاہم دوسری جانب سے ہمسایہ ملک کی ان
شکایات کا کبھی ازالہ نہیں کیا گیا‘ یوں بھارتی سرپرستی میں پاکستان مخالف
سرگرمیوں اور دہشت گردی کی اعانت کا نیٹ ورک سرحد پار بدستور جاری رہا۔اس
وقت افغانستان میں بھارت کی حالت یہ ہے کہ قندھار سے اس کا تمام سفارتی
عملہ اور را کے تمام ایجنٹس فرار ہوچکے ہیں اور قندھار میں واقع قونصل خانہ
بند کردیا گیا ہے۔ بھارت قندھار سے اپنے عملے کے نکالے جانے کی تصدیق تو
کررہا ہے لیکن قونصل خانہ بند کرنے کی تردید کی گئی ہے۔ افغان امور کے
ماہرین کہتے ہیں کہ افغانستان میں بھارت کے لیے حالات جس تیزی سے بگڑ رہے
ہیں ان کے پیش نظر امکان یہی ہے کہ بھارت کو جلد کابل میں اپنا سفارت خانہ
بھی بند کرنا پڑے۔ سفارت خانہ بند ہونے کا مطلب یہ ہوگا کہ بھارت مکمل طور
پر افغانستان سے نکل گیا ہے۔ بھارت اس بات کو کسی بھی طور قبول نہیں کرے گا
اسی لیے وہ ڈبل گیم کھیلتے ہوئے طالبان اور افغان حکومت دونوں کو ایک دوسرے
کیخلاف استعمال کرنے کی کوشش کررہا ہے تاکہ کسی بھی طرح وہ افغانستان سے
وابستہ اپنے مفادات پورے کرسکے۔کستان ہمیشہ سے خواہشمند رہا ہے کہ
افغانستان اور پاکستان میں مذہبی‘ ثقافتی‘ لسانی‘ تہذیبی اور جغرافیائی ربط
کو دونوں ریاستوں اور عوام میں تعلق‘ اعتماد اور ہم آہنگی کا ذریعہ بنایا
جائے۔ ہمسایہ ملک کے عوام کیلئے ایثار کا جہاں کہیں ذکر ہوتا ہے تو پاکستان
میں قریب نصف صدی سے مقیم افغان پناہ گزینوں کی مثال ضرور دی جاتی ہے۔۔
پاکستانی عوام کی دلی خواہش رہی ہے کہ افغانستان بھی استحکام حاصل کرے‘
ترقی کے راستے پر چلے‘ مگر یہ ایسی خواہشات ہیں جن کی تکمیل خود افغانوں کے
رویے‘ سوچ اور فہم و فراست پر منحصر ہے۔ ماضی میں جو غلطیاں ہو چکیں ان کا
ازالہ صرف اسی صورت ممکن ہے کہ افغان آنے والے وقت میں ماضی کے غلط تجربات
کو نہ دہرائیں، اپنی سرزمین کسی ہمسایے کے خلاف بلکہ دنیا کے کسی بھی ملک
کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں اوراپنے اولین ہمسایوں کے ساتھ ترجیحی بنیادوں
پر معاملات کو بہتر کریں۔ موجودہ صورتحال میں کابل انتظامیہ کے معاملات تو
اور بھی دگرگوں ہیں کیونکہ افغانستان سے امریکی انخلاء کا عمل شروع ہوتے ہی
افغان طالبان اور گوریلا جنگ کے ماہر دوسرے افغان جنگجوؤں نے افغانستان پر
غالب ہونے کی جنگ شروع کر دی ہے اور افغان سکیورٹی فورسز افغان فوج کو
پسپائی پر مجبور کر دیا ہے ۔ اس وقت افغانستان کا 85 فیصد حصہ طالبان کے
کنٹرول میں ہے ۔ ایسی صورتحال میں افغان فوجیوں کا وفاداری بدلنا اور جنگی
سرداروں یا طالبان کی اطاعت قبول کرنا ممکنہ منظرناموں میں شامل ہے۔
|