خوش آئند: عدلیہ کے بدلتے تیور

عدلیہ کے تیور بدل رہے ہیں اور اس خوش آئند تبدیلی کو ہر کوئی محسوس کررہا ہے۔ اس پہلے کہ حالیہ تبدیلیوں کا جائزہ لیا جائے ماضی قریب یعنی پچھلے فروری کے اواخر کا ایک واقعہ یاد کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ دہلی فساد کے بعد ہائی کورٹ کے جسٹس مرلی دھر نے انوراگ ٹھاکر، پرویش ورما اور کپل مشرا کے اشتعال انگیز بیانات کی ویڈیو سالیسیٹر جنرل تشار مہتا کو دکھا کر سوال کیا آخر ان تینوں کے خلاف ایف آئی آر کب درج ہوگی ؟ مہتا نے مناسب وقت کا وعدہ کرکے معاملہ ٹال دیا سو ہنوز نہیں آیا لیکن اسی رات جسٹس مرلی دھر کا تبادلہ ہوگیا ۔ ابھی حال میں اسی فسادسے متعلق ایک مقدمہ کی سماعت کےدوران دہلی کی کڑکڑڈوما کورٹ نے پولیس پر25 ہزار روپے کا جرمانہ عائد کر دیا ہے۔ تشدد کے دوران محمد ناصر کو آنکھ میں گولی لگی تووہ پولیس کے پاس اپنی شکایت لے کر ایف آئی آر کرانے گیا لیکن دہلی پولیس نے اس کی شکایت کسی اور ایف آئی آر میں نتھی کردی۔ عدالت نےپولس کے غیر ذمہ دارانہ عمل سے ناراض ہو کر کہا کہ بظاہر ایسا لگتا ہے جیسے پولیس ہی ملزمین کو بچا رہی ہے۔ اس کے معنیٰ صاف ہیں کہ باضمیر اور حوصلہ مند جسٹس مرلی دھر کے تبادلے سے عدلیہ کو خوفزدہ کرنے کی مذموم کوشش کی ناکام ہوچکی ہے۔

یہ وہی کورٹ ہے جس نے گزشتہ ماہ جے این یو کی طالبات دیوانگنا کلیتا، نتاشا نروال، اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علم آصف اقبال تنہا کو ضمانت دی تھی اور ہر ایک کا فیصلہ تقریباً سو صفحات پر محیط تھا ۔ اس میں یو اے پی اے کے غلط استعمال پر سخت تنقید کی گئی تھی ۔ عدالت عظمیٰ نےاس کے مشاہدات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کو نظیر بنانے سے روک دیا تھا مگر مسترد کرنے جرأت نہیں کرسکی۔ اس بار بھی عدالت نے صرف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دینے کے بجائے اپنے فیصلے میں اعتراف کیا کہ دہلی پولیس نے اپنا کام صحیح طریقے سے نہیں کیابلکہ بڑا ہی ڈھیلا رویہ اختیار کیا۔ محمد ناصر نے 19 مارچ 2020 کو اپنے6 پڑوسیوں نریش تیاگی، سبھاش تیاگی، اتم تیاگی، سشیل اور نریش گور کے خلاف گولی مارنے کی شکایت درج کرائی مگر دہلی پولیس نے بغیر جانچ کیے ناصر کی شکایت کو ایک غیر متعلق ایف آئی آر میں جوڑ کر ملزمین کو بچانے کی شرمناک سعی کی ۔
اس معاملے انتظامیہ کی ڈھٹائی دیکھ کر کسی بھی باشعور انسان کا سر شرم سے جھک جائے گا۔ دہلی پولیس کے ذریعہ اس کی شکایت نہ درج کرنے کو لے کر محمد ناصر نے 17؍ جولائی 2020 کو کڑکڑڈوما کورٹ کا رخ کیا۔ 21؍ اکتوبر 2020 کومذکورہ عدالت نے دہلی پولیس کو ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا۔ 29؍ اکتوبر 2020 کو دہلی پولیس اس حکم کے خلاف سیشن کورٹ پہنچی اور وہاں ایف آئی آر کرنے کے حکم پر روک لگوا کر پورے معاملے کی ازسرِ نو سماعت شروع کروائی ۔ اس سنگین معاملے کو ٹالنے میں وہ کامیاب ہونے والی پولس اس وقت بغلیں بجارہی تھی مگر13؍ جولائی کو منظر بدل گیا ۔ عدالت نے دہلی پولیس کو زبردست پھٹکار لگاتے ہوئے کہا کہ اس کی کارروائی حیران کن ہے۔ پولیس نے بغیر جانچ کیے ملزمین کو کلین چٹ کیسے دے دی؟ عدالت نے صاف کہا کہ دہلی پولیس نے اس معاملے کی جانچ بہت ڈھلائی اور بے حسی کے ساتھ کی ہے۔ دہلی پولیس کمشنر کو ہدایت دی گئی کہ ایسے معاملات میں بہت صحیح طریقے سے تفتیش کی جائے۔ اس فیصلے کا خوش آئند پہلو یہ کہ صرف عدالت نے نہ صرف پولس پر جرمانہ عائد کیا بلکہ شکایت دہندہ کوپولیس کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے عدالت سے رجوع کرنے کی ا جازت دے کر گویا ترغیب دی ۔ سچ تو یہ ہے کہ جب تک انتظامیہ کو اس کی زیادتی کی کڑی سزا نہیں ملے گی وہ اپنے سیاسی آقاوں کی خوشنودی کے لیے دُم ہلاتا رہے گا ۔ اس لیے یہ معاملہ اب آگے بڑھنا چاہیے۔

بامبے ہائی کورٹ میں مہاراشٹر کے شہر پربھنی سے داعش کا ہم خیال ہونے اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات کے تحت گرفتار مسلم نوجوان اقبال احمد کبیر احمد کی ضمانت پر سماعت کے دوران بھی عدالت نے اسی طرح کے حوصلہ افزا تبصرے کیے۔ پانچ سال قبل مہاراشٹر اے ٹی ایس نے اقبال احمد، ناصر یافعی، رئیس الدین اور شاہد خان پر تعزیرات ہند کی دفعات 120(b),471,، یو اے پی اے کی دفعات 13,16,18,18(b), 20, 38, 39 اور دھماکہ خیز مادہ کی قانون کی دفعات 4,5,6 کے تحت مقدمہ قائم کر کے ان پر داعش کا رکن ہونے کا الزام لگا دیا تھا۔ ان کے بارے میں کہا گیا کہ انہوں نے داعش کے رہنما ابوبکر البغدادی کو اپنا خلیفہ تسلیم کرکے بیعت کی ہے اور ہندوستان کے اندر غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ ان کے اہل خانہ ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں پولیس کو ایسا کوئی بھی مواد نہیں ملا جس سے داعش کے ساتھ رابطہ یا ملک میں میں کچھ گڑ بڑ کرنا ثابت ہوتا ہو بلکہ سوشیل میڈیا اور یوٹیوب کی مبینہ سرگرمیوں کی بنیاد پر ساری کہانی گھڑی گئی ہے۔

بامبے ہائی کورٹ کی دو رکنی بنچ کے جسٹس ایس ایس شندے اور جسٹس جے این جمعدار کے ربرو ملزم اقبال احمد کی ضمانت عرضداشت پر بحث کرتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ مہر دیسائی نے عدالت کو بتایا کہ پانچ سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک ملزم کے مقدمہ کی سماعت شروع نہیں ہوئی ہے اور چارج شیٹ میں ایسا کہیں بھی نہیں لکھا ہے کہ ملزم نے بم بنایا تھا یا وہ کسی بھی طرح کی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث تھا۔ مہر دیسائی کے نزدیک بیعت کی قانونی حیثیت صفر ہے اور مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و زیادتی کے بار ے میں گفتگو کرنا، ان کی فکر کرنا کوئی جرم نہیں ہے۔ اس لیے پانچ سال کا عرصہ جیل میں گزارنے اور ٹرائل شروع نہ ہونے کی بنیاد پرعدالتی روایت کے مطابق ملزمین کو ضمانت پر رہا کیا جانا چاہیے۔ اس کے جواب میں این آئی اے کی وکیل ارونا پائی نے عدالت کو بتایا کہ ملزمین ہندوستان کے اندراور بیرون ملک مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کے بارے میں گفتگو کرتے تھے اور وہ اس کا انتقام لینا چاہتے تھے۔

اس پر جسٹس شندے نے کہا کہ چھوٹے شہروں میں لوگ اکثر نکڑ پر بیٹھ کر گلی سے لیکر دلی تک کی سیاست، ڈونالڈ ٹرمپ سے لیکر جو بائیڈن تک کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں لہذا ایسی بات چیت کرنا کوئی جرم نہیں ہے۔این آئی اے کی وکیل نے مزیدالزام لگایا کہ ملزمین بم دھماکہ کرنا چاہتے تھے اور ناصر یافعی و شاہد خان نے اقبال کے گھر پر بم بنانے کااعتراف کیا ہےاس لیے ملزم کو ضمانت پر رہا کرنے کے بجائے نچلی عدالت کو 6؍ ماہ میں مقدمہ مکمل کرنے کا حکم دینا چاہیے ۔ جسٹس شندے نے اس دلیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ماضی میں متعدد مواقع پر عدالتوں کو جلد از جلد سماعت مکمل کرنے کا حکم دیا لیکن اس کے باوجود مقررہ مدت میں مقدمات فیصل نہیں ہوئے ہیں۔ فی الحال عدالت نے اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے لیکن قوی امکان ہے کہ ان بے قصور نوجوانوں کی ضمانت اور رہائی نصیب ہوجائے گی نیز بہت جلد وہ باعزت بری ہوجائیں گے۔

اس بیچ دہلی میں اسرائیلی سفارت خانے پر حملہ کی منصوبہ بندی کرنے کے الزام میں گرفتار 4 طلباء کو ضمانت پر رہا کردیا گیا ۔ امسال ماہِ جنوری میں اے پی جے عبد الکلام روڈ پر واقع اسرائیلی سفارت خانے سے کچھ فاصلے پر ایک دھماکہ ہوا تھا۔ اس کے تحت خصوصی سیل نے 24؍ جون کو لداخ سے ناصر حسین، ذوالفقار علی وزیر، مزمل حسین اور ایاز حسین کو گرفتار کیا تھا۔ پولس کے مطابق ان چاروں طلباء کا قصور یہ ہے کہ وہ دھماکے والےدن دہلی میں موجود تھےحالانکہ ان چاروں کے موبائل بند تھے اس کے باوجود یہ طلباء سوشیل میڈیا پر نہ صرف اسرائیل، بھارت اور فلسطین سے متعلق تبصرے کر رہے تھے بلکہ انہوں نے بم دھماکہ کرنے کی سازش بھی رچی تھی۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جن بے قصوروں کو سازش کے الزام میں گرفتار کیا ان کے فون دھماکے کے دوران دو دن تک بند تھے ۔ ان کے موبائل پر کوئی فون یا ایس ایم ایس تک نہیں آیا تو بھلا وہ قابل اعتراض کیسے ہوگیا۔ یہ چمتکار بند فون کے ساتھ کے ساتھ کیسے ممکن ہوا یہ تو دہلی کی پولس ہی بتا سکتی ہے۔

پربھنی اور دہلی کے مقدمات میں لگائے جانے والے الزامات اور عدالتی مشاہدات کمال یکسانیت کے حامل ہیں ۔ دہلی میٹروپولیٹن مجسٹریٹ ڈاکٹر پنکج شرما نے ضمانت دیتے ہوئے لکھا کہ تفتیشی افسر کی جانب سے کوئی ایسی شئے پیش نہیں کی گئی کہ جس سے ملزمین کا کسی دہشت گرد تنظیم سے تعلق یا معاشرے کے لیے خطرہ ہوناثابت ہوتا ہے۔ بیس سال کی دہائی کےیہ طلباء کو ضمانت کے حقدار ہیں۔ تفتیشی افسر نے اپنی رپورٹ میں الزام لگایا کہ ملزم نے ٹوئٹر پر اسرائیل، امریکہ اور مغربی ممالک کے خلاف نہایت قابلِ اعتراض تبصرے کیے لیکن عدالت نے اس بے سروپا الزام کو مسترد کردیا۔ خصوصی سیل نے ایک ملزم پر ایرانی اسلامی انقلابی پاسداران کے حامی ہونے کا الزام لگایا تو عدالت نے کہا وہ کوئی ممنوع تنظیم نہیں ہے۔ اس سے قبل دہشت گردی کے معاملات میں عدالت سارے الزامات کو آنکھ موند کر مان لیتی تھی لیکن اب غور کرکے مسترد کررہی ہے جو ایک مثبت تبدیلی ہے۔
(۰۰۰۰۰۰۰جاری)
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449249 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.