شہباز شریف کی مفاہمت یا نواز شریف کی مزاحمت

وازشریف پر بھی مسلسل وار جاری ہیں اور حکومت وقت ہرطرح سے نوازشریف کوواپس لانے کے لیے میدان میں اتری ہوئی ہے

تحریر: سعادت عباسی

جیسے جیسے ملک میں مون سون کی بارشوں میں شدت سے اضافہ ہور ہا ہے اسی تیزی کے ساتھ سیاسی درجہ حرارت میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔نوازشریف پر بھی مسلسل وار جاری ہیں اور حکومت وقت ہرطرح سے نوازشریف کوواپس لانے کے لیے میدان میں اتری ہوئی ہے لیکن اس کے برعکس شہبازشریف کی سیاست کا رخ کسی اور طرف ہے یا تو وہ مفاہمت پسندی کا راستہ اپنانے کے لیے بے چین ہیں یا تو پھر وہ انتقام کی لڑائی سے تنگ آچکے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ سے ہاتھ ملانے کے حامی ہیں.اور اب نواز شریف بہت بدل گیا ہے اور ان کےساتھ ساتھ یہ سیاست، یہ پنجاب ، یہ ملک اور یہ سماج بھی بدل گیا۔پاناما سے پہلے ہم کسی اور نواز شریف کو جانتے تھے جو آخری لمحے تک مفاہمت کی بات کرتا تھا ، درمیانی حل نکالنے کی کوشش کرتا تھا، سب کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کرتا تھا، جلتی پر ٹھنڈے پانی کا چھڑکاؤ کرتا تھا، احتجاج نہیں اتفاق کی طرف مائل رہتا تھا، وہ اپنے فیصلوں میں اس وقت بھی اٹل اور حتمی تھا مگر ٹکراؤ کی راہ اختیار نہیں کرتا تھا، وہ اس وقت بھی ہٹ کا پکا تھا۔ اگر ہٹ کا پکا نہ ہوتا میثاق جمہوریت نہ کرتا، دنیا بھر کے دباؤکے باوجود ایٹمی دھماکے نہ کرتا ۔ انیس سو ننانوے میں فوراً استعفیٰ دے دیتا لیکن اس زمانے میں نواز شریف اس بہیمانہ سلوک کے باوجود ٹکراؤسے اجتناب کرتا رہا۔ اب نواز شریف بہت بدل گیا ہے۔تیسری باروزیر اعظم کی کرسی سے برخواست کیے جانے کے بعد نواز شریف کی سیاست میں بہت تبدیلی آئی ہے؛ اب وہ مفاہمت نہیں مزاحمت کی بات کرتا ہے،اب وہ فیصلہ کن ٹکراؤ چاہتا ہے، اب وہ درمیانی راہ کی تلاش میں نہیں بلکہ آر یا پار کی سوچ رکھتا ہے،اب اس سے یہ طعنہ نہیں سہا جاتا کہ پنجاب سے مزاحمت کی آواز نہیں اٹھتی، اب وہ یہ بہتان نہیں سن سکتا کہ پنجاب کے لیڈر قربانی نہیں دیتے،اب وہ کسی ڈیل،کسی آفر کی تلاش میں نہیں صرف اور صرف مزاحمت چاہتا ہے۔ اس صورت حال کے پیش نظر مسلمی لیگی ورکرز دوحصوں میں تقسیم ہوتےنظر آرہے ہیں، ابھی دو دن قبل شہبازشریف گروپ کے حامی رانا تنویر کی طرف سے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی پر وار اس بات کا ثبوت ہے کہ شہبازشریف اور اس کے حامی نوازشریف کے نظریے سے متفق نہیں ہیں اور وہ مفاہمت کی طرف جانا چاہتے ہیں لیکن نوازشریف اور اس کے حامی مکمل طور پر ایک بیانئے پر چل رہے ہیں جس میں اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت کا کوئی چانس نظر نہیں آتا ۔ چند ہفتے قبل کشمیر الیکشن کمپین میں مریم نوازنے جس طرح کھل کر میاں نوازشریف کے بیانئے کو گھر گھر پہنچایا ہے اس سے صاف واضح ہے کہ مفاہمت کو نوازشریف کبھی بھی قبول نہیں کریں گے۔ اب تک کے سیاسی درجہ حرارت سے یہی واضح ہے کہ اگر پاکستان میں حکومت بنانی ہے تو اسٹیبلشمنٹ سے ہاتھ ملانا ضروری ہے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کے بغیر پاکستان میں کوئی بھی حکومت نہیں بن سکتی اور نہ ہی کوئی حکومت چل سکتی ہے۔ اگر معاملات ٹیبل ٹاک سے حل ہو سکتے ہیں تو پھر لانگ مارچ،دھرنے اور استعفوں کا انتظار نہ کیا جائے ۔اگر لانگ مارچ ہوتا تو امن و امان کی صورتحال بھی خراب ہو گی سب سے بڑھ کر اگر اپوزیشن نے استعفے دے دیے تو ملک ایک بڑے بحران سے دوچار ہو جائے گا پھر نہ حکومت کچھ کرسکے گی اور نہ دیوتا کچھ کرسکیں گے۔ اگر نوازشریف واپس آکر شہبازشریف کی مفاہمت پالیسی پر چلتے ہیں تو پھر وہ ایک بار پھر سے حکومت بنا سکتے ہیں جیساکہ شہبازشریف نے حالیہ انٹرویو میں یہ واضح بھی کیا تھا کہ ۲۰۱۸ کے الیکشن میں اگر نوازشریف مشاورت سے چلتے تو حکومت بناپاتے اور شہبازشریف آج بھی اس پر قائم ہیں کہ اگر نوازشریف ٹیبل پر بیٹھ کر معاملات حل کریں تو ایک بار پھر سے حکومت ان کے ہاتھ میں آسکتی ہے۔مسلم لیگ ن کو منظم رکھنے کے لیے یہی حل ہے کہ پارتی قائدین ایک پیج پر ہوں کیونکہ جو جنگ سوشل میڈیا پر مسلم لیگی ورکرز میں جاری ہے اس سے نہ صرف پارٹی کو نقصان ہورہا ہے بلکہ مسلم لیگ کی جڑیں کمزور ہوتی نظر آرہی ہیںاور اس صورت میں اگر مسلم لیگ زوال کی طرف جاتی ہے تو اس کی ساری ذمہ داری پارٹی قائدین پر منحصر ہے
 

Saadat Abbasi
About the Author: Saadat Abbasi Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.