وادی کشمیر تاریخی اعتبار سے چھ ہزار سال قدیم ہے ۔ رقبے
کے لحاظ سے یہ جنت نظیر وادی دنیا کے 100ممالک سے بڑی ہے۔ کشمیر کا رقبہ
84471 مربع میل ہے یا 136000 مربع کلومیٹر ہے ۔ تقسیم ہند سے قبل یہ تین
صوبوں پر مشتمل تھا ۔ صوبہ جموں اس کا رقبہ 19916 مربع کلومیٹر تھا ۔ جو
جنوب مشرق میں واقع ہے ۔ صوبہ کشمیر اس کا رقبہ 13739 مربع کلومیٹر ہے ۔ یہ
جموں کا جنوب مغربی علاقہ ہے ۔ کشمیر کی وادی اسی علاقے میں ہے ۔ صوبہ گلگت
و لداخ یہ کشمیر کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ تھا اور پورا شمالی
کشمیر اس صوبے میں تھا ۔ اس میں بلتستان ، سکردو اور اقصائی چن کے علاقے
واقع ہیں ۔ یہ صوبہ کشمیر کو دنیا کے دیگر ممالک سے جوڑتا ہے ۔ اس کا رقبہ
102258 مربع کلومیٹر ہے ۔ دینا کے بلند ترین پہاڑی سلسلے اسی علاقے میں ہیں
۔کشمیر میں 80 فیصدمسلمان آباد ہیں ۔ جبکہ 20 فیصد دیگر مذاہب ہندو ، سکھ
اورعیسائی آباد ہیں۔ اس خوبصورت وادی کی سرحدیں دنیا کی تین طاقتور ریاستوں
سے ملتی ہیں جن میں چین ، روس ، افغانستان ، بھارت اور پاکستان ۔ دونوں
ریاستیں اسے اپنی جاگیر قرار دیتے ہیں ۔ تقسیم ہندکے فارمولے کے تحت
اکثریتی مسلم علاقے پاکستان کا حصہ ہوں گے ۔ جہاں مسلمان اپنے مذہب کے
مطابق آزادی کے ساتھ زندگی گزار سکیں گے۔ مگر افسوس سفید فام برطانوی لارڈز
اور مکار ہندوں نے جنت نظیروادی پر قبضہ کرکے تقسیم ہندکے فارمولے کی
دھجیاں بکھیردیں۔ تقسیم ہند سے قبل کشمیر کی تاریخی حیثیت کاجائز ہ لیا
جائے تومعلوم ہوتاہے کشمیر پر مسلم دور حکومت 1320 کو شروع ہوا ۔ بعض کہتے
ہیں کہ چودھویں صدی عیسوی کے ربع اول میں کشمیر کے ایک راجہ نے ، جس کا نام
رینچن یا رام چندر بتایا جاتا ہے ۔ ایک عرب مسافر سید بلبل شاہ کی نماز اور
تبلیغ سے متاثر ہو کراس نے اسلام قبول کیا ۔ اپنا اسلامی نام صدر الدین
رکھا اور سری نگر میں جامع مسجد تعمیر کی بنیاد رکھی اور 1323 میں وصال ہوا
۔ مورخین نے لکھاہے کہ تاریخ کا سب سے درخشاں دور 1420 سے 1470 تک کا ہے ۔
جس زمانے میں زین العابدین کی بادشاہت تھی ۔ بادشاہ کی وطن اور عوام پرستی
کیوجہ سے اسے بڈشاہ کہا جاتا تھا یعنی عظیم بادشاہ ۔ سلطان زین العابدین نے
اسلام کی بنیاد کو مستحکم کرنے کے لیے جامع مسجد کے ساتھ دارالعلوم کی
بنیاد رکھی ۔ کشمیر میں شاہ میری خاندان حکومت کررہا تھا ۔ اس مسلم خاندان
نے 1585 تک کشمیر پر حکومت کی ۔ جن کی 22 تعداد بتائی جاتی ہے ۔ یہ دور
کشمیر کی مکمل خودمختاری کا دور تھا۔جلال الدین اکبر نے شاہ میری خاندان کے
خلاف جنگ کرکے کشمیر کو مغل خاندان کے ماتحت کردیا ۔ بعدازاں سلطان
اورنگزیب عالمگیر کے وصال کے بعد سلطنت مغلیہ زوال کی طرف گامزن ہوئی ۔ شاہ
خرچیاں ، شعائراسلام سے دوری ، باہمی چپقلش طوائف الملوکی نے مغلوں کو
کمزورکردیا اورکشمیر افغانوں کے زیرتسلط آگیا ۔ اس طرح کشمیرسے 1753 میں
مغل حکومت سورج غروب ہوا ۔ 1819 میں رنجیت سنگھ مہاراجہ پنجاب کے ایک لشکر
نے مصرو دیوان چند کی قیادت میں راجوری کے راستہ کشمیر پر حملہ کیا اور
کشمیر کے حاکم جبار خان کو شکست دے کر سکھ اقتدار کا علم بلند کر دیا۔ یہیں
سے کشمیری عوام کی بدنصیبی اور مظلومیت کا آغاز ہوتا ہے ۔ رنجیت سنگھ نے
کشمیر کے ڈوگرہ خاندان کو آلہ کار بنایا ۔ اس خاندان کے دو افراد گلاب سنگھ
اور دھیان سنگھ رنجیت سنگھ کے درباری ملازم تھے ۔ انہیں رنجیت سنگھ نے اہل
کشمیر پر مسلط کر دیا۔ ڈوگروں اور سکھوں نے مل کر اہل کشمیر پر بے پناہ
مظالم ڈھائے ۔ ان کی صنعت کو تباہ کیا۔ اس دور میں شال بافی کی صنعت ترقی
پذیر تھی ۔ سکھا شاہی نے 26 فیصد ٹیکس عائد کر کے اسے مفلوج کر دیا۔ شیر
سنگھ کے دور میں قحط پڑا۔ ان مظالم اور قحط سے تنگ آکر بہت سے کشمیری
خاندان پنجاب کی طرف ہجرت پر مجبور ہوگئے ۔ چنانچہ آج پنجاب کے مختلف
علاقوں میں یہ کشمیری خاندان آباد ہیں۔ 9مارچ 1846 کو رنجیت سنگھ اور
برطانوی فوج کے درمیان معاہدہ ہوا ۔ جس میں سکھوں پر ایک کروڑ روپے تاوان
ڈالا گیا ۔ سکھ حکومت اتنی رقم ادا نہ کر سکی ۔ جس کے عوض برطانیہ نے جموں
کشمیر سمیت سکھوں کے کئی علاقے اپنے قبضہ میں لے لیے ۔ گلاب سنگھ نے سکھوں
اور برطانوی فوج کی جنگ کے دوران ایسا رویہ اپنایا کہ اگر سکھ جیت جاتے تو
وہ ان کا حامی ہوتا اور اگر برطانوی فوج فتح یاب ہو تو وہ ان کا ہمدرد تصور
ہوتا ۔مہاراجہ گلاب سنگھ نے برطانوی فوج کو پیشکش کی کہ وہ جموں کشمیر کو
اس کے ہاتھ فروخت کر دیں انگریزوں نے پیشکش قبول کی اور جموں کشمیر کو اس
کے اثاثوں، حکومت اور عوام سمیت 75 لاکھ روپے میں فروخت کر دیا۔ تقسیم
ہندکے وقت انگریزوں اور ہندوں کی ملی بھگت ، قادیانیوں کی منافقت اور شیخ
عبداﷲ کی نیشنل کانفرنس پارٹی کی غیرذمہ دارانہ قیادت نے جنت نظیر وادی کو
بھارت کے پلڑے میں ڈالنے کی ناجائز کوشش کی ۔ بھارتی افواج کشمیر میں داخل
ہوگئیں ۔ تقسیم ہندکے آغاز میں ہی پاک بھارت جنگ کا آغاز ہوا ۔ اقوام متحدہ
کی مداخلت سے جنگ بندی ہوئی اورکشمیریوں کو ان کی مرضی کے مطابق فیصلہ کرنے
کا اختیار دیا گیا ۔ مگر افسوس قصاب مجلس نے تاحال اپنے بنائے ضوابط کا پاس
نہیں کروایا ۔ بھارت گزشتہ چوہتر برس سے مقبوضہ وادی میں خون کی ہولی کھیل
رہا ہے ۔ غاصبانہ قبضہ کے بعد 3 نومبر 1947 کو واضع الفاظ میں اپنا موقف
دہراتے ہوئے نہرو نے بھارتی ریڈیو پر تقریر کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کا
فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے ۔ حالات پر امن ہوتے ہی کشمیریوں کو فیصلہ کرنے کا
آزاد موقع دیا جائے گا ۔ ہم کشمیری عوام پر اپنا فیصلہ مسلط نہیں کرنا
چاہتے اور فیصلہ کا حق بس کشمیری عوام کو ہے اور ہم رضامند ہیں کہ اقوام
متحدہ رائے طلبی کی نگرانی کرے ۔ بھارتی مکارانہ چالوں کے کیخلاف مقبوضہ
جموں کشمیر کے نوجوانوں نے تحاریک شروع کیں ۔ کشمیری نوجوان تاحال بھارت کی
غلامی سے نجات کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کررہے ہیں ۔ مقبول بٹ شہید
سے لے کر مظفربرہان وانی شہید تک سبھی نوجوان رہتی دنیا تک ہمارے دلوں میں
زندہ رہیں گے ۔ کشمیر کو اٹوٹ انگ کہنے والو سن لو کشمیر آئینی قانونی اور
اخلاقی طور پر کسی کا اٹوٹ انگ نہیں ہے ۔ کشمیرپاکستان کی شہہ رگ ہے ۔آئینی
قانونی اعتبار سے پاکستان کا حصہ ہے۔ گزشتہ سال بھارت کی جانب سے 5 اگست کو
یکطرفہ اور ظالمانہ طور پرمقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور
کشمیریوں پر 9 لاکھ فوجی مسلط کرکے انھیں تمام بنیادی شہری و انسانی حقوق
سے محروم کرنے کے مودی سرکار کے اس ظالمانہ اورغیر آئینی وظالمانہ اقدام نے
بین الاقوامی دنیا کے لنڈورے اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے لنڈے کے
لبرل اداروں پر زور دار طمانچہ لگایاہے ۔ جنہیں انسانی حقو ق کی پامالیاں
صرف اسلامی ملکوں میں نظر آتی ہیں ۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ پاکستان
سفارتی محاذ پر بھرپور انداز سے مسئلہ کشمیر کے لیے اپنی آواز بلندکررہا
ہے۔ دس عشروں کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں بھارتی
اقدام پر اظہارِافسوس کیاگیا ۔ امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ پانچ مرتبہ ثالثی کی
پیش کش کرچکے ۔ امریکی سنیٹرز ، برطانوی ویورپی پارلیمنٹرین و نمائندگان،
شنگھائی تعاون تنظیم، روس ، چین اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں
بھارتی اقدامات کی مذمت کررہی ہیں۔ نیا امریکی صدر جوبائیڈن نے اس بھارتی
اقدام کی سخت مذمت کی ہے۔گزشتہ ایک سال سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم
وبربریت عروج پر ہے۔ ایک سال سے 90 لاکھ کی آبادی کو نریندرمودی کی حکومت
نے جیل میں تبدیل کیا ہوا ہے ۔ ہزاروں نوجوانوں کو دوسرے شہروں میں
قیدوبندکیا گیاہے ۔ کشمیری قیادت نظر بند ہے ۔ کشمیر معیشت کا سانس بند کر
دیا گیا ہے۔ کشمیر کو فوجی چھانی بنادیا گیاہے ۔ ہرگھرپر بالے کتوں کے پہرے
ہیں ۔ جو نہ جوان چھوڑتے ہیں نہ بچے۔درندگی کی بھیانک تصاویر مردہ ضمیروں
کو جھنجورتی ہیں اور ہم ہیں کہ تمہارے ساتھ ہیں کی صدائیں بلندکرتے نظرآتے
ہیں۔ مقبوضہ وادی میں ظلم وبربریت سلسلہ ایک منٹ کی خاموشی سے ختم نہیں
ہوگا ، نہ ہی ماں کی ردائیں زنجیریں بنانے سے محفوظ ہوں گی ۔ تاریخ کا سادہ
سا دستور ہے کہ بہادر اور غیرت منداقوام مقابلہ کرکے اپنا حق وصول کرتی
ہیں۔ دھرنے اور احتجاجوں سے نہ کبھی علاقے فتح ہوئے نہ کبھی ہوں گے۔ یہ
دنیا طاقتور اور ذمہ دار لوگوں کو پناہ دیتی ہے ۔ بزدل ہمیشہ سے غلام ہیں
اور رہیں گے ۔ ارض پاک کے حکمرانوں کو ذاتی رنجشوں سے باہر نکل کرمظلوم و
مجبور اپنے کشمیری بھائیوں کی مدد کے لیے لائحہ عمل بنانا چاہیے ۔ کشمیر
پاکستان کی شہ رگ ہے۔ شہ رگ کے لیے بندکمروں میں چیخنے کی بجائے میدانوں
اور پہاڑوں پر آزادی کے علم بلند کرنے کی از بس ضرورت ہے۔ اگر یونہی لیت
ولعل کا سلسلہ جاری رہا تو تاریخ تمہیں بزدل کے لقب سے ملقب کرے گی ۔ امید
ہے ارض پاک کے غیور حکمران عوام کی امیدوں پر پورا اترتے ہوئے مقبوضہ
کشمیرکی آزادی کے لیے ہرممکنہ کوشش کریں گے ۔ شائد کے اتر جائے تیرے دل میں
میری بات ۔ اﷲ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔ آمین
|