آزاد کشمیر کے انتخابات

آزاد کشمیر میں کل 11ویں عام انتخابات ہو رہے ہیں۔32لاکھ سے زیادہ ووٹرز 53رکنی اسمبلی کے لئے اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ اس اسمبلی کی مدت پانچ سال ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کی مدت 6سال تھی۔ اگست 2019میں مقبوضہ کشمیر کا ریاستی درجہ ختم کر کے اسے دہلی کے زیر قبضہ دو علاقے قرار دیا گیا۔ وہاں بھی آج انتخابات سے قبل حد بندیاں ہو رہی ہیں۔آزاد کشمیر کو مقبوضہ کشمیر کی آزادی کا بیس کیمپ کہا جاتا رہا ہے۔ یہاں کی اسمبلی میں 45عام نشستیں ہیں۔ جن میں سے 12نشستیں مہاجرین کشمیر ،مقیم پاکستان کی ہیں۔ ان 12میں سے 6نشستیں وادی کشمیر اور6جموں کے مہاجرین کے لئے ہیں۔ 8نشستیں خواتین، ٹیکنوکریٹس اور اسلامی سکالرز کے لئے مختص ہیں۔آزاد کشمیر اس وقت پاکستانی سیاسی پارٹیوں کے آپسی دنگل کا اکھاڑہ بن چکا ہے۔ پانچ بڑی سیاسی پارٹیوں سمیت دیگر نے یہاں اپنے امیدوار کھڑے کئے ہیں۔ سب سے زیادہ امیدوار پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے تمام 45اسمبلی حلقوں پر کھڑے کئے ہیں۔ مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی نے 44،44حلقوں پر امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔ آزاد کشمیر کی کبھی سب سے بڑی اور قدیم سیاسی پارٹی مسلم کانفرنس 42اور پاکستان میں پابندی کی زد میں لائی گئی تحریک لبیک پاکستان 40حلقوں پر زور آزمائی کر رہی ہے۔ جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر 28، جے کے یونائیٹڈ مومنٹ کے 16، جموں و کشمیر پیپلز پارٹی کے17، جموں و کشمیر لبریشن لیگ کے12، متحدہ قومی مومنت (ایم کیو ایم)کے 11، جے کے عوامی تحریک کے 11، پاکستان پیپلز پارٹی (شہید بھٹو)کے 10امیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ آزاد کشمیر کی 33نشستوں پر261اورمہاجرین مقیم پاکستان کی 12نشستوں پر56آزاد امیدوار پنجہ آزمائی کر رہے ہیں۔ آزاد امیدوار چند نشستیں جیت سکتے ہیں۔

آزاد کشمیر کی سیاست میں بھی منشور کے بجائے نعروں، وعدوں، نغموں، الزامات ، جوابی الزامات سے انتخابی مہم چلائی جا رہی ہے۔ کشمیر کاز کا کوئی ذکر نہیں۔ کشمیر کو بیچنے کا الزام پی ٹی آئی پر ڈالا جا رہا ہے۔ مسلم لیگ ن کی یہی حکمت عملی ہے۔ عمران خان پر کشمیر کی فروخت یا تقسیم کشمیر کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی اس سے انکار کر رہی ہے۔ توقع ہے کہ اس انتخابات میں لوگ پر امن رہیں گے۔ عدم تشدد اور ہم آہنگی کو برقرار رکھا جائے گا۔ عام تاثر یہ ہے کہ جس پارٹی کی حکومت اسلام آباد میں ہو ، وہی یا اس کی حامی مظفر آباد میں حکومت قائم کرتی ہے۔اس کی بڑی وجہ وفاق سے ملنے والی امداد ہے۔ اگر اسلام آباد میں مخالف حکومت ہو تو مظفر آباد کے فنڈز روکنے کے الزامات عائد کئے جاتے ہیں۔ جس طرح پی ٹی آئی پر مسلم لیگ ن حکومت کے رواں دور میں فنڈز روکنے کے الزامات عائد کئے گئے۔جس طرح وزیر اعظم پاکستان آزاد کشمیر کے انتخابات میں اپنی پارٹی کی انتخابی مہم چلاتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان، اس سے قبل پی پی پی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ، وفاقی وزراء نے بھی آزاد کشمیر میں جارحانہ انتخابی مہم چلائی۔ غیر اخلاقی اور ناشائستہ الفاظ مخالفین کے لئے استعمال کئے گئے۔ انتخابی سیاست میں نازیبا کلمات کا استعمال بڑھ رہا ہے۔عظیم لوگ مہذب اور شائستہ زبان استعمال کرتے ہیں۔ حالات چاہے جیسے بھی ہوں،کبھی بھی بدزبانی نہیں کرتے۔ زاتی تضحیک یا کیچھڑ اچھالنے سے باز ہتے ہیں۔ مگر اب سیاست میں انتشاری اور بازاری زبان کا استعمال جیسے فیشن بن رہا ہے۔ کردار اور اخلاقیات پر توجہ کم ہو رہی ہے۔ نئی نسل کو تہذیب و تمدن سے دور کیا جا رہا ہے۔ بازاری اور غیر پارلیمانی گفتگو بچوں اور نوجوانوں سمیت سارے معاشرے کو آلودہ کر رہی ہے۔ یہ ایسی تعلیم ہے جس نے تربیت کو خراب کیا ہے۔ یہ دماغ اور دلوں کی بدامنی پیدا کر دیتی ہے۔

الیکشن کمیشن کی ہدایت پر وفاق اور ریاست نے امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے آزاد کشمیر پولیس، دیگر صوبوں سے ایف سی اور رینجزرسمیت سوِل آرمڈ فورسز اور فوج کے مجموعی طور پر تقریباً 43 ہزار 500 اہلکاروں کو تعینات کیا ہے۔ پاک فوج کی تعیناتی کوئیک ری ایکشن فورس کے تحت ہورہی ہے۔پاک فوج کو سیاست سے الگ رکھنے اور شفافیت کے لئے اقدامات اہم ہیں۔ آزاد کشمیر کے چیف سیکریٹری شکیل قادر خان نے جاندار موقف اپنایا ہے کہ آزادانہ، شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابی عمل کے لیے انتظامیہ الیکشن کمیشن کی ہدایات کے مطابق امن و امان برقرار رکھنے کے علاوہ ووٹرز اور امیدواروں کو پُرامن ماحول فراہم کرنے پر زیادہ توجہ دے رہی ہے۔ آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات ان کی آئینی و قانونی ذمہ داری ہے۔حکومتی مشینری اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کی معاونت کرنے کی پابند ہے۔اس کے لیے آزاد کشمیر سے 5 ہزار 300 پولیس اہلکاروں، پنجاب پولیس سے 12 ہزار، خیبرپختونخوا سے 10 ہزار اور اسلام آباد پولیس سے ایک ہزار، فرنٹیئر کانسٹیبلری سے 400 ، رینجرز کے 3 ہزار 200 اہلکار پہنچ چکے ہیں۔ پاک فوج کے 6 سے 7 ہزار جوانوں کی معاونت بھی حاصل ہے۔ 5 ہزار 123 پولنگ اسٹیشنز میں سے 826 کو حساس ، 209 کو انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے۔ انتہائی حساس پولنگ اسٹیشن پر 6 سیکیورٹی اہلکار، حساس پر ، نارمل پولنگ اسٹیشن پر 4 اہلکار تعینات ہوں گے۔ انتخابات کے سلسلے میں متعلقہ انتظامات کے لیے سرکاری اہلکاروں کو الرٹ رکھا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عید الاضحیٰ پر تمام سرکاری ملازمین کو صرف ایک روز کی چھٹی دی گئی۔ تمام پریزائیڈنگ افسران اور مجسٹریٹ سمیت 250 افسران کو بھی مسجٹریٹ کے اختیارات دیئے گئے ہیں تا کہ وہ موقع پر فیصلہ کرسکیں۔ الیکشن کمیشن اور انتظامی مشینری کو تمام ضروری مالی وسائل فراہم ہیں ۔ سرکاری مشینری کے لیے الیکشن کمیشن کے جاری کردہ ضابطہ اخلاق پر بھی مکمل طور پر عملدرآمد کیا جارہا ہے۔ مرکزی اور ضلعی سطح پر معلومات وصول کرنے کے لیے کنٹرول رومز قائم کرہیں۔ اہلکار پولنگ بوتھ میں نہیں بلکہ پولنگ اسٹیشنز کے احاطے میں تعینات ہوں گے۔آئی ایس پی آرنے آزاد کشمیر میں انتخابات کے دوران فوج کی تعنیاتی کے حوالے سے جاری بیان میں کہا کہ پاک فوج 25 جولائی کو آزاد کشمیر کے انتخابات میں سیکیورٹی کے فرائض انجام دے گی، پاک فوج کی تعیناتی کوئیک ری ایکشن فورس کے تحت 22 سے 26 جولائی تک کے لیے ہوگی۔ پاک فوج کی یہ تعیناتی آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت کی گئی ہے۔یہ واضح کیا گیا ہے کہ پاک فوج کا پولنگ اسٹیشنوں، پولنگ کے عمل یا انتخابی سامان کی ترسیل سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ان حالات میں توقع ہے کہ لوگ اچھے اخلاق و کردار کے مالک، مہذب، دیندار اور خدمت خلق کا جذبہ رکھنے والے امیدواروں کو ووٹ دیں گے جو عوامی مسائل لے حل سمیت مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی میں اپنا موثر کردار ادا کرنے کے اہل ہوں۔
 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 488151 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More