جنگی حکمت عملی کے عظیم ماہر سن زو نے کہا تھا کہ ’’جنگ
کا سب سے اعلیٰ فن یہ ہے کہ آپ دشمن کو بغیر لڑے فتح کر لیں ‘‘اب اس کے کئی
طریقے ہیں تاہم سب سے کامیاب طریقہ سفارتکاری کے ذریعے اپنے مفادات حاصل
کرنا ہے ۔ ہر دور میں سفارتکاری کے فن کو جنگوں کے ٹالنے اور اپنے مفادات
کے حصول کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ۔ریاستوں کے وجود میں آنے کے بعد یہ
کام ریاستی سطح سے ہونا شروع ہوا تو اس میں جدت بھی آنا شروع ہوئی ۔ تاہم
دور جدید میں جوزف ایس نائرنے ’’سوفٹ پاور‘‘ کی اصطلاح متعارف کروائی جس کا
تعلق فن و ثقافت کے ساتھ ساتھ کچھ دیگر عوامل سے تھا۔ اسی طرح روایتی
سفارتکاری سے ہٹ کر عوامی سفارتکاری اور اقتصادی سفارتکاری کا استعمال ہونا
شرع ہوا اورپھر تیزی سے بدلتے ہوئے اس عہد میں دنیا عالمی محاذ پر موجود
مختلف مسائل سے نبٹنے ، ترقی کے نئی راستے تلاش کرنے اور معاشی استحکام کے
لیے ثقافتی سفارتکاری کی طرف متوجہ ہونا شروع ہوئی ۔غالبا ً اس صدی کے آخر
میں یورپ میں ایک بہت بڑا ادارہ برائے ثقافتی سفارتکاری کا بھی قائم کیا
گیا جس کا مقصد مختلف ممالک کے درمیان ثقافت کی بنیاد پر رابطہ کاری کو
فروغ دینا ہے ۔ ترقی پذیر ممالک عمومی طور پر جبکہ مسلمان ممالک خصوصی طور
پر بدلتے حالات میں اپنے مسائل سے نبٹنے کے لیے جدید اسباب کو استعمال کرنے
میں دیر کر دیتے ہیں ۔ سرد دور کے خاتمہ کے بعد دنیا میں امریکہ نے واحد
سپر پاور کی حیثیت سے اکیلے راج کیا تاہم نائن الیون کے بعد عالمی افق پر
بڑی تیزی سے تبدیلی آنا شروع ہوئی اور مختلف ممالک (بالخصوص ترقی پذیر
ممالک) نے اپنا وزن ایک پلڑے میں ڈالنے کی بجائے علاقائی اتحاد کو ترجیح
دینا شروع کی ۔ اس پر چین امریکہ اختلافات نے بھی کافی حد تک راہ ہموار کی
۔پاکستان کا شمار بھی ظاہر ہے انہی ممالک میں ہوتا ہے تاہم دیر آید درست
آید کے مصداق موجودہ حکومت نے بھی کم از کم اپنے سفر کی سمت درست کر لی
ہے۔اسی سلسلہ میں گزشتہ دنوں وزارت خارجہ میں عوامی سفارتکاری کے حوالہ سے
ایک اہم اجلاس بھی ہوا جس میں حکومتی موقف کو عالمی سطح پر موثر انداز میں
پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اہم عالمی و علاقائی امورپر پاکستانی نقطہ نظر پیش
کرنا اور ترجیحاتی اقتصادی ایجنڈے کو دنیا کے سامنے رکھنے کے لیے روایتی
سفارتکاری کے ساتھ ساتھ عوامی سفارتکاری کو بروئے کار لانے پر اہم فیصلے
کیے گیے۔
پاکستان گزشتہ کچھ عرصہ سے روس اور سنٹرل ایشیا کی ریاستوں کے ساتھ اپنے
سیاسی ، سماجی ، اقتصادی و فوجی رابطے بڑھا رہا ہے ۔ یہ عمل یقینی طور پر
نہ صرف و سطی و جنوبی ایشیا میں اقتصادی ترقی کے لیے ناگزیر ہے بلکہ
علاقائی تنازعات کے خاتمہ کے لیے بھی اہم کردار ادا کرسکتا ہے ۔ ان ممالک
کے ساتھ پاکستان دینی ، تاریخی اور ثقافتی اعتبار سے بھی جڑا ہوا ہے لہٰذا
ثقافتی سفارتکاری کے فروغ کے ذریعے بھی علاقائی ترقی و استحکام کی طرف سفر
شروع کیا جا سکتا ہے ۔ گزشتہ دنوں پاکستانی وزیر اعظم کا دورازبکستان بھی
اسی سلسلہ کی ایک کڑی تھا جس میں دونوں ممالک کے درمیان اسلامی و تاریخی
اور ثقافتی تعلقات کی بنیاد پر مختلف قسم کے اقتصادی معاہدے کیے گئے ۔
افغانستان سے روسی انخلاء کے بعد جن ممالک کوآزادی کا پروانہ ملا ان میں
ایک ازبکستان بھی ہے ۔وسط ایشیا میں سب سے زیادہ آبادی والے ملک ازبکستان
کو عام طور پر ’’مزاروں کی سرزمین ‘‘ بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ کئی تاریخ ساز
شخصیات کا ملک ہے ۔ اگریہ کہا جائے کہ برصغیر میں اسلام کی روشنی پھیلانے
والے صوفیا کرام کا سلسلہ بھی اسی ملک سے شروع ہوا تھا تو یہ قطعی مبالغہ
آرائی نہیں ہوگی ۔برصغیر میں مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیرالدین بابر کا بھی
یہی ملک تھا اور اسی وجہ سے پاکستانی وزیراعظم نے دونوں ممالک کی نوجوان
نسل کو ثقافتی تعلقات سے روشناس کروانے کے لیے ازبکستان سے مل کر ظہیر
الدین بابر پر ایک مشترکہ فلم بنانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اسلام کے تمام مسالک
میں متفقہ طور پر قرآن کے بعد حدیث مبارکہ کی جس کتاب کو اہمیت حاصل ہے اس
کے مصنف محمد بن اسماعیل بخاری( جنہیں امیر المحدثین بھی کہا جاتا ہے )
ازبکستان کے شہر بخارامیں پیدا ہوئے ۔ اسی شہر کو اسلام کی تہذیب و تمدن کا
امین بھی مانا جاتا ہے ۔ تاریخ عالم میں دہشت ، خوف اور بربریت کی علامت
چنگیز خان کو جس واحد مسلم سپہ سالار نے شکست سے دوچار کیا وہ بھی ازبکستان
کا شہزادہ جلال الدین کوارزمی ہی تھا اورچنگیز خان کے ساتھ آخری لڑائی
پاکستان میں اٹک کے مقام نیلاب پر لڑا گیا جہاں’’ گھوڑا ترپ ‘‘آج بھی اس
عظیم سپہ سالار کی جان بازی کی گواہی دے رہا ہے ۔ الجبرا کے بانی الخوارزمی
اور عظیم ماہر فلکیات البیرونی بھی اسی ملک سے تعلق رکھتے تھے ۔غرض یہ کہ
پاکستان اور ازبکستان فاصلے میں کئی میل کی مسافت پر تاہم تاریخی و ثقافتی
رشتوں میں ایک ہی مقام سے جڑے ہوئے دو ممالک ہیں ۔
وزیراعظم پاکستان کا یہ دورہ ایسے وقت میں تھا جب ایک طرف افغانستان سے
امریکی افواج کا انخلاء ہو رہا ہے جبکہ دوسری طرف افغانستان میں طالبان کے
بڑھتے قدم کابل کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں ۔ ان حالات میں عالمی امور کے
ماہرین ایک نئی خانہ جنگی پیشین گوئی کر رہے ہیں جس کا براہ راست اثر
پاکستان پربھی پڑ سکتا ہے ۔ ان حالات میں سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ کیا
دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے تجارتی معاہدے پایہ تکمیل تک پہنچ پائیں
گے یا نہیں ۔دونوں ممالک کو آپس میں ملانے والی ٹرانس افغان راہداری کا
مستقبل یقینی طور پر افغانستان کی سیکورٹی کی صورتحال پر ہے تاہم مستقبل
میں یہی راہداری نہ صرف پاکستان اور ازبکستان کے درمیان تجارتی تعلقات کو
مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرے گی بلکہ پاکستان کی دیگر وسط ایشیائی
ریاستوں تک رسائی اور ان کی پاکستان تک رسائی کے ذریعے بھی تجارتی روابط کا
نیادور شروع ہو گا۔ وسط ایشیا ئی ریاستوں کو خاص طور پر گوادر بندرگاہ تک
رسائی کے بعد اس خطے کی معاشی ترقی میں ایک نئے دور کا آغاز ہوگا جس کے
اثرات مجموعی طور پر اس خطے پر پڑیں گے۔ پاکستان اس وقت اپنی پالیسی جیو
اسٹریٹجک سے جیو اکنامک کی طرف تبدیل کر رہا ہے ایسے وقت میں ثقافتی
سفارتکاری کو بھرپور طریقے سے بروئے کار لاتے ہوئے ہم علاقائی تنازعات کے
خاتمہ کے ساتھ ساتھ وسطی و جنوبی ایشیائی ریاستوں کے عوام کے لیے ایک نئی
دنیا پیدا کر سکتے ہیں جہاں امن ، تعلیم ، روزگار ، صحت سمیت دیگر زندگی کی
بنیادی ضروریات میسر آسکیں گی تاہم اس کا سہرا یقینی طور پر پاکستان اور
ازبکستان کے سرپر ہوگا۔
|