آزاد کشمیر میں 11ویں عام انتخابات میں سونامی کی تیز
لہروں نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے خواب چکنا چور کر دیئے۔ پی ٹی آئی
کی یہ سونامی سب کچھ بہا کر لے گئے۔ اس طرح یہ روایت بھی برقرار رہی کہ
اسلام آباد کی حکومتی چھاپ مظفر آباد پر پڑی اور اس کا عکس بھی نظر آیا۔
عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی نے حکومت سازی کے لئے سادہ اکثریت حاصل
کر لی ہے۔ اگلا مرحلہ مخصوص نشستوں پر امیدواروں کا انتخاب ہے۔ پھر سپیکر
اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب ۔ سب سے اہم مرحلہ وزیراعظم اور اس کی کابینہ کا
انتخاب ہے۔ یوں پی ٹی آئی صدر کے طور پر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری وزارت
عظمیٰ کے حق دار ہیں۔ بیرسٹر صاحب کشمیر کاز کے لئے سفارتی سرگرمیوں اور
سفارتی تعلقات میں بھی سب سے آگے ہیں۔اگر وہ علاقائی تعصب یا کسی برادری یا
جانبداری ، دھڑہ بندی سے بری ہو جائیں تو وہ بہترین انتخاب ہو سکتے ہیں۔
آزاد کشمیر کی سیاست میں ایک معروف نام سردار تنویر الیاس کی صورت میں داخل
ہوا ہے۔ جس نے اسلام آباد کو سنٹورس کی شکل میں ایک بہترین آئیکون دیا۔
وفاقی دارالحکومت میں کشمیریوں کا بہترین سماجی خدمات اور تعمیر و ترقی میں
اہم کردار ہے۔ اس لئے وہ عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ سیاست
میں بھی وہ کسی سے پیچھے نہیں۔اس لئے سردار صاحب کا سرمایہ دار کی حیثیت سے
اس اہم منصب پر بیٹھنا معاشی سرگرمیوں کو تیز کرنے کا باعث بنے گا۔ وزارت
عظمی کے تیسرے امیدوار انوارلحق ہیں۔ جن کی نیک نامی سے لوگ واقف ہیں۔
وزارت عظمیٰ کے چوتھے امیدوار خواجہ فاروق احمد ہیں۔ جو پی ٹی آئی کے
دیرینہ، وفادار اور مخلص کارکن ہیں۔ انھوں نے مظفر آباد میں پی ٹی آئی کی
مقبولیت میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ان کا انتخاب ازم کی سیاست کو دفن کر
سکتا ہے۔دیگر امیدواروں کی باہمی محاز آرائی میں ہو سکتا ہے کہ خواجہ صاحب
ہی وزیراعظم بن جائیں۔ تا ہم جو بھی اس کرسی پر براجمان ہو گا۔ اسے کشمیر
کاز سمیت تعمیر و ترقی، بے روزگاری کے خاتمے، کشمیر کے تشخص کی بحالی ،
وفاق سے مضبوط اور دوستانہ تعلقات، خطے میں زراعت کا فروغ، صنعتوں کے قیام،
سمندر پار کشمیریوں کو سرمایہ کاری پر راغب کرنے جیسے چیلنجز کا سامنا ہو
گا۔ اس سے پہلے بر سر اقتدار لوگ ہی سمندر پار کشمیریوں کی تقسیم، سماجی نا
انصافی، برادری اور علاقہ ازم کو ہوا دینے میں پیش پیش رہے ہیں۔ وہ کشمیر
کے نام پر دنیا کی سیر کرتے ہیں۔ مگر وہاں کشمیر کو چھوڑ کر ہر کارنامہ
انجام دیتے ہیں جس سے کشمیریوں پر دھبہ لگتا ہے۔سیر سپاٹے، عیاشی، زاتی
شاپنگ کے چرچے ہوتے ہیں۔ مظفر آباد میں بر سر اقتدار لوگ ہمیشہ ڈرے ڈرے
رہتے ہیں۔ ان پر احتساب کی کوئی خفیہ تلوار لٹکی رہتی ہے۔ جب کہ یہاں بے
لاگ احتساب کی از حد ضرورت ہے۔ کیوں کہ یہ حکمرانوں کا فراڈ عام سکینڈل
نہیں بلکہ اس میں شہیدوں کا مقدس لہو بھی شامل ہوتا ہے۔ اگر وہ اپنے منصب
سے ہٹ کر کوئی کام کریں تو یہ اس مقدس لہو سے غداری ہو گی۔ مگر ہمیشہ یہ
کہا جاتا ہے کہ فلاں نے بھی ایسے کام کئے ، کسی نے کچھ نہ کہا تو انہیں کون
پوچھے گا۔
آزاد کشمیر کی نئی حکومت کے لئے صدر، وزیر اعظم، سپیکر، پی ایس سی چیئر
مین، چیف الیکشن کمشنر، چیئر مین احتساب بیورو جیسے عہدوں پر ایسے مخلص اور
ذہین شخصیات کا انتخاب ضروری ہے جو بے لوث اور رضاکارانہ طور پر کسی ازم سے
بالا تر ہو کر خدمات سر انجام دیں۔ جو اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلیں۔ جو عوام
کی فلاح و بہبود، تحریک آزادی کے بجائے اپنی تنخواہیں اور مراعات بڑھانے کے
لئے بہانے تلاش نہ کرتے ہوں۔ یہاں نوجوانوں کو روزگار کے مواقع درکار ہیں۔
یہاں کی پیداوار کی طرف توجہ دینی ہے۔ پن بجلی کے چھوٹے چھوٹے پروجیکٹ
بنانے ہیں۔ اسلام آباد سے معاشی پیکج لانا ہے۔ تارکین وطن کشمیریوں کو اس
طرف متوجہ کرنا ہے۔ جنگلات اور معدنیات کی طرف توجہ دینی ہے۔ سفارتکاری کی
طرف راغب ہونا ہے۔ اس کے لئے ایک ٹیم کی ضرورت ہے۔ کوئی ایک تمام کام نہیں
کر سکتا۔ مگر ان سبھی کی نگرانی کر سکتا ہے۔ کوئی سفارتی کا ماہر ہے تو
کوئی سرمایہ کاری کا۔ مگر آزاد کشمیر میں ایک ہی طرف گم ہونے کے بجائے ہمہ
گیر شخصیت درکار ہے۔ عوام نے ووٹ بھی اسی لئے دیا ہے کہ اسلام آباد اور
مظفر آباد کے درمیان دوستانہ تعلقات مضبوط ہوں تا کہ فنڈز کا کوئی مسلہ
پیدا نہ ہو۔ لوگوں کے روز مرہ کے معاملات حل ہوں۔ تعلیم، صحت، پانی، روزگار
پر حکومت توجہ دے۔ کرپشن کا خاتمہ ہو۔شاید گلگت بلتستان کے بعد آزاد کشمیر
میں بھی پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کو کامیابی اور مسلم لیگ ن کو
ناکامی اسی لئے ہوئی ہے۔گو کہ تبدیلی کی چلتی لہر میں عوام نے اسلام آباد
میں برسر اقتدار پارٹی کو مظفر آباد میں تاج پہنانے کی تاریخی روایت برقرار
رکھی۔مگر ووٹرز نے53 رکنی اسمبلی کے لئے اپنا حق رائے دہی بڑے مقاصدکے لئے
استعمال کیا ہے۔آزادکشمیر کا اپنا جھنڈا، قومی ترانہ، قانون ساز اسمبلی،
صدر، وزیراعظم،سپریم کورٹ، ہائی کورٹ، الیکشن کمیشن اور ٹیکس وصولی کا نظام
ہے ۔ اس نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ 8نشستیں خواتین، ٹیکنوکریٹس اور
اسلامی سکالرز کے لئے مختص ہیں۔مگر یہ برائے نام نہ ہوں۔ بلکہ ان سے عوام
کو براہ راست فائدہ پہنچے۔
آزاد کشمیر کوپاکستانی سیاسی پارٹیوں نے آپسی تناؤ، گرما گرمی، دنگل کا
اکھاڑہ بنایا مگر اب انتقام کی سوچ دریا برد کی جائے۔ ایک دوسرے پرغداری،
کشمیر کا سودا کرنے والے، را کے ایجنٹ، یہودیوں کے کاسہ لیس، لٹیرے، چور،
ڈاکو، دو نمبر، عورت دشمن، سیاسی نابالغ ہونے کے فقرے کسنے سے وقتی فائدہ
ہو سکتا ہے مگر اس کے منفی نتائج سب کو متاثر کرتے ہیں۔آزاد کشمیر کی سیاست
میں منشور کے بجائے نعروں، وعدوں، نغموں، الزامات ، جوابی الزامات سے چلائی
گئی انتخابی مہم اختتام پذیر ہو چکی ہے۔ کشمیر کو بیچنے اور مودی کے یار کا
الزام لگانے کا دور بھی ختم ہو گیا ہے۔ یہاں غیر پارلیمانی اور ناشائستہ
الفاظ مخالفین کے لئے استعمال کئے گئے۔گزشتہ عرصہ سے انتخابی سیاست میں
نازیبا کلمات کا استعمال بڑھ رہا ہے۔عظیم لوگ مہذب اور شائستہ زبان استعمال
کرتے ہیں۔ حالات چاہے جیسے بھی ہوں،کبھی بھی بدزبانی نہیں کرتے۔ زاتی تضحیک
یا کیچھڑ اچھالنے سے باز ہتے ہیں۔ مگر اب سیاست میں انتشاری اور بازاری
زبان کا استعمال جیسے فیشن بن رہا ہے۔ کردار اور اخلاقیات پر توجہ کم ہو
رہی ہے۔ نئی نسل کو تہذیب و تمدن سے دور کیا جا رہا ہے۔ بازاری اور غیر
پارلیمانی گفتگو بچوں اور نوجوانوں سمیت سارے معاشرے کو آلودہ کر رہی ہے۔
اس پر بھی توجہ دینی کی ضرورت ہے۔
|