ایک ہو تو راحت ، دو ہوں تو مصیبت اور تین ہوجائیں تو
آفت ۔ آپ اگر سوچ رہے ہیں کہ یہ ہندوستانی سیاست کے ’امر اکبر انٹونی ‘کی
بات ہو رہی ہے تو وہ اندازہ غلط ہے۔ اس میں شک نہیں جب یہ تینوں ایک جگہ
جمع ہوجائیں تو ’ہونی کو انہونی اور انہونی کو ہونی‘ کردیتے ہیں۔ ایسا
حقیقت کی دنیا میں تو نہیں ہوتا مگر ذرائع ابلاغ میں تو ہو ہی جاتا ہے۔
جیسے بغیر کسی محنت و مشقت کے اتر پردیش میں اچانک راتوں رات دس اسمارٹ سٹی
نمودار ہو گئے اور وہاں کے باشندوں کو اس کی اطلاع اخبار سے ملی ۔ اسے پڑھ
کر بھکتوں نے راحت کا سانس لیا، مخالفین کے لیے یہ خبر مصیبت بن گئی اور
عام لوگ اس نئی آفت سے بچنے کے لیے فکر مند ہوگئے ۔ خیر وہ پہلا جملہ ان
تینوں طبقات کے بارے میں بھی نہیں ہے بلکہ یہ بات آج کل اتر پردیش میں
بچوں کی بابت زبان زدِ عام ہوگئی ہے۔ ایسے میں اگر کسی کو فیض احمد فیض کا
مشہور شعر یاد آتا ہے تو یہ اس کا کوئی قصورہے؎
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت نا گوار گزری ہے
اکتوبر 2013 ء کے اندر آر ایس ایس کی قومی ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں ہندوؤں
سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ اپنی آبادی میں اضافے کے لیے کم از کم تین بچے تو
ضرور پیدا کریں۔ اس کے بعد بی جے پی رکن پارلیمان ساکشی مہاراج اور سادھوی
پراچی نے ہندوؤں سے چار چار بچے پیدا کرنے کی اپیل کی تھی۔ ظاہر ہے آر ایس
ایس کو اپنی شاکھا میں جتنے بچوں کی ضرورت ہے بی جے پی کو اس سے زیادہ رائے
دہندگان درکار ہیں۔ ایسے میں وشوا ہندو پریشد کے سابق صدر ڈاکٹر پروین
توگڑیا نے بریلی میں وشوا ہندو پریشد کے 50 ویں یوم تاسیس کی تقریب سے خطاب
کرتے ہوے کہا تھا کہ ’’چار بچوں کی بات کرنے پر اتنا ہنگامہ کیوں کھڑا ہو
رہا ہے؟ جب مسلمان زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں، تو لوگ کیوں چپ رہتے ہیں۔
مسلمان چار شادیاں اور 10 بچے پیدا کرتے ہیں، اگر دو بچوں کی بات کرنی ہے
تو قانون بنایا جائے، جو لوگ زیادہ بچے پیدا کر رہے ہیں ان کے خلاف بھی
کارروائی ہونی چاہیے۔‘‘ حیرت کی بات ہے کہ توگڑیا کے مطالبے پر جب قانون بن
رہا ہے تو وی ایچ پی اس کی مخالف ہے۔
مہاراشٹر کے مالیگاؤں دھماکہ کی اہم ملزم سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر نے سن
2018میں ہندوؤں سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی اپیل کرکے امیت شاہ کا اس طرح
دل جیتا کہ انہیں بی جے پی نے بھوپال سے ٹکٹ دے کر رکن پارلیمان بنادیا
جبکہ وہ ہنوز ملزم ہے ۔ اس پر29 ستمبر 2008 کو مالیگاؤں میں ایک موٹر
سائیکل کے اندر بم لگا کر دھماکہ کرنے کا الزام ہے ۔ اس دھماکے میں 8 لوگوں
کی موت اور 80 لوگ زخمی ہو گئے تھے۔ اس معاملے میں سادھوی پرگیہ کو 2008
میں گرفتار ہوئیں تقریباً 9 سال جیل میں رکھنے کے بعد اپریل 2017 میں ضمانت
دی گئی ۔ ہیمنت کرکرے کی ناگہانی موت کو اپنی بددعا کا نتیجہ بتانے والی
پرگیہ خود کو گاندھی جی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کی مداح بتاتی ہیں ۔ اس کے
باوجود انہیں قومی سلامتی کا رکن بنایا گیا اور بعد میں رسوا کرکےہٹایا
گیا۔ اس سادھوی نے کہا تھا کہ ’’ اگر آپ ملک کے لیے زیادہ کچھ نہیں کر
سکتے ہیں تو ملک کے مفاد میں زیادہ بچے پیدا کریں۔ انھوں نے مزید کہا کہ
ملک کے لیے زیادہ بچے پیدا کرنا آپ کی ذمہ داری ہے اور اس کی پرورش
ہماری‘‘۔
سوچنے والی بات یہ ہے کہ جس عورت نے خود شادی کرنے کی زحمت نہیں کی ہو وہ
بھلا دوسروں کے بچوں کی پرورش کیسے کرسکتی ہے؟ ہاں ان کی مدد سے دھماکے
ضرور کرواسکتی ہے۔ سادھوی پرگیہ نے جوش میں آکر ہندوؤں کو للکارہ تھا کہ
’’یہ بھگوا آپ کو پکار رہا ہے کہ ابھی ملک کو آپ کے بچوں کی ضرورت ہے اس
لیے زیادہ بچے پیدا کرو۔ میرے کہنے سے کچھ نہیں ہونے والا ہے، آپ کو اس پر
غور کرنا ہوگا۔ آپ کو سمجھنا ہوگا کہ اگر آپ لوگ کئی پرگیہ سنگھ کھڑی کر
دو اور اگر ان میں سے ایک کو سازش کے تحت جیل میں ڈال کر مار دیا جائے گا
تو بھی فرق نہیں پڑے گا۔‘‘ یہ بات تو درست ہے کہ پرگیہ ٹھاکر کے جیل میں
مرجانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن پھر ایسے بیان کون دے گا جسے وزیر
اعظم کبھی دل سے معاف نہ کریں مگر اس کے خلاف کوئی اقدام بھی نہ کریں ۔ آر
ایس ایس کے لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان ناپختہ جذباتی لوگوں کے بیانات سے
سنگھ کا کوئی تعلق نہیں لیکن وہ اپنے سربراہ موہن بھاگوت کی زیادہ بچے پیدا
کرنے کی اپیل کاکیا کریں گے؟
19 اگست 2017 کو آگرہ میں منعقد ہ ایک تقریب میں موہن بھاگوت نے کہا تھا
کہ دوسرے مذہب والے جب اتنے بچے پیدا کر رہے ہیں تو کیا آپ کو کسی قانون
نے روک رکھا ہے؟ یہ درست بات ہے کہ اس میں کوئی قانونی پابندی نہیں ہے لیکن
اسی طرح کی پابندی شادی کرنے پر بھی نہیں ہے۔ ایسے میں آر ایس ایس اپنے پر
چارکوں کو شادی کی اجازت کیوں نہیں دیتا ؟ اور پرچارک خود شادی کرکے بچے
پیدا نہ کرے تو اس کی ترغیب کیونکر موثر ہوسکتی ہے؟ انھوں نے کہا تھا کہ
کوئی قانون ہندوؤں کو بچے پیدا کرنے پر پابندی نہیں لگاتا اور اس طرح کے
فیصلے خاندانی صورت حال اور ملک کے مفاد کو دھیان میں رکھتے ہوئے لینا
چاہیے۔ وی ایچ پی نے ہندوؤں سے کئی بچے پیدا کرنے کی وکالت کرتے ہوئے کہا
تھاکہ بچے پیدا کرنے کا فیصلہ صرف ایک شادی شدہ جوڑے کا نہیں ہو سکتا ہے،
جب ملک کی بات آتی ہے تو یہ معاملہ اجتماعی اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے۔
یوگی جی نے یہ قانون بنا کر ان سارے لوگوں ٹھکانے لگا دیا ہے لیکن ان کا
کچھ نہیں بگڑا اس لیے کہ ان سب نے نہ شادی کی اور نہ بچے پیدا کیے ۔ مصیبت
تو ان لوگوں کے لیے کھڑی ہوگئی جنہوں نے دیش بھکتی کے نشے میں ان بال
برہمچاریوں کی بات مان کر دوسے شیادہ بچے پیدا کردیئے ۔ اب ان بیچاروں کو
نہ تو سرکاری نوکری ملے گی اور نہ ترقی ہوگی بلکہ ان بچوں کو پالنے کی
خاطرسرکاری سہولیات تک سے محروم کردیا جائے گا۔ یہ دیش بھکت اب سنگھ کی کسی
بات پر کیسےا عتبار کریں گے؟
یوگی حکومت نے نئی آبادی پالیسی فی الحال ایک مسودہ ہے جس پر رائے لی
جارہی ہے ۔ سمجھدار لوگ اس پر اپنا وقت ضائع نہیں کررہے ہیں کیونکہ مثل
مشہور ہےبھینس کے آگے بین بجاو بھینس کھڑی پورائے ۔ آج کل قوانین دلائل
کی بنیاد پر نہیں تعداد کے سہارے منظور ہوجاتے ہیں ۔ اس لیے ممکن ہےمجوزہ
قانون گزٹ شائع ہونے کے ایک سال بعد نافذ العمل ہونے کے قابل ہوجائے گالیکن
اس وقت سے پہلے اگر یوگی جی اقتدار سے باہر ہوگئے تو اگلی حکومت اسے کچرے
کی ٹوکری دکھا دے گی اور 2022 سے 2030 تک کے لئے نئی آبادی پالیسی نافذ
کرنے کا خواب ٹوٹ پھوٹ کر بکھر جائے گا۔ اس قانون کے حوالے کیا جانے والا
یہ دعویٰ صد فیصد درست ہے کہ اس میں تمام طبقات کا خیال رکھا گیا ہے۔ مثلاً
قانون نافذ ہوتے وقت حمل ہونا اور حمل میں جڑواں بچے ہونے کی صورت میں یہ
قانون نافذ نہیں ہوگا۔ دو بچ معذور ہونے پر تیسرے بچے کو سہولیات سے محروم
نہیں کرنا وغیرہ ۔ اس مسودے کے مطابق تیسرے بچے کو گود لینے پر پابندی سے
استثنیٰ کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔
اس پالیسی کے مسودے کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس کےاندر کثرت ازدواج کا لحاظ
کیس گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ سے اس کی توقع خود ان کو بھی نہیں
رہی ہوگی۔ مسودے کے اندران جوڑوں کے لئے خصوصی دفعات شامل کی گئیں ہیں جن
کو مذہبی یا پرسنل لاء کے تحت ایک سے زیادہ شادی کرنے کی اجازت ہے ۔ اس کے
مطابق اگر کوئی شخص ایک سے زیادہ شادیاں کرے اور جب تک اس کی تمام بیویاں
کے دو سے زیادہ بچے نہ ہوں تو وہ سہولیات سے محروم نہیں ہو گا۔ یعنی اگر
کوئی مسلمان چار نکاح کرے اور ہر بیوی کے دو دو بچے ہوں تو سرکاری مراعات
حاصل کرسکے گا۔ اس مسودے کے اندر مردوں کوتو ایک سے زیادہ بیویوں سے دو سے
زیادہ بچے پیدا کرنے پر ہی مصیبت آتی ہے لیکن اگر عورت ایک سے زیادہ
شادیاں کرتی ہے اور مختلف شوہروں سے دو سے زیادہ بچے پیدا کرنے پر سہولیات
محروم ہوجائےگی ۔ ایسے میں کسی تین بچوں کی طلاق شدہ خاتون یا بیوہ سے کوئی
نکاح نہیں کرے گا۔ دوبچوں کی ماں سے شادی کرنے والااپنا بچہ پیدا کرنے سے
گریز کرے گا اور غیر مسلم تو دوسری شادی بھی نہیں کرسکے گا ۔
تین طلاق کا قانون بناکر مسلم خواتین سے ہمدردی جتانے والوں کے ذریعہ وضع
کردہ یہ قانون ہر زاویہ سے عورتوں کے ساتھ نا انصافی کا موجب بنے گا۔ ایک
تو دو سے زیادہ بچوں کا باپ بلدیاتی انتخاب لڑنے کی خاطر اپنی بیوی کو چھوڑ
دے گا اور ایسے واقعات سامنے آچکے ہیں ۔ اس طرح کے قانون سے ایک طرف تو
بچی کا اسقاطِ حمل کا امکان بڑھ جائے گا جس سے ماں کی جان اور صحت کو بھی
خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔ خواتین کو بے یارو مددگار چھوڑ کر سیاسی رہنما اپنی
کرسی بچانے کی فکر کریں گے ۔ یوگی جی کو توقع رہی ہوگی کہ مسلمان اس قانون
کا نام سنتے ہی زندہ باد مردہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے میدان میں اتر جائیں
گے اوروہ ہندو رائے دہندگان سے کہہ سکیں گے کہ یہ دیکھو ہم نے مسلمانوں کو
سبق سکھا دیا ۔ ان کے اکثریت میں آکر تم پر راج کرنے کے منصوبے کو خاک میں
ملادیا اس لیے اب احسانمندی کا تقاضہ ہے کہ ہماری ساری کوتاہیوں کو بھول کر
ہمیں دوبارہ اقتدار سے نواز دو ۔کیا یوگی جی سمجھتے ہیں کہ ہندو عوام اس
قدر بے وقوف ہیں کہ ان کے جھانسے میں آکر انہیں کامیاب کردیں گے؟ اتر
پردیش کا انتخاب دراصل ہندو عوام کے سیاسی شعور کا امتحان ہے۔ دیکھنا یہ ہے
کہ وہ اس میں کامیاب ہوتے ہیں یا ناکام ہوجاتے ہیں؟
|