افغان میں چین اور بھارت کا کردار

افغانستان امن عمل میں چین کا اہم کردار سامنے آ رہا ہے۔ بھارت بھی افغانستان میں نئی مداخلت کی پیش بندی کر رہا ہے۔ افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی نے ایک بار پھر خطے میں طالبان کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ چین کے وزیر خارجہ وانگ یائی کی بدھ کے روز چین کے شمالی شہر تیانجن میں طالبان کے معاون سیاسی سربراہ ملا عبدالغنی برادر کی سربراہی میں 9رکنی وفد سے ملاقاتچینی دلچسپی کی عکاس ہے۔ چین چاہتا ہے کہ طالبان خطے کے جنگجوگروپوں کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات ختم کریں، جن میں چین مخالف ترکستان اسلامی تحریک (اِی ٹی آئی ایم) بھی شامل ہے۔ ملا برادر نے، جو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں گروپ کے دفتر کے سربراہ ہیں،چینی وزیر خارجہ سے طالبان کے بارے میں بیجنگ کے تحفظات دور کرنے کے لئے ملاقات کی ۔اسی روزامریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کی بھارتی وزیر خارجہ سبرامینیم جے شنکرسے اس وقت ملاقات ہوئی جب طالبان وفد چینی وزیر خارجہ سے ملاقات کر رہا تھا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی وزیر خارجہ نے خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ پر تشویش ظاہر کی ۔ اس کے ردعمل میں امریکہ نے بھارت کو افغانستان میں کردار ادا کرنے کی ترغیب دی ہے۔ امریکہ اور بھارت ، افغانستان میں باہمی تعاون کے نئے طریقوں پر غور کر رہے ہیں۔دونوں کسی نئے علاقائی محاذ کی تشکیل کر رہے ہیں۔دونوں خطے میں چین کو الگ تھلگ کرنے کے لئے فوجی اور دفاعی معاہدے کر رہے ہیں۔امریکہ، بھارت، جاپان اور آسٹریلیا کا چار ملکی اتحاد بھی اسے تناظر میں ہوا ہے۔ جسے چین اپنے بڑھتے ہوئے استحکام کے لئے سازش قرار دیتا ہے۔ چہند دن قبل ایک اہم امریکی سفارتکار اور نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین نے چین کا دورہ کیا ۔انہوں نے چین کے وزیر خارجہ سے بھی ملاقات کی۔یہ دلچسپ بات ہے کہ چین کے وزیر خارجہ نے طالبان وفد اور امریکی نائب وزیر خارجہ سے ملاقات کے لئے ایک ہی مقام’’تیاجن‘‘ کا انتخاب کیا ہے۔امریکہ نے چین کی طالبان سے بات چیت کو عالمی سطح پر طالبان کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے لیے چین کے نرم گوشے کی اہمیت کا اظہار کے طور پر پیش کر رہا ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ طالبان افغانستان میں اہم فوجی اور سیاسی طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں اور ملک کے امن، مفاہمت اور تعمیر نو کے عمل میں ان کا کردار اہمیت کا باعث ہو گا۔چین اس کا اعتراف کر رہا ہے۔ چین اور طالبان کے درمیان بات چیت ایسے میں ہوئی ہے جب افغانستان سے امریکہ اور نیٹو کی افواج کا انخلا تقریباً مکمل ہونے والا ہے۔ فوج کی واپسی کا یہ عمل فروری 2020ء میں طالبان کے ساتھ امریکہ کے سمجھوتے کی بنیاد پر عمل میں آیا۔تاہم، امریکہ کی سرپرستی میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان ہونے والی امن بات چیت کی سست روی کے باعث خاطر خواہ نتائج برآمد ہونے میں ناکامی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے امریکی خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ تمام غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد ملک میں بین الافغان تنازع بڑھ کر خانہ جنگی کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔اب افغان صدر اشرف غنی کہتے ہیں کہ وہ طالبان کے ساتھ براہ راست بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔
چین بھی سمجھتا ہے کہ افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کا فوری انخلا دراصل افغانستان سے متعلق امریکی پالیسی کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ چین چاہتا ہے کہ سیکیورٹی کے حوالے سے کسی قسم کا کوئی خلا باقی نہ رہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ غیر ملکی افواج کی واپسی ذمہ دارانہ طریقے سے ہونی چاہئیں۔ امریکی قیادت میں غیر ملکی افواج کے ملک سے باضابطہ انخلاکے آغازکے دوران طالبان نے افغان فورسز کے خلاف بڑے پیمانے پر حملے شروع کر دیئے ہیں اور ملک کے ایک وسیع علاقے پر قبضہ جما لیا ہے۔ سامریکہ کو خدشہ ہے کہ یکیورٹی کی دگرگوں صورت حال کی وجہ سے یہ خطرہ بھی موجود ہے کہ مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والے جنگجو گروہ اکٹھے ہو کر بین الاقوامی حملوں کی منصوبہ سازی کر سکتے ہیں۔تا ہم امریکہ کے ساتھ ہو معاہدے میں طالبان نے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ القاعدہ سمیت تمام ملیشیاگروپوں کے ساتھ قطع تعلق کریں گے اور کسی طور پر امریکی قومی سیکیورٹی کے مفادات کے لیے خطرے کا باعث بننے والے جنگجوؤں کو افغان سرزمین استعمال کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے۔ناقدین اور اقوام متحدہ کی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق، ابھی تک یہ تعلقات منقطع نہیں ہوئے۔امریکہ کا یہ پروپگنڈہ اس کی کی گو مگو پالیسی کا عکاس ہے۔چین اورطالبان کی ملاقات میں امن عمل اور سلامتی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔چین کی وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق وانگ یائی نے کہا کہ ہمیں توقع ہے کہ طالبان افغانستان میں پرامن مفاہمت اور تعمیر نو کے عمل میں اہم کردار ادا کریں گے۔انہوں نے چین کے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ میں متحرک گروپ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں اُمید ہے کہ طالبان مشرقی ترکستان کی اسلامی تحریک کے خلاف بھی کارروائی کریں گے کیونکہ یہ تحرک چین کی قومی سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ ہے۔طالبان کا قطر میں ایک سیاسی دفتر ہے جہاں امن مذاکرات ہورہے ہیں اور اس ماہ انہوں نے اپنے نمائندے ایران بھی بھیجے جہاں انہوں نے افغان حکومت کے وفد سے ملاقاتیں کیں۔طالبان کے ترجمان محمد نعیم نے دورہ چین کے حوالے سے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ ملاقاتوں میں سیاست، معیشت اور دونوں ممالک کی سلامتی اور افغانستان کی موجودہ صورتحال کے ساتھ ساتھ امن عمل سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔طالبان کا یہ گروپ، طالبان کے مذاکرات کار اور نائب امیر ملا برادر اخوند کی سربراہی میں افغانستان کے لیے چین کے خصوصی مندوب سے بھی ملاقات کر رہا ہے اور انہوں نے یہ دورہ چینی حکام کی دعوت پر کیا ہے۔چین کی سرحد کے ساتھ ملحقہ افغانستان میں امن و امان کی صورتحال تیزی سے خراب ہوتی جارہی ہے کیونکہ امریکا نے رواں سال ستمبر تک اپنی افواج بلانے کا اعلان کیا ہے۔طالبان نے ملک بھر کے اضلاع اور سرحدی گزرگاہوں پر فوجی کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ قطر کے دارالحکومت میں ہونے والے امن مذاکرات میں بھی خاطر خواہ پیشرفت نہیں ہوسکی۔طالبان چین کو یقین دلارہے ہیں کہ وہ کسی کو بھی چین کے خلاف افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ چین نے بھی افغان عوام کی معاونت کا سلسلہ جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کر رہا ہے کہ وہ افغانستان کے معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے بلکہ ملک میں امن اور مسائل حل کرنے میں مدد کریں گے۔افغان صدر اشرف غنی نے مشترکہ رابطہ اورمانیٹرنگ بورڈ کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے اعلان کر دیاکہ وہ طالبان سے براہ راست بات چیت کیلئے تیار ہیں، 5ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم امن چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ آج کی جنگ خانہ جنگی نہیں بلکہ نیٹ ورکس کی جنگ ہے ۔

کابل، بیجنگ اور نئی دہلی میں افغانستان کے مستقبل کے بارے میں ملاقاتیں اور لائحہ عمل کی تشکیل پر پاکستان کو خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اعتراف کر رہے ہیں کہ امریکہ ان پر بھارت کو افغانستان میں کردار ادا کرنے کے لئے دباؤڈال رہا ہے۔ امریکہ یہ بھی چاہتا ہے کہ پاکستان کے چین سے تجارتی اور دوستانہ تعلقات ختم ہو جائیں۔ اس کے لئے بھی عمران خان حکومت دباؤ میں ہے۔ مگر امید ہے کہ پاکستان اپنے اور اس خطے کے مفاد میں امریکی دباؤ قبول نہیں کرے گا۔ اس پہلے امریکی مفادات کی جنگ میں کود کر پاکستان جانی اور مالی نقصان سے دوچار ہو چکا ہے۔ پرویز مشرف اور اس کے درباری ڈر رہے تھے کہ امریکہ پاکستان کو تورا بورا بنا دے گا۔ مگر اب امریکہ کا اپنا تورا بورا ہو چکا ہے۔وہ افغانستان میں لگنے والے کہرے زخم دیر تک چاٹتا رہے گا۔ امریکہ کی تاریخ صدیوں تک ان زخموں کی کاٹ محسوس کرتی رہے گی۔
 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 554971 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More