چند دن قبل بڑے صاحب کا کتا گم ہوا ۔۔۔ اس’’ عظیم سانحے‘‘ پرصاحب کے غلاموں
نے شہر بھر میں تلاش کے لئے رکشہ گھمایا۔۔۔شہر میں یہ خبر جنگل کی آگ کی
طرح پھیل گئی ۔۔۔ ۔۔۔ اور پھر کتا مل بھی گیا ۔۔۔ لیکن صاحب کی عظمت اور
کتے کی قدرو منزلت سے جلنے والوں کو خوامخواہ ہی باتیں بنانے کا موقع مل
گیا ، چھوٹی چھوٹی اوقات کے مالک ان گٹروں کا پانی پینے والوں کو یہ جرات
کیسے ہوئی ۔۔۔شکل دیکھیں اپنی ۔۔۔پیلی رنگت ۔۔۔ہیپا ٹائیٹس زدہ چہرے ۔۔۔۔یہ
کیڑے مکوڑے نما عوام جن کے منہ سے حسداور غصے کے مارے ایسے ہی جھاگیں نکل
رہی تھیں ۔۔۔اور وہ یونہی نتھنے پھلا رہے تھے ۔۔۔کیا ہی اچھا ہوتا۔۔۔جس
رکشے میں کتے کی گمشدگی اور کتانہ ملنے کی صورت میں سخت کارروائی کی دھمکی
کا اعلان ہو رہا تھا۔۔۔۔ اس کے پیچھے’’ جلنے والے کا منہ کالا‘‘ کی ایک
فلیکس بھی لگا دی جاتی تاکہ’ صاحب اور کتے کے حاسدوں کو دھمکی کے ساتھ ساتھ’’
سرکاری کالک‘‘ بھی پہنچ جاتی ،صاحب کے کتے کی گمشدگی کے اعلان پر شور شرابا
کرنے والوں میں زیادہ ترغریب غرباء ۔۔۔حالات کے مارے ۔۔۔مزدورپیشہ ۔۔۔ گندے
مندے۔۔۔بدبودار ۔۔۔میلے کچیلے۔۔ وہ’’ بندرنما‘‘انسان شامل تھے جنہیں صاحب
کے اس انمول کتے کے مرتبے کا کوئی اندازہ نہ تھا صاحب کے سخت ایکشن اوران
کی ذاتی دلچسپی کے امور دیکھ کرمیرا یقین پختہ ہوگیا ہے کہ ان بدتمیز
غریبوں میں حسد کی بیماری نہ ہوتی تو صاحب کی طرح یہ بھی ترقی کر چکے ہوتے
۔۔۔ ان غریبوں کومہذب لوگوں کے رہن سہن کا کیا کچھ پتا نہیں ہوتا ۔۔۔صرف
صاحب ثروت لوگ بڑے مہذب ہوتے ہیں ۔۔۔ بڑی کلغی والوں کو چونکہ صاحب کے کتے
کی شان و شوکت اور سرکاری حیثیت کا بخوبی اندازہ تھا سو انہوں نے رکشے پر
اعلانیہ دھمکیوں پروہی چُپ سادھے رکھی جو انکی شخصیت کا مستقل حصہ رہتی ہے
۔۔۔۔غریبوں کے واویلے ۔۔۔۔ کی سرمایہ داروں کے کانوں تک کبھی رسائی نہیں
ہوتی۔۔ ۔ بڑے صاحب ایکڑوں پر محیط جس گھر میں رہتے ہیں اس میں کتا تو کیا
۔۔۔پورا شہر گم ہوسکتا ہے اور گم ہی نہیں ۔۔دفن بھی ہوسکتا ہے ۔۔۔ شہر میں
قبرستان تنگ ہیں۔۔ جہاں مردے دفنانے مشکل ہیں۔۔۔۔سرکاری اسپتالوں میں ایک
بستر پر چار چار مریض ایک دوسرے کو بیماریاں منتقل کر ر ہے ہیں ۔۔۔۔آپریشن
تھیٹروں میں آپریشن کے لئے جگہ نہیں۔۔۔اسکولوں کالجوں کے لئے کہیں کوئی
خالی زمین موجود نہیں ۔۔۔۔اسکے باوجود فراڈیئے سیاستدان الیکشن سے پہلے
چاہے لاکھ وعدے کریں نعرے لگائیں ۔۔مگر حکومت میں آکر صاحب کے گھر کی طرف
کوئی آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھ سکتا ۔۔۔۔پھر بھی’’ کھرک کے مارے‘‘ ۔۔۔بسوں
اورچنگ چی رکشوں میں دھکے کھاتے۔۔۔ذلیل وخوار ہونے کے لئے دنیا میں آئے
ہوئے۔۔۔ قابل نفرت عوام۔۔۔جن کا آدھا دن اسپتالوں یا سرکاری دفتروں کے باہر
لائنوں میں کھڑے گزر جاتا ہے یہ امید رکھتے ہیں کہ صاحب کا گھر خالی کرا کے
وہ یہاں کوئی بڑا اسپتال ۔۔۔کوئی یونیورسٹی بنا دیں گے ۔۔۔۔ ۔۔۔ ذرا
سوچیں۔۔۔صاحب کا پالتو کتا کتنا معتبر کتا تھا۔۔۔۔۔آخر اسکے نام کے ساتھ
بھی تو صاحب کا نام جڑا تھا ۔۔۔۔نام اور عہدے کی نسبت دیکھیں ۔۔۔۔ اتنے بڑے
سکیل کا کتا۔۔۔۔ان مچھر وں سے کم اوقات رکھنے والے فاقہ کشوں کو تو اسطرح
کا کتا کبھی دیکھنا تو کیااسکا ذکر سنناتک نصیب نہ ہو اہوگا ۔۔ ۔۔۔۔سچ میں
اگر یہ کتا کچھ روز نہ ملتا تو ان خارش زدہ ۔۔۔کیڑے مکوڑوں جیسے ۔۔۔ملازم
پیشہ ڈنگر وں میں سے ۔۔۔ نہ جانے کس کس کو بڑے صاحب کہاں کہاں گم کر دیتے
۔۔۔۔۔۔چھوٹی سوچ والے ان چھوٹے لوگوں کولگ پتا جانا تھا ۔۔صاحب کتے کے سچے
قدردان تھے اس لئے انہیں اتنی فکر لاحق ہوئی ۔۔۔۔ ورنہ تو کبھی کسی فالتو
انسان کے لئے انہوں نے اسطرح ایکشن نہیں لیا۔۔۔۔کتوں کے کاٹنے سے انسان
مرجائیں ۔۔۔۔عوام کے لئے ہردوسری سڑک پر کھودے گئے قبر نما گڑھوں میں بچے
بوڑھے گر جائیں ۔۔۔۔۔کیا ہوا ۔۔۔۔۔ ان دو وقت کی روٹی کے لئے دس دس گھنٹے
وزن ڈھونے والوں کی مت ماری ہوئی ہے ۔۔۔۔۔انہیں صاحب کے کتے کی گمشدگی کا
اعلان تک ہضم نہیں ہوا۔۔۔مجھے تو اس کتے کے مقدر پر ہی رشک رہا ہے ۔۔۔سیانے
کہتے ہیں کتے کا اصل مقام تو ہوتا ہی صاحب لوگوں کے گھر میں ہے ۔۔۔۔اورکتا
جچتا بھی وہاں ہی ہے ۔۔۔۔وہاں کتے کو کتاتک نہیں کہا جاتا ۔۔۔اسکے کئی
پیارے پیارے سے نام ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ ہی کوئی ٹھڈا مارتا ہے ۔۔۔۔
کوٹھیوں اور محلوں جیسے بڑے گھروں میں ٹھوکریں غریبوں اور انکے بچے بچیوں
کانصیب ہوتی ہیں ، امیر زادے کم سے کم شوق بھی کریں تو ان بچیوں کے جسموں
سے کو بوٹی بوٹی کر کے رکھ دیتے ہیں۔۔۔وہاں کتا تو صاحب کے بیڈ روم میں
ساتھ سوتا ہے..... گالیاں اور ٹھڈے ملازموں اور غریب کی بچیوں کو پڑتے
ہیں۔۔اسلئے غریبوں کے بچے امیروں کے محل میں بھی مریل ۔۔۔بیمارسے لگتے
ہیں۔۔۔جیسے تشنج وٹی بی کے مارے ہوں ۔صاحب لوگوں کے گھر انسان کتے جیسااور
کتا انسانوں سے بلند مرتبے والا ہوتا ہے ۔یہ بات غریب غرباء کو سمجھ میں
آجائے توآئندہ کوئی کتے کی گمشدگی کے اعلان پر افسوس نہ کرے۔
میرے وطن کے غریبو۔۔۔۔۔ اپنی اوقات نہ بھولواورصاحب کے کتے کی برآمدگی کے
لئے شاہی فرمان کی طاقت اور کتے کی حیثیت دیکھ کر حسد نہ کرو ، خارش زدہ
عوام اور بادشاہوں کے جرمن شیفرڈ کا فرق دیکھ کر خوامخواہ ہی اپنے ڈیلے نہ
پھیلاؤ ۔۔۔ظلم وبربریت ۔۔۔۔ درندگی کے بعدقتل کر دیئے گئے بچے بچیوں۔۔۔۔۔بے
گناہ جوان بیٹوں کی لاشیں سڑکوں پر رکھ کر ا نصاف کے لئے بلکنے والے آخری
درجے سے بھی نیچے کے انسانو۔۔۔ تم نے صاحب کے کتے کے اونچے سرکاری سکیل اور
اپنی اولادوں کی گھٹیا اوقات کا موازنہ کرنے کا سوچ بھی کیسے لیا۔شکر کرو
کہ صاحب کا کتا مل گیا ہے ۔۔۔ورنہ نہ جانے کس غریب پر کیا کیا ستم اور قہر
ٹوٹ پڑتے۔
|