آؤ دنیا بدلیں

تپتی دھوپ ، گرم لو جس سے آگ کے شعلوں کی تپش جسم کی کھال کو اُبال کررکھ دے ایسے میں نورین رکشے میں جارہی ہوتی ہے اصل میں physiotherapist ہونے کے بائث روز سفر کرتے ہوۓ وہ اپنے اردگر کے کے ماحول کا جائزہ لیتی رہتی ہے اور بہت دنوں سے اُسکی نظر ایک باپ اور بیٹی پر پڑتی ہے باپ (جو کے مفلوج اور بے ہوش دیکھائ دے رہا ہوتا ہے جیسے نشے میں ہو) اور بیٹی اُسکے ساتھ ہوتی ہے اور دونوں سڑک پر پڑے ہوۓ ہوتے ہیں وہاں پر پڑے ہونا انکا روز کا معمول بن چکا ہوتا ہے۔۔
نورین کئیں دنوں سے دونوں کو ایک ہی جگہ پر دیکھ رہی ہوتی ہے اُسکے گمان میں یہ ہوتا ہے کہ شاید اُسکا باپ نشہ کرتا ہے اور یہ دونوں یہاں بیٹھ کر بھیک مانگتے ہیں تاکہ باپ اپنا نشہ پورا کر سکے اور بیٹی اپنا شِکم بھر سکے ۔۔
نورین کی انسانیت کو یہ بات گوارہ نہیں کر رہی ہوتی کے یہ دونوں کیوں گرمی میں بیٹھتے ہیں ؟ایسی گرمی جو رکشے میں بھی مجھ سے برداشت نہی ہو رہی وہ یہ دونوں سارا دن اُسی گرمی میں تپتے ہیں۔۔
نورین سے رہا نہیں جاتا اور وہ رکشے سے اُتر کر اُن باپ بیٹی کے پاس جاتی ہے یہ پوچھنے کی نیت سے کہ اگر تم لوگوں نے مانگنا بھی ہے تو کہیں چھاؤں میں بیٹھ کرمانگو اتنی دھوپ میں جو کھال اور جسم پر ظلم برپا کر دے اور اس قدر تپش میں بھلا کیسے تم لوگ اپنی جانوں پر ظلم کر سکتے ہو؟؟؟؟
وہ لڑکی نیچے اترتی ہے اور camera on کرتی ہے اور پوچھتی ہے کہ آپ یہاں پر کیوں بیٹھتے ہو؟
نورین بہت غور سے اُس آدمی کو دیکھتی ہے ۔۔۔۔۔
بچی بولتی ہے کہ میرے والد کے اوپر سے ٹرک گزر گیا تھا اور اب روز میری والدہ ہم دونوں کو یہاں چھوڑ جاتی ہے اور شام میں لے جاتی ہے ۔۔
یہ منظر نورین کی زندگی کو مقصد دے دیتا ہے اسکی دنیا بدل کر رہ جاتی ہے وہ سوچنے لگتی ہے کہ اس دنیا میں تو ہزاروں لوگ ہیں جو بےبس ، بے روزگار ، اور بہت سے خواب آنکھوں میں لیے بیٹھے ہیں لیکن اُنکے حالات گوارہ نہیں کر ہے ہوتے کے کچھ کر سکیں ۔۔۔

نورین کی سوچ اُسکو مجبور کرتی ہے کہ وہ سوچے اور اُسکی سوچ اُسکے ضمیر سے سوال کرتی ہے اور کہتی ہے کہ اے نورین:
"دنیا میں دو قسم کے لوگ ہیں ایک وہ جن کے ہاتھ پاؤں سلامت ہیں مگر پھر بھی کام نہی کرتے اور بھیک کا انتخاب کرتے ہیں ۔کیوں ؟؟؟؟؟
کیا اِسلیے کہ اُنکے پاس کوئ نوکری نہیں یا کوئ کام نہیں ؟؟؟؟
اور ایک طرف وہ ہیں جن کا ضمیر گواراہ نہیں کرتا کہ وہ کسی سے مانگیں !!!
کیوں نا! ایسے لوگوں کی مدد کی جاۓ جو کے چپ چاپ دردِ دل لیے زندگی گزار رہے ہیں ! دیکھو کتنی آنکھوں کے خواب زیست کی روشنی پانے سے قاصر ہیں کتنے لوگ مانگنے والے کڑکتی دھوپ میں تپ رہے ہیں جن میں کتنے لوگ جو کہ صحت مند لوگ ہیں لیکن کام پر مانگنے کو ترجیح دیتے ہیں۔۔۔۔

کیوں نا؟ اپنے حصہے کی شمع جلائ جاۓ اور جگنوں کو اکھٹا کیا جاۓ تاکہ اندھیرے ختم ہو جاۓ اور بہاریں راج کریں ۔
بے شک ہم سب کی مدد نہیں کر سکتے مگر جہاں تک رسائ کر سکتے ہیں کر لیں!!!۔"

اور آج وہ نورین اختر ایک organization چلا رہی ہے"آؤ دنیا بدلیں " کے نام سے چلا رہی ہیں اور اپنی آنکھوں کے خواب کو عملی کا جامہ پہنانا چاہ رہی ہے جن میں beggars project ان کی سب سے پہلی فوقیت رہی ہے ۔۔
بہت سے لوگوں کی help سے اور ﷲ پاک کی حکمت سے انہوں نے خلوص دل سے اور بغیر کچھ غلط کیے، بہت سے نیک کاموں کا آغاز کر لیا ہے اور بہت سے کاموں کا کرنا چاہ رہی ہیں ۔۔۔
نورین کا وعدہ ہے کہ وہ دیے گۓ پیسے ضرورت مندوں کو ہی دیں گی نہ کے بہت سے اداروں کی طرح corruption کریں گی ۔۔۔
وہ پُر عزم ہیں تو آئیے اِس نیک کام میں اپنا نام بھی شامل کرتے ہیں ۔۔۔
سب کے بس میں جتنا ہے دیے گۓ نبر پر contribute کر دے انشاﷲ ۔۔ضرورت مندوں تک آپکی امداد پہنچ جاۓ گی نورین کا وعدہ ہے۔۔۔جزاک ﷲ۔۔

اِس دنیا کے ہیں رنگ بہت
ڈھنگ بہت ، نیرالے ہیں
آؤ اپنے حصے کی شمع روشن کریں
آؤ مل کر دنیا بدلتے ہیں !!!!
 

Sadia Ijaz Hussain
About the Author: Sadia Ijaz Hussain Read More Articles by Sadia Ijaz Hussain: 21 Articles with 24506 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.