مشرق وسطیٰ میں اسرائیل وہ واحد ریاست ہے جونظریات کی
بنیاد پر وجود میں آئی ،جس طرح فلسطین میں ظلم و ستم کا نہ ختم ہونے والا
سلسلہ چل رہا ہے اور یہی کچھ برصغیر میں اسرائیل کا حلیف بھارت کشمیریوں کے
ساتھ کر رہا ہے ۔۔ کیمیکل ہتھیاروں کااستعمال ، ناکہ بندی ، موارائے عدالت
قتل ، مقامی آبادی کو بے دخل کرنا ، باہر سے آبادی کو لاکر بسانا اور بڑے
پیمانے پر مسلمانوں کی نسل کشی جیسے اقدامات میں بھارت اور اسرائیل ایک
جیسی شہرت رکھتے ہیں ۔ دوسال قبل بھارت نے اپنے زیرتسلط کشمیر میں کالے
قوانین کے نفاذکا اپنا ہی ریکارڈ توڑتے ہوئے ایک اورقانون منظور کیا تھاجسے
کشمیری عوام نے مکمل طور پر مسترد کر دیا تھا۔کشمیری نوجوانوں کے ہیرو
برہان وانی کی شہادت کے بعد جس طرح تحریک آزادی کی لہر میں اٹھان پیدا ہوئی
تھی ، بھارت نے اسے اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے آزادی کی صدا دبانے کے لیے
وادی کے لیے نیا قانون نافذ کر دیا تاکہ ظلم و ستم کا نیا سلسلہ شروع کیا
جائے ۔ یوں تو بھارتی جبرواستبداد کا یہ سلسلہ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری
ہے لیکن دوسال قبل آرٹیکل 35اے اور 370کو یک طرفہ طور پر ختم کرکے اسرائیلی
طرز پر ظلم و ستم کا ایک نئے سلسلہ کا آغاز کیا گیاجس کے تحت مقبوضہ کشمیر
میں وسیع پیمانے پر نسل کشی کے ساتھ ساتھ ہندو آبادی کو بھی بڑھادیا جائے ۔
یوں ہندو توانظریہ کی پیروکار مودی سرکا رنے سنگھ پریوار کے ایجنڈے کو آگے
بڑھاتے ہوئے وزیر داخلہ امیت شاہ کی سرگردگی میں ایک مقبوضہ کشمیر کی
خودمختار حیثیت کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ ہندوتوا نظریہ بنیادی طور پر
بھارت کے سیکولر تشخص پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ۔اس نظریے کے مطابق
ہندوستان صرف ہندووں کی ریاست کا نام ہے اور اس کا پھیلاؤ مکمل برصغیر میں
ہو نا چاہیے ۔ بھارت گزشتہ کئی سالوں سے جس سیکولر کا نقاب اوڑھ کر دنیا کے
سامنے پیش ہو رہا تھا مودی سرکار نے اپنے ایجنڈے کے نفاذ سے اس کو تار تار
کر دیا ۔اس کا اثر صرف ہندوستان پر ہی نہیں پڑھا بلکہ مقبوضہ کشمیر کے
مسلمان بھی براہ راست اس کا نشانہ بنے جو 1931سے اپنی آزادی کے لیے جدوجہد
کر رہے تھے ۔ یہاں یہ نکتہ بھی بہت اہم ہے جس کا ذکر کیا جانا ضروری ہے کہ
برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کی تحریک میں بھی بہت سے رہنما ایک مشترک آذاد
ریاست کے حامی تھے لیکن وقت نے آہستہ آہستہ ہندو رہنماؤں کے اہداف سے پردہ
اٹھا دیا اورمسلمانوں کے لیے ایک آزاد ریاست پاکستان کا قیام اسی کا مرہون
منت تھا ورنہ مسلمانوں کے کئی رہنما اس کا شکار ہو رہے تھے ۔کشمیر بھی
برصغیرکی تقسیم کا ہی ایک نامکمل ایجنڈہ ہے جسے بھارت نے برطانیہ کے چند
مہروں کے ساتھ مل کر زبردستی اپنا تسلط جما لیا تھا۔ کشمیریوں نے قیام
پاکستان سے پہلے ہی اپنے مستقبل کا فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ آزاد ریاست
پاکستان کے ساتھ شامل ہوں گے لیکن ڈوگرا راج کے ظلم اور بھارتی افواج کی
مداخلت نے کشمیریوں کے اس خواب کو شرمندہ تعبیر نہ ہونے دیا۔ کشمیریوں نے
تحریک آزادی کا آغاز کیا اور اس وقت سے مسلسل کشمیریوں کی پانچویں نسل ہے
جو اپنے خطے کی آزادی کے لیے مسلسل جدوجہد میں مصروف ہے۔
کشمیریوں کی تحریک آزادی کو دبانے کے لیے بھارت نے ہر قسم کے حربے آزمالیے
تاہم وہ اسے ختم کرنے میں ناکام رہا ۔ نوے کی دہائی میں کشمیری نوجوان جب
عالمی اداروں کی خاموشی اور بے حسی کی وجہ سے مایوس ہوگئے تو تحریک آزادی
میں عسکری جدوجہد کا اضافہ بھی ہو گیا اور کشمیری نوجوانوں نے بھارتی
تھانوں میں تشدد اور اذیت سہنے کے بجائے اپنی قوم کے بہتر مستقبل کے لیے
بھرتی فوج کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ۔ اس دوران بھارتی افواج نے ظلم و
ستم کے وہ ریکارڈ قائم کیے کہ انسانیت بھی شرما جائے ۔ عالمی سطح پر انسانی
حقوق کی مختلف رپورٹس آنے کے باجود عالمی اداروں کی بے حسی کا سلسلہ جارہی
رہا۔ عالمی طاقتیں بھارت کو تجارتی مارکیٹ سمجھ کر مقبوضہ کشمیر میں ہونے
والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اندھی گونگی اور بہری بنی رہیں ۔ بھارت
نے نوجوانوں کی اس تحریک کو دبانے کے لیے آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ، پبلک
سیفٹی ایکٹ، ڈسٹربنسڈ ایریا ایکٹ سمیت کئی مقامی سطح پر کالے قوانین بنائے
اور ان کی آڑ میں افواج و پولیس کو کھلی چھٹی دے دی ۔ کریک ڈاؤن، مکانات و
دوکانوں کا جلانا، نوجوانوں کا ماورائے عدالت قتل، جعلی انکاؤنٹرز ، ٹارچرز
سیل میں نوجوانوں اور خواتین پر ظلم وستم، اجتماعی عصمت دریاں جیسے اقدامات
کے ذریعے بھارتی افواج نے کشمیری عوام کے جذبہ آزادی کو کچلنا چاہا لیکن یہ
چنگاری ختم ہونے کی بجائے مزید بڑھتی چلی گئی ۔ نائن الیون کے بعد بھارت کو
مزید شہہ ملی اور اس نے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے دہشت گردی
کا واویلا شروع کر دیا جس کی وجہ سے عالمی قوتوں نے بھی کشمیر سے آنکھیں
چرانا شروع کر دیں ۔جس طرح گلوبلائزیشن اور ڈیجیٹل میڈیا نے دیگر دنیا کے
معاملات کو متاثر کیا اسی طرح کشمیری نوجوانو ں نے بھی سوشل میڈیا پر
بھرپور کام شروع کیا اور برہان وانی نے سوشل میڈیا کے ذریعے عالمی سطح پر
لوگوں کے ضمیر جنجھوڑنا شروع کر دیے ۔دیکھتے ہی دیکھتے برہان وانی مزاحمت
اور تحریک آزادی کا ہیروبن گیا اور جب بھارتی افواج نے اسے بھی جعلی
انکاؤنٹر میں شہید کیا تو کشمیری قوم میں بالعموم اور نوجوانوں میں بالخصوص
بیداری کی ایک ایسی لہر پیدا ہوئی جس کو روکنا بھارت کے بس سے باہر ہو گیا
اور عالمی ذرائع ابلاغ میں بھارتی کرتوتوں کا پردہ چاک ہو نا شروع ہوا ۔
اسی کو دیکھتے ہوئے مودی سرکار نے کشمیرکی خود مختاری کو ختم کرتے ہوئے نئے
قانون کی منظوری دے دی ۔ جس طرح اسرائیل نے فلسطین کی زمینوں پر باہر سے
یہودی لاکر بسائے تاکہ وہاں آبادی کا تناسب یہودیوں کے حق میں کیا جائے اسی
طرح مقبوضہ کشمیر میں بھی یہی طرز اختیار کیا گیا جس کی رکاوٹ میں آرٹیکل
35A اور 370تھے بھارت نے اسے ختم کرکے کشمیر کے عوام کے بنیادی حقوق ہی سلب
کر لیے ۔اس کے ردعمل کا یقینی طور پر بھارت کو اندازہ تھا اسی لیے اس قانون
کے نفاذ کے اعلان کے ساتھ ہی مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کا نفاذ کر دیا گیا ،
تعلیمی اداروں کو بند کر دیا ، انٹرنیٹ اور ٹیلیفون کی سہولت بھی ختم کرکے
وادی کا دنیا سے رابطہ ختم کر دیا گیا یوں بھارت نے اسی لاکھ کی آبادی کو
پوری دنیا سے الگ کر دیا تاکہ اپنی مرضی کے نتائج حاصل کر سکے ۔ اس سلسلہ
میں بھارت نے حریت پسند سمیت ان تمام سیاسی رہنماؤں کو بھی نظر بند کر دیا
جو بھارت نواز تھے ۔ اب اس قانون کو نافذ ہوئے دوسال کا عرصہ مکمل ہو چکا
ہے ۔ بھارت نے عالمی سطح پر اپنے من پسند عالمی ذرائع ابلاغ کے رہنماؤں اور
یورپی یونین کے رہنماؤں کو مخصوص علاقوں میں دورہ کروا کر یہ ثابت کرنے کی
کئی دفعہ کوشش کی کہ مقبوضہ کشمیر میں ہر طرف امن ہے لیکن اس کے باوجود اس
کا یہ ڈرامہ فلاپ ہوتا چلا گیا اور عالمی سطح پر اب اس کاکم از کم یہ ذکر
آنا شروع ہو چکا ہے کہ بھارتی افواج اپنے ناجائز قبضے کے دوران انسانی حقوق
کی سنگین خلاف ورزیاں کر رہی ہے ۔
بھارت کے اس یکطرفہ اقدام کو پاکستان نے بھی مسترد کر دیا اور عالمی سطح پر
مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لیے ایک بہت بڑی مہم کا آغاز کیا ۔ اگرچہ اس
موقع پر پاکستان نے جارحانہ سفارتکاری کا آغاز کیا تھا لیکن آہستہ آہستہ
سرگرمیاں محدود ہوتی گئیں ۔ اس میں قطعی دورائے نہیں ہے کہ پاکستان
کشمیریوں کا وکیل ہے اور کشمیری پاکستان سے اپنی محبت کا اظہار اپنے شہداء
کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر دفن کرکے کررہے ہیں لہٰذا پاکستان کو بھی
عالمی و سفارتی سطح پر اپنی کوششوں کو تیز کرنا چاہیے ۔مودی سرکار کے برسر
اقتدار کے بعد سے جس طرح کشمیریوں پر ظلم و ستم میں تیزی آئی ہے اسے روکنے
کے لیے سفارتی سطح پر بھرپور اور موثر انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ
نوشتہ دیوار ہے کہ بھارت کشمیریوں کی تحریک کو دبانے میں مکمل ناکام ہو چکا
ہے اور یہ تحریک مسلسل جاری و ساری ہے اور وہ دن دور نہیں جب کشمیر کے عوام
بھی اپنی قربانیوں کا ثمر آزادی کے سورج طلوع ہونے کی شکل میں دیکھ سکیں
گے۔
|