ویل ڈن مائی ڈیئرز، ویل ڈن، وی آر آل پراﺅڈ آف یو

لفظوں کو محبت و اخلاص کا حسن و جمال بخشنے والے عاشق رسول معروف کالم نگار، ہر دلعزیز”عالم آن لائن“ مجاہد تحفظ ناموس رسالت، محترم ڈاکٹر عامر لیاقت حسین جنہیں بد نام زمانہ گستاخِ رسول سلمان رشدی کے خلاف کالم لکھنے کی پاداش میںوفاقی وزارت سے علیحدہ، قومی اسمبلی سے استعفیٰ اور ایم کیوایم کی بنیادی رکنیت سے خارج ہونا پڑا۔ سچ گوئی اور اظہار جرات و بےباکی پر مبنی کالموں کی اشاعت کے بعد ان پر مصائب و تکالیف کے کئی پہاڑ توڑے گئے، مگر وہ ہمیشہ ثابت قدم رہے۔ ان کے کالم کاہر لفظ گستاخان رسول کے لیے غازی علم الدین شہیدؒ کا خنجر ثابت ہو رہا ہے اللہ کرے یہ مرحلہ شوق نہ ہو طے۔

سترہ سالہ دانیال جس کے ایک انکار نے اسلام آباد کی اشرافیہ کو حیران نہیں بلکہ پریشان کر دیا۔ انکار کا یہ واقعہ پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کے ڈرامہ ہال میں6 نومبر 2008ءکو پیش آیا، جہاں وفاقی دارالحکومت کے ایک معروف انگریزی میڈیم سکول کی تقریب انعامات جاری تھی، رمضان المبارک کے باعث یہ تقریب صبح دس بجے سے بارہ بجے کے درمیان منعقد کی گئی اور اتوار کا دن ہونے کے باعث ڈرامہ ہال طلبا و طالبات اور اُن کے والدین سے بھرا ہوا تھا، ان والدین میں شہر کے لوگ شامل تھے، اس تقریب پر مغربی ماحول اور مغربی موسیقی غالب تھی.... اس دوران سکول کی طالبات نے جنید جمشید کے ایک پرانے گیت پر رقص پیش کیا، یہ گیت ایک سانولی سلونی کے بارے میں تھا، جو شہر کے لڑکوں کو اپنا دیوانہ بنالیتی ہے، ادھر طالبات نے اس گیت پر دیوانہ وار رقص کیا۔ رقص کے بعد اسٹیج سے اولیول اور اے لیول کے امتحانات میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے طلباءو طالبات کے نام پکارے جانے لگے، گولڈ میڈل حاصل کرنے والی بعض اسکارف اوربرقعے میں ملبوس تھیں، ایک طالب علم ایسا بھی تھا جس کے چہرے پر نئی داڑھی آئی تھی اورجب پرنسپل صاحبہ نے اس کے گلے میں گولڈ میڈل ڈال کر اس کے ساتھ ہاتھ ملانا چاہا تو دبلے پتلے طالب علم نے نظریں جھکا کر اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ پرنسپل صاحبہ نے پوچھا کہ کیا تم ہاتھ نہیں ملانا چاہتے؟ طالب علم نے نفی میں سر ہلایا اوراسٹیج سے نیچے اتر آیا، پھر دانیال کا نام پکارا گیا، جو اے لیول مکمل کرنے کے بعد ایک امریکی یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہے اور صرف گولڈ میڈل حاصل کرنے اپنے پرانے سکول کی تقریب میں بلایا گیا تھا، وہ گولڈ میڈل وصول کرنے کے لیے پرنسپل صاحبہ کی طرف نہیں گیا بلکہ ڈائس پر جا کر کھڑا ہوا اورمائیک تھام کر کہنے لگا کہ وہ اپنے اسکول کی انتظامیہ کا بہت شکر گزار ہے کہ اسے گولڈ میڈل کے لیے نامزد کیاگیا، لیکن اسے افسوس ہے کہ اس تقریب میں طالبات نے رمضان المبارک کے تقدس کا خیال نہیں کیا اور واہیات گیت پر رقص کیا، اس نے کہا مسلمانوں کے ملک میں رمضان المبارک کے تقدس کی پامالی کے خلاف بطور احتجاج وہ گولڈ میڈل وصول نہیں کر ے گا، یہ کہہ کر وہ اسٹیج سے اتر آیا اور ہال میں ہربونگ مچ گئی۔

کچھ والدین اورطلبا تالیاں بجا کر دانیال کی حمایت کر رہے تھے اور کچھ چیخیں، گیٹ آﺅٹ طالبان، گیٹ آﺅٹ طالبان!! ایسا محسوس ہوتا تھا کہ مخالفین حاوی ہیں، کیونکہ وہ بہت زیادہ شور کر رہے تھے، لیکن یہ کھلبلی وفاقی دارالحکومت کی اشرافیہ میں ایک اور واضح تقسیم کا پتہ دے رہی تھی، یہ تقسیم لبرل عناصر اور بنیاد پرست اسلام پسندوں کے درمیان تھی۔ پرنسپل صاحبہ نے خود مائیک سنبھال کر صورت حال پر قابو پایا اور تھوڑی دیر کے بعد ہوشیاری سے ایک خاتون دانشور کو اسٹیج پر بلایا اور خاتون نے اپنی گرج دار آواز میں دانیال کو ڈانٹ پلاتے ہوئے کہا کہ تم نے جو کچھ کیا وہ بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناحؒ کی تعلیمات کے خلاف تھا، کیونکہ بانی پاکستان روا داری کے علمبردار تھے۔

پچھلی نشستوں پر براجمان ایک اسکارف والی طلبہ بولی کہ بانی پاکستان نے یہ کب کہا تھا کہ مسلمان بچیاں رمضان میں اپنے والدین کے سامنے سانولی سلونی محبوبہ بن کر ڈانس کریں؟ ایک دفعہ پھر ہال میں غل بلند ہوا اور اس مرتبہ بنیاد پرست حاوی تھے، لہٰذا پرنسپل صاحبہ نے مائیک سنبھالا اور کہا کہ طالبات کے رقص سے اگر کسی کے جذبات مجروح ہوئے ہیں تو وہ معذرت خواہ ہیں، اس واقعے نے اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا، سفارت خانے نے فوری طور پر ایک ماہر تعلیم کی خدمات حاصل کیں اور اسے کہا گیا کہ وہ اسلام آباد کے پانچ معروف انگریزی میڈیم اسکولوں میں اولیول اور اے لیول کے ایک سو طلبا و طالبات سے امریکی پالیسیوں، طالبان اوراسلام کے بارے میں رائے معلوم کریں۔ سروے رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایک عام گناہ گار مسلمان بھی شعائر اسلامی کی توہین برداشت نہیں کرسکتا۔ اور اُس کے تحفظ کے لیے وہ ہرحد عبور کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔

ہارورڈیونیورسٹی(Harvard University) امریکہ کے ہونہار طالب علم محترم صمد خرم جنہوں نے18 جون2008ءکو نیشنل آرٹ گیلری اسلام آباد میں منعقدہ تقریبِ تقسیم اکیڈمک ایکسیلنٹ ایوارڈ میں مہمانِ خصوصی امریکی سفیر اینی پیٹرسن(Anne Patterson) سے احتجاجاً ایوارڈ وصول کرنے سے انکار کیا اور اُن سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ امریکہ صدر پرویز مشرف کی حمایت کرتا ہے جو غیر آئینی صدر ہے اور پاکستان کے عدالتی نظام کو تباہ و برباد کر رہا ہے۔ مزید برآں امریکہ، ڈرون طیاروں کے ذریعے وزیرستان بالخصوص مہمند ایجنسی پر بمباری کر رہا ہے جس سے سینکڑوں معصوم اور بے گناہ افراد شہید ہوتے ہیں، لہٰذا بحیثیت پاکستانی آپ سے ایوارڈ لینا میں اپنی ملی غیرت کے منافی سمجھتا ہوں۔

پنجاب یونیورسٹی لاءکالج کے سالانہ کانووکیشن کے موقع پر ایل ایل بی کے امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والے محب وطن طالب علم محترم محمد شاہد جنہوں نے 11اکتوبر 2009ءکو مہمانِ خصوصی گورنر پنجاب سلمان تاثیر(چانسلر پنجاب یونیورسٹی) سے احتجاجاً گولڈ میڈل لینے سے انکار کیا اور کہا کہ آپ اسلام اور پاکستان کے مفادات کے خلاف بیانات دیتے رہتے ہیں ۔ مزید آپ نے12 مئی2008ءکو کراچی کے شرمناک واقعات کی کوئی مذمت نہیں کی، لہٰذا میں آپ سے ایوارڈ لینا اپنے ضمیر کے خلاف سمجھتا ہوں۔

OFP گرلز کالج اسلام آباد کی(اے لیول کے امتحان میں تمام مضامین میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والی) غیور طالبہ محترمہ اسما وحید جنہوں نے 22 جنوری2010ءکو کالج میں امتحانات میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والی طالبات کے اعزاز میں منعقدہ ایک تقریب میں مہمان خصوصی ایم کیو ایم کے مرکزی رہنما اور وفاقی وزیر (سمندر پار پاکستانیز) ڈاکٹر فاروق ستار سے احتجاجاً سرٹیفکیٹ وصول کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ آپ کا شمار صدر پرویز مشرف کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے۔جس نے کئی بے گناہ پاکستانیوں کو بھاری ڈالروں کے عوض امریکہ کے حوالے کیا۔ ان میں ایک ڈاکٹر عافیہ صدیقی بھی شامل ہے۔ اس جرم میں آپ بھی برابر کے شریک ہیں، لہٰذا آپ سے ایوارڈ وصول کرنامیں اپنی ہتک محسوس کرتی ہوں۔

دی یونیورسٹی آف فیصل آباد سے ٹیکسٹائل انجینئرنگ میں تیسری پوزیشن حاصل کرنے والے، نیک بخت طالب علم محترم صاحبزادہ عطا رسول مہاروی جنہوں نے16 نومبر2009ءکو یونیورسٹی کے سالانہ کانووکیشن میں مہمان خصوصی گورنر پنجاب سلمان تاثیر سے احتجاجاً براﺅنز میڈل وصول کرنے سے انکار کیا اور حقارت سے کہا کہ آپ نہ صرف گستاخانِ رسول کی سرپرستی کرتے ہیں، بلکہ توہین رسالت ایکٹ 295/c کو کالا قانون، اور اسے ختم کرنے کے بیانات بھی جاری کرتے ہیں۔ اس طرح آپ بذات خود توہین رسالت کے مرتکب ہوئے ہیں، لہٰذا آپ سے میڈل وصول کرنا میں گناہ سمجھتا ہوں۔

اسلام اور پاکستان کی سرحدوں کے ان سچے محافظوں کو جب میں دیکھتا ہوں تو اقبالؒ کی زبان میں سوچتا ہوں، ایسی چنگاری بھی یا رب، اپنی خاکستر میں تھی!

ویل ڈن مائی ڈیئرز، ویل ڈن، وی آر آل پراﺅڈ آف یو!

پوری ملت اسلامیہ آپ کی دینی غیرت و حمیت پر آپ کو اور آپ کے والدین کو سیلوٹ کرتی ہے۔
غیرت ہے بڑی چیز جہاں تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِدارا
Muhammad Mateen Khalid
About the Author: Muhammad Mateen Khalid Read More Articles by Muhammad Mateen Khalid: 17 Articles with 27957 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.