بھارت کی طرف سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت
کشمیر میں رائے شماری کرانے کے مطالبات نظر انداز کرنے اور کشمیریوں کے
حقوق پر آئینی شب خون مارنے کے دو سال مکمل ہوچکے ہیں۔لاکھوں کی تعداد میں
بھارتی شہری جن میں اکثریت انتہا پسند قابض فورسز کی ہے، مقبوضہ ریاست میں
زمینیں اور جائیدادیں خرید رہے ہیں۔ بھارتی شہریوں کو سرمایہ کاری کی آڑ
میں اراضی دی جا رہی ہے۔ مقبوضہ ریاست میں پہلے سے آباد بنگالی ہندؤں
اورغیر کشمیریوں کو ڈومیسائل اسناد، کشمیری شہریت دی جا رہی ہیں۔آزادی
پسندوں ہی نہیں بلکہ بھارت نواز کشمیریوں پر سخت اور جبری پابندیاں عائد کر
دی گئی ہیں۔دو سال قبل 5گست2019کو بھارت کی انتہا پسند مودی حکومت نے یو
این سلامتی کونسل کی قراردادوں کی مزید خلاف ورزی کی۔ انہیں پامال کیااور
سابق امریکی صدرڈونالڈٹرمپ کے ایک شاطرانہ ٹریپ کے طور پر امریکی ثالثی کی
مسلسل پیشکشوں کے بعد بالآخر مقبوضہ جموں و کشمیر کی ریاستی اورخصوصی
پوزیشن ختم کر دی۔ مقبوضہ ریاست کی بھارت کے ساتھ نام نہاد اور مشروط الحاق
کی آرٹیکل 370 اور 35اے جیسی بنیاد مٹا دی۔ مقبوضہ ریاست کے دو ٹکڑے کر کے
دونوں کو بھارتی مرکزی حکومت کے زیر انتظام کالونی نما ’’یونین
ٹیریٹریز‘‘بنا دیا۔
کشمیر کو کالونی کا درجہ دینے کا یہ فارمولہ گو کہ بی جے پی کے الیکشن
منشور کا حصہ تھا مگراس پر عمل در آمد وزیراعظم عمران خان کی صدر ٹرمپ سے
کامیاب قرار دی گئی دوستانہ ملاقات کے بعد ہنگامی طور پر کیا گیا۔ کشمیریوں
کی مرضی کے خلاف ان پر بھارتی قوانین نافذ کر دیئے گئے۔ پہلے بھارت کا کوئی
بھی قانون مقبوضہ کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کی منظوری کے بغیر ریاست میں
قطعاً نافذ العمل نہ ہو سکتا تھا۔ اب بھارتی قوانین یک دم نافذ ہو رہے
ہیں۔سرکاری تنصیبات سے کشمیر کا پرچم اتار دیاگیاہے۔مقبوضہ ریاست میں
بھارتی ترنگے لہرا رہے ہیں۔ یہ سب ڈرامہ پہلے گورنر اور پھر صدارتی راج کے
دوران رچایا گیا۔ بھارت کی اس وقت 29ریاستیں اور سات مرکز کے کنٹرول والے
علاقے ہیں۔ 29ریاستوں میں مقبوضہ جموں وکشمیر بھی شامل تھی۔ اب بھارت نے
مقبوضہ جمو ں و کشمیر کو دہلی اور پانڈو چری جیسا مرکزی انتظام والا علاقہ
بنا دیا جس کی قانون ساز اسمبلی ہو گی ۔ مگر اسے آئین سازی کا اختیار حاصل
نہ ہو گا۔ سٹیٹ اور یونین علاقے میں کافی فرق ہے۔ سٹیٹ ایک آزاد یونٹ ہوتا
ہے۔ جس کی اپنی اسمبلی اور حکومت ہو۔ جس کا وزیراعلیٰ ہو۔ سلامتی، صحت
عامہ، گورننس ، ریونیو وغیرہ کا وہ خود ذمہ دار ہو۔ یونین علاقہ پر بھارت
کی سنٹرل حکومت کا کنٹرول ہوتا ہے۔ جس کا ایڈمنسٹریٹر لیفٹننٹ گورنر ہوتا
ہے۔ جو سنٹرل حکومت کا مقررکردہ اورصدر ہند کا نمائیندہ ہوتا ہے۔ یونین
علاقوں کی بھارت کی پارلیمنٹ کے ایوان بالا راجیہ سبھا میں کوئی نمائیندگی
نہیں ہوتی۔ تا ہم دہلی اور پانڈو چری کی نمائیندگی ہے۔ تعلیم اور میونسپل
معاملات چیف منسٹر دیکھتا ہے اور سلامتی سمیت دیگر امور لیفٹننٹ گورنر کی
سفارش پر مرکزی حکومت دیکھتی ہے۔ سٹیٹ کا اپنا ایڈمنسٹریٹو یونٹ ہوتا ہے جس
کی اپنی منتخب حکومت ہوتی ہے۔ یونین علاقہ کو سنٹرل حکومت کنٹرول کرتی ہے
اور انتظام چلاتی ہے۔ سٹیٹ کا ایگزیکٹو سربراہ گورنر اور یونین کا صدر ہوتا
ہے۔ سٹیٹ کو اٹانومی حاصل ہوتی ہے مگر یونین کو یہ خودمختاری حاصل نہیں۔
بھارت نے دہلی کی طرح اب مقبوضہ جموں و کشمیر کے اختیارات چیف منسٹر اور
گورنر کے درمیان تقسیم کر دیئے۔ اب بھارتی آئین مقبوضہ جموں و کشمیر پر من
و عن نافذ العمل ہورہا ہے۔ مقبوضہ جمو ں و کشمیر میں صرف بھارت کا پرچم
لہرائے گا۔ بھارت کی حکومت کی جانب سے اپنے آئین میں مقبوضہ جموں و کشمیر
کو حاصل خصوصی پوزیشن کے خاتمے پر بڑے زور و شور سے بحث و مباحثہ جاری
رہاہے۔
بھارت کی ناگالینڈ، میزورم، سکم، ارونا چل پردیش، آسام، منی پور، آندھرا
پردیش، گوا جیسی ریاستوں کو آئین کی دفعہ 371کی زیلی سیکشن اے، سی، جی کی
مختلف شقوں کے تحت خصوصی پوزیشن حاصل ہے۔مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی
پوزیشن کی وجہ سے آج تک بھارت آبادی کے تناسب کو تبدیل نہ کر سکا اور جموں
و کشمیر کی سٹیٹ سبجیکٹ قانون کے تحت شناخت قائم رہی۔ بھارت عدلیہ کی مدد
سے ایسا چاہتا تھا۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ آف انڈیا میں ایک درخواست دائر
کی گئی۔ جس میں عدالت سے بھارتی آئین کی دفعہ 35اے ختم کراناتھی۔ اس کے
خلاف مقبوضہ کشمیر میں مسلسل ہڑتالیں اور مظاہرے ہو ئے۔ احتجاج میں جموں
خطے کے عوام بھی شامل ہو گئے ۔ جموں کی بار ایسو سی ایشنز بھی میدان میں
آئیں۔ عوام کو خدشہ تھا کہ بھارتی سپریم کورٹ اس بار بھی عوام کی تسکین کے
لئے فیصلہ کشمیر کے بجائے بھارتی عوام کے مفاد میں کر ے گی۔ ایسا اس نے
پہلے بھی کیا ہے کہ جب بھارتی عوام کی خواہش کے مطابق انصاف کے تقاضوں کے
برعکس فیصلہ کیا گیا۔ کشمیری حریت پسند محمد افضل گورو کو اسی فیصلے کی
روشنی میں پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ مقبوضہ جموں کشمیر کی آئینی پوزیشن کو
کھوکھلا کر نے کی بد نیتی سے بھارت نے اس میں اتنی ترامیم کی ہیں کہ آئین
ہند کا آرٹیکل 370 ایک مذاق بن کر رہ گیاتھا۔ سب سے پہلے غلام محمد صادق
حکومت میں مقبوضہ کشمیر سے وزیر اعظم اور صدر ریاست کے عہدے چھین لئے
گئے،اس سے پہلے مقبوضہ ریاست میں آزاد جموں و کشمیر کی طرح وزیراعلیٰ کے
بجائے وزیراعظم اور گورنر کی جگہ صدر کے عہدے تھے۔مقبوضہ جموں وکشمیر کے
آئین کو بے بال وپر بنانے کے لئے کم و پیش 350 بھارتی ایکٹ ریاست پر لاگو
کئے گئے۔ اس آرٹیکل کو 14 مئی 1954ء کوبھارت کے ایک صدارتی حکم نامے کے
ذریعے دفعہ 370 کی بنیاد پر آئین ہند میں شامل کیا گیا۔ 35A کے تحت جموں
کشمیر کی ریاست کے پشتینی باشندوں کو خصوصی مراعات اور حقوق فراہم کرنے کا
آئینی و قانونی سہارا دیا۔ آئین ہند کے آرٹیکل 35A کی وجہ سے کوئی بھی غیر
ریاستی غیر کشمیری باشندہ ریاست جموں و کشمیر میں جائیداد خرید نہیں سکتا
تھا، ریاستی حکومت کے تحت چلنے والے پروفیشنل کا لجوں میں داخلہ نہیں حاصل
کر سکتاتھا، غیر ریاستی فرد سکالر شپ حاصل کرنے کا حق دار نہیں تھا، سرکاری
ملازمت نہیں کرسکتاتھا،مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی اور پنچایتی انتخابات میں
ووٹ نہیں ڈال سکتاتھا۔اگر کوئی ریاستی خاتون کسی غیر ریاستی شہری سے شادی
رچائے تو وہ پشتنی باشندہ حقوق سے محروم ہو جاتی تھی۔اسی بنا پر بھارتی
سپریم کورٹ میں ایک ایسی ہی کشمیری خاتون نے اس قانون کو چیلنج کیا جس کی
شادی غیر ریاستی سے ہوئی۔ اب کشمیرمیں غیر ریاستی باشندوں کو بسانے کی
قانونی راہیں کھول دی گئی ہیں ۔جس سے ریاستی عوام کے تمام قانونی حقوق
پامال ہو کر رہ گئے ہیں۔یہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں آبادی کا تناسب بگاڑ نے
کا اوچھاحربہ ہے ۔جس کا مقصد جموں وکشمیر کی انفرادیت و تشخص ہمیشہ کیلئے
ختم کر نا ہے۔ یہ سب مقبوضہ کشمیر میں اسرائیل طرز پر ہندو آبادی کو بسانے
اور کشمیری مسلم آبادی کو اقلیت میں بدلنے کی مہم ہے۔دو سال گزرنے کے
باوجود اس سنگین مسلہ کو دلائل اور سنجیدگی کے ساتھ دنیا کے سامنے نہ لایا
جاسکا۔ توقع تھی کہ عمران خان اور ان کے رفقاء اس جانب فوری توجہ دیں گے۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے مثبت نتائج بر آمد ہوں گے۔ اگر بقول عمران خان
حکومت ، اس نے دنیا کو آگاہ کیا ہے۔ مگر کسی سفارتی اور سیاسی کوشش کے مثبت
نتائج سامنے نہیں آ سکے ہیں۔بھارت نے وادی کشمیر کو غزہ کی پٹی بنا دیا ہے۔
سلامتی کونسل کی قراردادوں کو مسترد کرتے ہوئے کشمیر کو اپنی کالونی کا
درجہ دے دیا ہے۔ کشمیر کا دنیا سے مواصلاتی رابطہ، انٹرنیٹ، ٹیلیفون،
موبائل سروس بندشوں اور پابندیوں کی زد میں ہے۔ تا کہ بھارتی فورسز کو
کشمیریوں کے قتل عام کو تیز کرنے کا موقع مل سکے اور دنیا کو کچھ پتہ ہی نہ
چلے۔ کشمیری فریق اور وکیل پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان کیسے دنیا
کو سفارتی طور پر بھارتی جارحیت سے موثر انداز میں جھنجھوڑتاہے تا کہ عالمی
برادری ترکی کی طرح بھارت پر دباؤ ڈال سکے۔ سلامتی کونسل کے اجلاس بھی طلب
ہوئے تا کہ بھارت کی فوج کشی اور سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل در آمد
پر بات کی جائے۔ مگر بھارت پہلے سے بھی زیادہ مظالم ڈھا رہا ہے۔
عمران خان کی پی ٹی آئی گلگت بلتستان کے بعد آزاد کشمیر میں بھی بر سر
اقتدار آ چکی ہے۔اس کی زمہ داریاں بڑھ گئی ہیں۔پاکستان نے دنیا کی
دارلحکومتوں میں سرگرم با اثر تھینک ٹینکس سے رجوع کیا ہے مگر دنیا کے
سفارتکارپنی حکومتوں کو بھارتی جارحیت کی درست معلومات اور سفارشات فراہم
نہ کر سکے۔ پاکستان کے پاس بھارتی جارحیت کے بعد تنازعہ کے پر امن حل کے
کئی آپشنزہیں۔ او آئی سی جیسا پلیٹ فارم ہے۔ سارک کے بعض ممالک کی خدمات
بھی حاصل ہو سکتی ہیں۔ جنگ بندی لائن کی نگرانی کے لئے یہاں موجود اقوام
متحدہ کے فوجی مبصرین کا بھی کردار اہم ہے۔ اسلام آباد کو مکمل ہوم ورک اور
تیاری کے ساتھ اپنا کیس دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے۔ بھارت کے چین کے ساتھ
سرحدی تعلقات کشیدہ ہیں، چین نے ایران کے ساتھ نئے تعلقات استوار کئے ہیں۔
پاکستان کو اپنی سفارتکاری کو اس طرح ترتیب میں لانا ہو گا کہ جس سے بھارت
کو پاکستان کے مفادات پر چوٹ لگانے سے روکا جا سکے۔ بھارتی غیر آئینی
جارحیت کو دنیا کے سامنے لانے کی ضرورت ہے۔مقبوضہ ریاست کی مسلم اکثریت کو
ہندوآبادی لا کر بسانے سے اقلیت میں بدلا جا رہا ہے۔مگر مسلم دنیا خاموش
تماشائی ہی نہیں بنی ہوئی ہے بلکہ وہ بھارت کے ساتھ دوستی اور تجارت کو
فروغ دے رہی ہے۔ عمران خان حکومت کو یہ سنگین معاملہ اپنی ترجیحات میں شامل
کرنا ہے۔
|